ٹیگ کے محفوظات: تان

میں پتھر کے پان بنانے والا تھا

ہر مشکل آسان بنانے والا تھا
میں پتھر کے پان بنانے والا تھا
خوابوں کی تاویل سمجھ سے باہر تھی
جب میں پاکستان بنانے والا تھا
میری موت نے رستہ روکا ورنہ میں
لیّہ کو یونان بنانے والا تھا
حق باہو، حق باہو کہہ کر ایک فقیر
باہو کو سلطان بنانے والا تھا
مجھ ایسا بہلول کہاں سے لاؤ گے
نار سے جو ناران بنانے والا تھا
شہزادی نے جس کی خاطر زہر پیا
اک دیہاتی، نان بنانے والا تھا
آپ نے میرا ہاتھ نہ تھاما ہوتا تو
میں خود کو شیطان بنانے والا تھا
دروازوں کی شاکھ بچانے کی خاطر
دیواروں کے کان بنانے والا تھا
آپ کی اک اک بات غزل میں ڈھال کے میں
آن کی آن میں تان بنانے والا تھا
افتخار فلک

تیور بدل چلے ہیں بہت ، آسمان کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
کیا کیا خم اور ہوں ابھی بازو کمان کے
تیور بدل چلے ہیں بہت ، آسمان کے
جیسے کوئی اُڑائے کبوتر ، بہ روزِ جشن
پُرزے ہوا کے ہاتھ تھے یوں بادبان کے
بہروپ ہی بھرے گا ، کرم بھی وہ گر کرے
نکلا جو گھر سے ، راہزنی ہی کی ٹھان کے
ماجد ہمیں بھی ، دیکھیے جھانسہ دیا ہے کیا
آنچل سا آسمان پہ ،بدلی نے تان کے
ماجد صدیقی

جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
چہرے پر چہرہ ہم نے پہچان لیا
جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا
اِس بالک کی ہٹ تو ہم کو لے بیٹھی
ہم نے دل کا جانا تھا آسان لیا
جتنے بھی پیغام ہوا نے پہنچائے
ہم نے اُن ساروں کو سچا مان لیا
اور بھلا اِس مشکل کا حل کیا ہوتا
یاد اُجالا چہرۂ شب پر تان لیا
تیرے حسن کا سونا ہاتھ نہیں آیا
ہم نے چاہت کا صحرا بھی چھان لیا
ماجد صدیقی

کب زمیں سے ہے آسمان ملا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
کیا ہے گر تُو نہ ہم سے آن ملا
کب زمیں سے ہے آسمان ملا
کھنچ کے اس سے گلا نہ گھونٹ اپنا
وقت سے تُو بھی اپنی تان ملا
ظلم سے حق طلب ہوا جو بھی
پھر نہ اُس شخص کا نشان ملا
ابنِ آدم سمجھ کے شیطاں بھی
جب ملا ہم سے بدگمان ملا
کچھ فلک مرتبت ہیں وہ بھی جنہیں
جو ملا وجۂ کسرِ شان ملا
دیر تھی منہ بھنور کا کھلنے کی
پھر نہ کشتی نہ بادبان ملا
جس پہ جھک کر ملا تھا اوج ہمیں
پھر نہ ماجدؔ وہ آستان ملا
ماجد صدیقی

آئو بھلا کبھو تو سو جائو زبان کر

دیوان دوم غزل 815
رہ جائوں چپ نہ کیونکے برا جی میں مان کر
آئو بھلا کبھو تو سو جائو زبان کر
کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور
جاتے ہیں ہم بھی جان سے ٹک دیکھو آن کر
کیا لطف تھا کہ میکدے کی پشت بام پر
سوتے تھے مست چادر مہتاب تان کر
آیا نہ چل کے یاں تئیں وہ باعث حیات
مارا ہے ان نے جان سے ہم کو تو جان کر
ایسے ہی تیز دست ہو خونریزی میں تو پھر
رکھوگے تیغ جور کی یک چند میان کر
یہ بے مروتی کہ نگہ کا مضائقہ
اتنا تو میری جان نہ مجھ سے سیان کر
رنگین گور کرنی شہیدوں کی رسم ہے
تو بھی ہماری خاک پہ خوں کے نشان کر
رکھنا تھا وقت قتل مرا امتیاز ہائے
سو خاک میں ملایا مجھے سب میں سان کر
تم تیغ جور کھینچ کے کیا سوچ میں گئے
مرنا ہی اپنا جی میں ہم آئے ہیں ٹھان کر
وے دن گئے کہ طاقت دل کا تھا اعتماد
اب یوں کھڑے کھڑے نہ مرا امتحان کر
اس گوہر مراد کو پایا نہ ہم نے میر
پایان کار مر گئے یوں خاک چھان کر
میر تقی میر

انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر

دیوان اول غزل 226
جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
جھمکے دکھاکے باعث ہنگامہ ہی رہے
پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر
کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم
اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر
کم گو جو ہم ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
اچھی نہیں یہ بات مت اتنی زبان کر
ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل
مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر
تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق
تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر
ناز و عتاب و خشم کہاں تک اٹھایئے
یارب کبھو تو ہم پہ اسے مہربان کر
افسانے ما و من کے سنیں میر کب تلک
چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر
میر تقی میر

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

دیوان اول غزل 128
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بدگمان کا
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا
مت مانیو کہ ہو گا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا
خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب
ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا
ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں
اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا
کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو
دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا
تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی
مت پوچھ کچھ سلوک مرے بدزبان کا
یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا
گل یادگار چہرئہ خوباں ہے بے خبر
مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا
توبرسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میر سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا
میر تقی میر

اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 88
لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کہ یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا
کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا
کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا
اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا
کیا جانئے، کیسے تیری پہچان میں آیا
وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں
اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا
آفتاب اقبال شمیم

آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی رِدا تان سکوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 138
کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں
آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی رِدا تان سکوں
میں سمندر ہوں، نہ توُ میرا شناور، پیارے
توُ بیاباں ہے نہ میں خاک تری چھان سکوں
رُوئے دِلبر بھی وہی، چہرۂ قاتل بھی وہی
توُ کبھی آنکھ ملائے تو میں پہچان سکوں
وقت یہ اور ہے، مجھ میں یہ کہاں تاب کہ میں
یاریاں جھیل سکوں، دُشمنیاں ٹھان سکوں
جب ستم ہے یہ تعارف ہی تو کیسا ہو، اگر
میں اُسے جاننے والوں کی طرح جان سکوں
عرفان صدیقی

دِلاّ جھلیا! کنتھوں اُڈیکنا ایں کدے پرت نئیں آوندے جان والے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 111
کسے اک دی گل تے من لے تُوں سبھے لوک نیں، تینوں سمجھان والے
دِلاّ جھلیا! کنتھوں اُڈیکنا ایں کدے پرت نئیں آوندے جان والے
کوئی سخن مراد نُوں پُجیا نئیں عمر وچ دعاواں دے گال دتی
طلب رُتاں نوں تن دے رس دی اے سمے لبھے نیں اوہ وی رُلان والے
تیرے درتوں مالکا سوہنیا اوئے بھیک ٹھنڈکاں دی، اسیں بھالدے ساں
کیہڑی تھاں دی کھڑکی کھولیوئی جھونکے آون جتھوں، جِند تان والے
کسے چیک نوں ساہمنے کاگیاں دے پر لگے نہ عرش نوں جان خاطر
پرت پرت اسمان وَل تکدے رہئیے وچ آہلنے شور مچان والے
اوہدے ذہن چ ایداں دی گل نئیں سی منجے پئے دی آس کجھ ہور جیہی سی
اے پر اوہناں تے درد سوائے کیتے آئے جیہڑے وی، درد ونڈان والے
ہووے پریت تے بدلاں وانگ ہووے جیہڑے وس کے، فیر چتاردے نئیں
نال اوہناں دے سنگ دا مان کاہدا جیہڑے ہون احسان جتان والے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

کیوں کنڈ وِ کھاندائیں جیوندیاں، توں ہوکے مرزا خان وے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 75
کس لیکھے پیار اساڈڑا، کی سانوں تیرا مان وے
کیوں کنڈ وِ کھاندائیں جیوندیاں، توں ہوکے مرزا خان وے
اکھاں وچ رُتاں رَڑکیاں، میں دِلڑی بن بن دھڑکی آں
اگاں کجھ ہور وی بھڑکیاں نت دل دا لہو کھولان وے
توں پنی اکو چُپ وے، تے باہر ہنیرا گھپ وے
میں مکھ تیرے دی دُھپ وے، کیوں نھیرے مینوں تان وے
تک چڑھیا سورج مہکدا، تک جیوڑا میرا سہکدا
جوبن سی تیرا لہکدا، تے کی سی میری شان وے
مُڑ پِچھاں سونہہ ائی رب دی، نئیں تینوں ایہہ گل پھبدی
اِک دنیا تین پئی لبھدی، تُوں اپنا آپ پچھان وے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

آون والیاں گھڑیاں، خورے کی کی قہر، کمان گیاں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 22
پچھلے طوق خطاواں والے، گل گل دے وچ، پان گیاں
آون والیاں گھڑیاں، خورے کی کی قہر، کمان گیاں
دل دیاں ورقیاں چوں نکلن گے، پنکھ خیالی موراں دے
یاداں مُڑ مُڑ، بُھلیاں وِسریاں، گلاں نُوں دُہران گیاں
سِہتیاں، جیہڑیاں خبراں سُنگھن، آپ مراد بلوچ دیاں
آئیاں وی سمجھان تے ہیراں نُوں اوہ کی سمجھان گیاں
اِلاّں دے پنجیاں وِچ جکڑے، چُوچے کِنھوں دِسّن گے
چھتاں اُپروں تَیردیاں، کجھ چیکاں ائی سُنیاں جان گیاں
پچھلے سمے تے، فرکُجھ ٹیک سی، دل نُوں بُجھدیاں آساں دی
پر ایتک تے، سِر توں لنگھدیاں کُونجاں، لہو کھولان گیاں
ٹھنڈکاں لے کے، کدے نہ آئے، گُجھے بول شریکاں دے
تتیاں واواں، جد وی گُھلیاں، ہور وی سینے تان گیاں
ویہڑے دے وچ کھنڈسی کّدوں، چانن رات مراداں دی
اکھیاں‘ چڑھدے چن نُوں خورے کچراں تک، سدھران گیاں
پھُل کھڑے تے، وچھڑے مُکھڑے، اکھیں تاریاں لاون گے
مہکاں مُندریاں بن کے ، ساڈے سُتڑے درد جگان گیاں
چھم چھم وگدی، مست ہوا پئی، اُنج ائی پُٹھیاں پڑھدی اے
بُجھدیاں دِیویاں والیاں لاٹاں، ماجدُ کی لہران گیاں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)