ٹیگ کے محفوظات: تتلیاں

چاہتا تھا وہ ایسا سماں دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
خلقتِ شہر کو بے زباں دیکھنا
چاہتا تھا وہ ایسا سماں دیکھنا
تِیر ہوتا ہے دیکھیں ترازو کہاں
تن چکی پھر فلک کی کماں دیکھنا
دو ہی منظر قفس میں بہم تھے ہمیں
تِیلیاں دیکھنا۔۔۔۔آسماں دیکھنا
بچپنے سے لگی ہے یہی دھُن ہمیں
گل بہ گل آس کی تتلیاں دیکھنا
کیوں وطیرہ ہی ماجد تِرا ہو گیا
شاخِ گل سے جھڑی پتّیاں دیکھنا
ماجد صدیقی

حسن کے شہ نشیں، لطف کے آسماں دیکھ ایسا نہ کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
تو کہ گل ہے نہ بھنوروں سا ہو بدگماں دیکھ ایسا نہ کر
حسن کے شہ نشیں، لطف کے آسماں دیکھ ایسا نہ کر
رکھ نہ ہم سے چھپا کر طراوت لب و چشم و رخسار کی
لے کے جائیں کہاں ہم یہ سُوکھی زباں دیکھ ایسا نہ کر
طوف سے سرو قامت کے کب تک ہمیں باز رکھے گا تو
دور رکھتا ہے پُھولوں سے کیوں تتلیاں دیکھ ایسا نہ کر
وہ ہمِیں ہیں جو اُتریں گے جاناں !ترے اوجِ معیار پر
کاوشِ شوق ہونے نہ دے رائیگاں دیکھ ایسا نہ کر
ماجد صدیقی

لب بہ لب اطراف میں، خاموشیاں اُگنے لگیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
ہم بھی کہتے ہیں یہی، ہاں کھیتیاں اُگنے لگیں
لب بہ لب اطراف میں، خاموشیاں اُگنے لگیں
ناخلف لوگوں پہ جب سے، پھول برسائے گئے
شاخچوں پر انتقاماً تتلیاں اُگنے لگیں
ان گنت خدشوں میں کیا کیا کچھ، منافق بولیاں
دیکھا دیکھی ہی، سرِ نوکِ زباں اُگنے لگیں
آنکھ تو تر تھی مگرمچھ کی، مگر کیا جانیئے
درمیاں ہونٹوں کے تھیں، کیوں پپڑیاں اُگنے لگیں
یُوں ہُوا، پہلے جبنیوں سے پسینہ تھا رواں
فرطِ آبِ شور سے، پھر کائیاں اگنے لگیں
اک ذرا سا ہم سے ماجدؔ، بدگماں ٹھہرا وُہ اور
بستیوں میں جا بہ جا، رُسوائیاں اُگنے لگیں
ماجد صدیقی

بُھر بُھری مٹی میں ہوں، جیسے جڑیں اُتری ہوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
دل بہ دل ہیں شہر میں، یُوں نفرتیں اُتری ہوئی
بُھر بُھری مٹی میں ہوں، جیسے جڑیں اُتری ہوئی
جا بہ جا چہروں پہ ہے وُہ کم نمائی، اُنس کی
موسمِ سرما میں جیسے، ندّیاں اُتری ہوئی
کیا یہ میرا ہی نگر ہے، اے ہوا! کچھ تو بتا
ساری دیواریں سلامت ہیں چھتیں اُتری ہوئی
تُو بھی اِن کے واسطے، دل میں کوئی گلُداں سجا
ہیں ترے آنگن میں بھی، کچھ تتلیاں اُتری ہوئی
کیا خبر کب دے چلیں ماجدؔ پتہ بارود سا
خامشی میں اب کے، ہیں جو شورشیں اُتری ہوئی
ماجد صدیقی

ہر قدم پر ہیں کیا کیا نئی تتلیاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
خواہش لمس میں جن کے جاتی ہے جاں
ہر قدم پر ہیں کیا کیا نئی تتلیاں
اے ہوا! بارآور ہوئی ہٹ تِری
لے اُڑا لے گلِ زرد کی پتیاں
صحنِ گلشن میں گرداں ہیں جو چار سُو
جانے کِن عہد ناموں کی ہیں دھجیاں
پُوچھتے کیا ہو تم بس میں انسان کے
کِن درندوں کی ہیں خون آشامیاں
آئنہ، روز دکھلائے ماجدؔ ہمیں
سیلِ آلام کے جانے، کیا کیا نشاں
ماجد صدیقی

دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
تنے گی اُس کے ابرو کی کماں آہستہ آہستہ
دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ
جو کونپل سبز تھی دو چارہے اَب زردیوں سے بھی
مرتب ہو رہی ہے داستاں آہستہ آہستہ
لہو میں چھوڑنے پر آ گیا اَب تو شرارے سے
بدل کر خوف میں اک اک گماں آہستہ آہستہ
سجا رہتا تھا ہر دم آئنوں میں آنسوؤں کے جو
کنول وُہ بھی ہُوا اَب بے نشاں آہستہ آہستہ
اکھڑنا تھا زمیں سے اپنے قدموں کا کہ سر سے بھی
سرکنے لگ پڑا ہے آسماں آہستہ آہستہ
بکھر کر رہ گئیں بادِمخالفت کے تھپیڑوں سے
تمنّاؤں کی ساریاں تتلیاں آہستہ آہستہ
سخنور ہم بھی ماجدؔ رات بھر میں تو نہیں ٹھہرے
ملی ہے دل کے جذبوں کو زباں آہستہ آہستہ
ماجد صدیقی

پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 58
شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں
پیڑ کو دعا دے کر، کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں
پھول بن کر سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخیِ صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کوئی موجہ ءِ شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں، بستیاں نہیں کھلتیں
پروین شاکر

نیند چنتے ہُوئے ہاتھ ہی تھک گئے وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 57
عُمر بھر کے لیے اب تو سوئی کی سوئی ہی معصوم شہزادیاں رہ گئیں
نیند چنتے ہُوئے ہاتھ ہی تھک گئے وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئیں
لوگ گلیوں سے ہوکر گُزرتے رہے ، کوئی ٹھٹکا ، نہ ٹھہرا ، نہ واپس ہوا
اَدھ کُھلی کھڑکیوں سے لگی ، شام سے راہ تکتی ہُوئی لڑکیاں رہ گئیں
پاؤں چُھوکر پُجاری الگ ہو گئے ، نیم تاریک مندر کی تنہائی میں
آگ بنتی ہُوئی تن کی نو خیز خوشبو سمیٹے ہُوئے دیویاں رہ گئیں
وہ ہَوا تھی کہ کچّے مکانوں کی چھت اُڑ گئی ، اور مکیں لاپتہ ہو گئے
اب تو موسم کے ہاتھوں خزاں میں اُجڑنے کو بس خواب کی بستیاں رہ گئیں
آخرِ کار لو وہ بھی رخصت ہُوا، ساری سکھیاں بھی اب اپنے گھرکی ہوئیں
زندگی بھر کو فن کار سے گفتگو کے لیے صرف تنہائیاں رہ گئیں
شہرِ گُل ہَواؤں نے چاروں طرف ، اس قدر ریشمیں جال پھیلا دیے
تھر تھراتے پروں میں شکستہ اُڑانیں سمیٹے ہُوئے تتلیاں رہ گئیں
اجنبی شہر کی اوّلیں شام ڈھلنے لگی ، پُرسہ دینے جو آئے گئے
جلتے خیموں کی بجھتی ہُوئی راکھ پر بال کھولے ہُوئے بیبیاں رہ گئیں
پروین شاکر

حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول

مجید امجد ۔ غزل نمبر 75
روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول
جہانِ گریۂ شبنم سے، کس غرور کے سات
گزر رہے ہیں، تبسم کناں، گلاب کے پھول
یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول
کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خم گیسواں، گلاب کے پھول
خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دلوں کا دھواں، گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں، چپ چاپ، ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں، گلاب کے پھول
یہ کیا طلسم ہے، یہ کس کی یاسمیں بانہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
مجید امجد

میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 34
یاد کے طاقچہ میں بجلیاں رکھنے والا
میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا
مجھ کو اس وقت بھی ہے تیز بہت تیز بخار
اورمرا کوئی نہیں پٹیاں رکھنے والا
چیرتا جاتا ہے خود آپ کنارے اپنے
ساحلوں پہ وہی مرغابیاں رکھنے والا
دھول سے کیسے بچا سکتا ہے اپنی چیزیں
دل کے کمرے میں کئی کھڑکیاں رکھنے والا
پال بیٹھا ہے پرندوں کی رہائی کا جنون
جار میں اپنے لئے تتلیاں رکھنے والا
بزم میں آیا نہیں کتنے دنوں سے منصور
وہ پیانو پہ حسیں انگلیاں رکھنے والا
منصور آفاق