ٹیگ کے محفوظات: تازہ

لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے

خوف آنے لگا یارب ہمیں اِس دنیا سے
لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے
یا تو اک لمحے میں ہو جائے طبیعت بیزار
اور لگ جائے تو بھرتا نہیں جی دنیا سے
اُس کو ماضی میں بھی آرام کی صُورت نہ ملی
جس نے منہ پھیر لیا آئینہء فردا سے
تم بہت دیر سے بیکار ہو اے قلب و جگر
آؤ ملواؤں تمہیں ایک غمِ تازہ سے
اب جو چھایا ہے تو پھر کھُل کے برس ابرِ خیال
کھیت اشعار کے مدت سے پڑے ہیں پیاسے
چین سے بیٹھے ہو اک گوشہء تنہائی میں
اور کیا چاہیے باصرِؔ تمہیں اس دنیا سے
باصر کاظمی

با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 219
بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے
با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے
ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست
دستک؟ سو وہ نہیں ہے، پہ دروازہ ہے، سو ہے
آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت
پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے، سو ہے
اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں
صد حالتی میری، میری طنازہ ہے، سو ہے
شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں مرا
یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے، سو ہے
ا خلوتِ وصال میں یہ حسرتِ وصال
اک خواہشِ وصال کی غمّازہ ہے، سو ہے
تھی یک نگاہِ شوق میری تازگی رُبا
اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے، سو ہے
جون ایلیا

لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 91
صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوق نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو
بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو
تلخی غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو
تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو
گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو
ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
جلوہ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سر صحرا ہم کو
لے اڑی دل کو نسیم سحری
بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو
سیر گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گل تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتا ہم کو
باقی صدیقی