ٹیگ کے محفوظات: تاجدار

کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
چمن پہ ہے تو بس اِتنا سا اختیار ہمیں
کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں
مچلتی لُو کا فلک سے برستے ژالوں کا
نہ جانے کون سا موسم ہو ساز گار ہمیں
ہر اِک قدم پہ وہی تجربہ سکندر سا
کسی بھی خضر پہ کیا آئے اعتبار ہمیں
ذرا سا سر جو اٹھا بھی تو سیل آلے گا
یہی خبر ہے سُنائے جو، اِنکسار ہمیں
مہک تلک نہ ہماری کسی پہ کھُلنے دے
کِیا سیاستِ درباں نے یوں شکار ہمیں
جو نقش چھوڑ چلے ہم اُنہی کے ناطے سے
عزیز، جان سے جانیں گے تاجدار ہمیں
بپا جو ہو بھی تو ہو بعدِ زندگی ماجد
یہ حشر کیا ہے جلائے جو، بار بار ہمیں
ماجد صدیقی

آنکھیں پگھل چلی ہیں، اسی انتظار میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
مہکے ہمارا باغ بھی شاید، بہار میں
آنکھیں پگھل چلی ہیں، اسی انتظار میں
دل کا اُبال کرتے رہے ہیں سپردِ چشم
ہم نے کیا وُہی کہ جو تھا، اختیار میں
چاہے وُہ جائے دفن بھی سب سے الگ تھلک
نخوت ہے اس طرح کی، دلِ تاجدار میں
یہ اور بات آگ بھی، گلزار بن گئی
نمرود نے تو حق کو اُتارا تھا، نار میں
آکاش تک میں چھوڑ گیا، نسبتوں کا نُور
ماجد جو اشک، ٹوٹ گِرا یادِ یار میں
ماجد صدیقی

کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
نہیں کوئی شہر زلزلے سے دوچار دیکھا
کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا
الجھ گیا ہے جہاں بھی کانٹوں سے کوئی دامن
بچا بھی گر وہ تو پھراُسے تار تار دیکھا
جگر جو ٹکڑے ہوا تو اُس کی سلامتی کا
رضا پہ بردہ فروش کی، انحصار دیکھا
سگانِ پابند دشت میں جب کبھی کُھلے ہیں
فضا میں آندھی سا ایک اٹھتا غبار دیکھا
رقم جو شیشے پہ بس کے چڑیا ہوئی، کسی نے
کب اُس کے بچوں کا عالمِ انتظار دیکھا
نجانے کتنوں کو ہے وہ نیچا دکھا کے ابھرا
جسے بھی ماجدؔ سرِ نظر تاجدار دیکھا
ماجد صدیقی

چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
جلو میں اپنی رُتوں کے ہاتھوں سمیٹ لایا غبار کیا کیا
چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا
زبان پر ذہن سے نہ اُترے جو آ چکے تو اُسے چھپائیں
کہیں تو کس سے کہ بات کرنے کا ہے ہمیں اختیار کیا کیا
اُٹھا جو پانی کی سطح پر تو دکھائی دیتا تھا بلبلہ بھی
گرفت میں آب جُو کو لانے کے واسطے بے قرار کیا کیا
ہمارا دل ہی یہ بات جانے کہ حق سرائی کے بعد اِس کی
ہر ایک جانب اُٹھا کئے ہیں حقارتوں کے حصار کیا کیا
ہوا ہو یا برق و ابر اِن کا سلوک خستہ تنوں سے پوچھو
فتور رکھتے ہیں کھوپڑی میں چمن کے یہ تاجدار کیا کیا
کہیں جو بچپن کے آنگنوں میں اُتار لی تھی لہو میں ماجدؔ!
دل و نظر میں مچل رہی ہے ابھی وُہ سپنوں کی نار کیا کیا
ماجد صدیقی

کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
چمن چمن ہے یہاں زر نگار کیا کہئے
کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے
لگی ہے ضربِ عدو تو پسِ نگاہ مگر
ہیں چشم و گوش و زباں سب فگار کیا کہئے
وہ جن کے عیش کو مرہون ہو گئے ہم تُم
کہاں گئے ہیں وہ سب تاجدار کیا کہئے
شجر درونِ چمن باور ہوا جو بھی
کیا گیا ہے وہی سنگسار کیا کہئے
ہوا کا تخت ملا عاق ہو کے شاخوں سے
یہ جبر کس نے کیا اختیار کیا کہئے
لبوں کے بیچ نئی کونپلیں ہیں نت ماجدؔ
سخن کہیں کہ اِسے شاخسار، کیا کہئے
ماجد صدیقی

بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
بیاں حکایتِ بُخل بہار کیا کرتے
بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے
اُفق اُفق پہ کیا صَرف لُطفِ بینائی
ہم اِس سے بڑھ کے ترا انتطار کیا کرتے
نفس نفس تھا رسن، دار ایک اِک دھڑکن
زباں سے تذکرۂ طوق و دار کیا کرتے
ہمیں تو لطفِ نظر بھی تِرا بہم نہ ہُوا
فضائے دہر کو ہم سازگار کیا کرتے
اب اِس کے بعد تو تیشہ تھا اور تھا سر اپنا
کرشمہ اور کوئی بہرِ یار کیا کرتے
فراغ ہی نہ مِلا اہلِ مصلحت سے کبھی
جنوں کی راہ بھلا اختیار کیا کرتے
کھنچے تھے خاک نشیں تک بھی ہم سے جب ماجدؔ
ہمارے حق میں بھلا تاجدار کیا کرتے
ماجد صدیقی