منصور آفاق ۔ غزل نمبر 360
طلسمِ مرگ کے جادومیں محوِ استراحت ہیں
نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محو استراحت ہیں
شبیں چنگاریوں کے بستروں میں خواب بنتی ہیں
اندھیرے راکھ کے پہلو میں محوِ استراحت ہیں
خموشی کا بدن ہے چادرِ باردو کے نیچے
کراہیں درد کے تالو میں محوِ استراحت ہیں
پہن کر سرسراہٹ موت کی ، پاگل ہوا چپ ہے
فضائیں خون کی خوشبو میں محوِ استراحت ہیں
کہیں سویا ہواہے زخم کے تلچھٹ میں پچھلا چاند
ستارے آخری آنسو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ہو گا شعاعوں کے لہو سے آئینہ خانہ
ابھی شیرِ خدا دارو میں محوِ استراحت ہیں
ابھی ابھریں گے بامِ صبحِ مشرق پر ابھی منصور
مرے سورج ابھی جگنو میں محو استراحت ہیں
منصور آفاق