ٹیگ کے محفوظات: تاب

کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ٹھہراؤ کہیں صورتِ سیماب نہ آئے
کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے
شکوہ جو سرِ اشک ہے لفظوں میں نہ ڈھالو
کائی کہ جو تہہ میں ہے، سرِآب نہ آئے
کیا لفظ تھے ہم اور غلط العام ہوئے کیا
کوئی بھی لگانے جِنہیں اعراب نہ آئے
وہ غار نشیں ہم ہیں تصوّر میں بھی جن کے
بہروپ میں جگنو کے بھی مہتاب نہ آئے
رفعت جو ذرا سر کے جھکانے سے دلائیں
ماجد تمہی اب تک، وہی آداب نہ آئے
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 100
دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے
کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے
زمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترے
میں اُس سے کُھل کے ملوں ،سوچ کا حجاب اُترے
وہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترے
اُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میں
کوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترے
کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
فصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پر
تراجمال کبھی صُورت سحاب اُترے
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی
نوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوں
مثالِ قطرہ ءِ شبنم ترا جواب اُترے
تری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیں
سفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترے
پروین شاکر

فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 74
کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں
دولتِ حسن یہاں تک تو لٹائی ظالم
اشک ہے گوہرِ نایاب ترے کوچے میں
جوششِ گریۂ عشاق سے اک دم میں ہوا
شجرِ سوختہ، شاداب ترے کوچے میں
ہوش کا پاؤں جو یاں آ کے پھسل جاتا ہے
کیا لنڈھائی ہے مئے ناب ترے کوچے میں
ہے کفِ پائے عدو، پا سے ترے رنگیں تر
بس کہ ہم روتے ہیں خوناب ترے کوچے میں
گوشہ گیری سے بھی گردش نہ گئ طالع کی
پھرتے ہیں صورتِ دولاب ترے کوچے میں
غیر نے سنگ جو پھینکے وہ ہوئے بالشِ سر
چین سے کرتے ہیں ہم خواب ترے کوچے میں
وہ بھی محروم نہیں جن کو نہیں بزم میں بار
تیرے رخسار کی ہے تاب ترے کوچے میں
چل دیا شیفتہ سودے میں خدا جانے کہاں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں احباب ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 17
پلا جام ساقی مے ناب کا
کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
دلِ زار کا ماجرا کیا کہوں
فسانہ ہے مشہور سیماب کا
کہاں پھر وہ نایاب، پایا جسے
غلط شوق ہے جنسِ نایاب کا
نہ کیجو غل اے خوش نوایانِ صبح
یہ ہے وقت ان کی شکر خواب کا
محبت نہ ہرگز جتائی گئی
رہا ذکر کل اور ہر باب کا
دمِ سرد سے لا نہ طوفانِ باد
نہ سن ماجرا چشمِ پر آب کا
وہاں بے خودوں کی خبر کون لے
جہاں شغل ہو بادۂ ناب کا
وہاں تیرہ روزوں کی پروا کسے
جہاں شوق ہو سیرِ مہتاب کا
وہ تشخیصِ شخصی بھی جاتی رہی
کنارا الٹتے ہی جلباب کا
میں بے جرم رہتا ہوں خائف کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا
پڑے صبر آرام کی جان پر
مری جانِ بے صبر و بے تاب کا
لبِ لعل کو کس کے جنبش ہوئی
ہوا میں ہے کچھ رنگ عناب کا
نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
مصطفٰی خان شیفتہ

خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 35
تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا
ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا
مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا
نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا
دوستو۔۔ہم نے اپنا حال اُسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا
نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
ہم نے اس شہرِ دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
جون ایلیا

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 255
رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے
بالِ تَدَر و@ جلوۂ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
@ تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 169
کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 168
کب سے ہُوں، کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
غالب چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 94
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو ، وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیلِ گریہ میں ، گردُوں کفِ سیلاب تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے دماغی سے با خطاب رہا

دیوان ششم غزل 1785
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا
ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا
نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسم شباب رہا
کارواں ہائے صبح ہوتے گیا
میں ستم دیدہ محو خواب رہا
ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے
ضعف سے حال دل خراب رہا
گھر سے آئے گلی میں سو باری
یار بن دیر اضطراب رہا
ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال
جان کو اپنی پیچ و تاب رہا
پردے میں کام یاں ہوا آخر
واں سدا چہرے پر نقاب رہا
سوزش سینہ اپنے ساتھ گئی
خاک میں بھی ہمیں عذاب رہا
حیف ہے میر کی جناب سے میاں
ہم کو ان سمجھے اجتناب رہا
میر تقی میر

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

دیوان پنجم غزل 1751
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے
جان کو اضطراب ہے سو ہے
بس گئی جاں خراب مدت کی
حال اپنا خراب ہے سو ہے
خشکی لب کی ہے تری کیسی
چشم لیکن پرآب ہے سو ہے
خاک جل کر بدن ہوا ہے سب
دل جلا سا کباب ہے سو ہے
کر گئے کاروانیاں شب گیر
وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے
یاں تو رسوا ہیں کیسا پردئہ شرم
اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے
دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم
دوستی کا حساب ہے سو ہے
زلفیں اس کی ہوا کریں برہم
ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے
خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو
ان کی عالی جناب ہے سو ہے
شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز
میر ذلت کا باب ہے سو ہے
میر تقی میر

ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1615
لاوے جھمکتے رخ کی آئینہ تاب کیونکر
ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر
ہے شعر و شاعری گو کب سے شعار اپنا
حرف و سخن سے کریے اب اجتناب کیونکر
جوں ابر اگر نہ روویں وادی و کوہ پر ہم
تو شہروں شہروں آوے نہروں میں آب کیونکر
اب بھی نہیں ہے ہم کو اے عشق ناامیدی
دیکھیں خراب ہووے حال خراب کیونکر
اڑ اڑ کے جا لگے ہے وہ تیر مار کاکل
کھاتا رہے نہ افعی پھر پیچ تاب کیونکر
چشمے محیط سے جو ہووے نہ چشم تر کے
تو سیر ہو ہوا پر پھیلے سحاب کیونکر
اب تو طپش نے دل کی اودھم مچا رکھا ہے
تسکین پاوے دیکھوں یہ اضطراب کیونکر
رو چاہیے ہے اس کے در پر بھی بیٹھنے کو
ہم تو ذلیل اس کے ہوں میر باب کیونکر
میر تقی میر

دل کو میرے ہے اضطراب بہت

دیوان پنجم غزل 1586
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے
تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت
دیر افسوس کرتے رہیے گا
عمر جاتی رہی شتاب بہت
مہر و لطف و کرم عنایت کم
ناز و خشم و جفا عتاب بہت
بے تفاوت ہے فرق آپس میں
وے مقدس ہیں میں خراب بہت
پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی
ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت
دختر رز سے رہتے ہیں محشور
شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت
آویں محشر میں کیوں نہ پاے حساب
ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت
واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت
گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میر
منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت
میر تقی میر

پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف

دیوان چہارم غزل 1415
میں آگے نہ تھا دیدئہ پرآب سے واقف
پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف
پتھر تو بہت لڑکوں کے کھائے ہیں ولیکن
ہم اب بھی جنوں کے نہیں آداب سے واقف
ہم ننگ خلائق یہ عجب ہے کہ نہیں ہیں
اس عالم اسباب میں اسباب سے واقف
شب آنکھیں کھلی رہتی ہیں ہم منتظروں کی
جوں دیدئہ انجم نہیں ہیں خواب سے واقف
بل کھائے انھیں بالوں کو ہم جانیں ہیں یا میر
ہیں پیچ و غم و رنج و تب و تاب سے واقف
میر تقی میر

دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے

دیوان سوم غزل 1296
تسکین دردمندوں کو یارب شتاب دے
دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
لوگوں کے پوچھنے کا کوئی کیا جواب دے
گل ہے بہار تب ہے جب آنکھوں میں ہو نشہ
جاتی ہے فصل گل کہیں ساقی شراب دے
وہ تیغ میری تشنۂ خوں ہو گئی ہے کند
کر رحم مجھ پہ کاشکے یار اس کو آب دے
دو چار الم جو ہوویں تو ہیں بابت بتاں
کیا درد بے شمار کا کوئی حساب دے
تار نگہ کا سوت نہیں بندھتا ضعف سے
بیجان ہے یہ رشتہ دلا اس کو تاب دے
مژگان تر کو یار کے چہرے پہ کھول میر
اس آب خستہ سبزے کو ٹک آفتاب دے
میر تقی میر

جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں

دیوان سوم غزل 1196
عشق وہ خانماں خراب ہے میاں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
تن میں جب تک ہے جاں تکلف ہے
ہم میں اس میں ابھی حجاب ہے میاں
گو نہیں میں کسو شمار میں یاں
عاقبت ایک دن حساب ہے میاں
کو دماغ و جگر کہاں وہ قلب
یاں عجب ایک انقلاب ہے میاں
زلف بل کھا رہی ہے گو اس کی
دل کو اپنے تو پیچ و تاب ہے میاں
لطف و مہر و وفا وہ کیا جانے
ناز ہے خشم ہے عتاب ہے میاں
لوہو اپنا پیوں ہوں چپکا ہوں
کس کو اس بن سر شراب ہے میاں
چشم وا یاں کی چشم بسمل ہے
جاگنا یہ نہیں ہے خواب ہے میاں
منھ سے کچھ بولتا نہیں قاصد
شاید اودھر سے اب جواب ہے میاں
دل ہی اپنا نہیں فقط بے چین
جی کو بھی زور اضطراب ہے میاں
چاہیے وہ کہے سو لکھ رکھیں
ہر سخن میر کا کتاب ہے میاں
میر تقی میر

رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب

دیوان سوم غزل 1110
پڑا ہے فرق خورد و خواب میں اب
رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب
جنوں میں اب کے نے دامن ہے نے جیب
کمی آئی بہت اسباب میں اب
ہوا ہے خواب ملنا اس سے شب کا
کبھو آتا ہے وہ مہ خواب میں اب
گدائی لی ہے میں نے اس کے در کی
کہے کیا دیکھوں میرے باب میں اب
گلے لگنے بن اس کے اتنا روئے
کہ ہم ہیں گے گلے تک آب میں اب
کہاں بل کھائے بال اس کے کہاں یہ
عبث سنبل ہے پیچ وتاب میں اب
بلا چرچا ہے میرے عشق کا میر
یہی ہے ذکر شیخ و شاب میں اب
میر تقی میر

جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا

دیوان سوم غزل 1103
آنکھوں میں اپنی رات کو خوناب تھا سو تھا
جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا
آکر کھڑا ہوا تھا بہ صدحسن جلوہ ناک
اپنی نظر میں وہ در نایاب تھا سو تھا
ساون ہرے نہ بھادوں میں ہم سوکھے اہل درد
سبزہ ہماری پلکوں کا سیراب تھا سو تھا
درویش کچھ گھٹا نہ بڑھا ملک شاہ سے
خرقہ کلاہ پاس جو اسباب تھا سو تھا
کیا بھاری بھاری قافلے یاں سے چلے گئے
تجھ کو وہی خیال گراں خواب تھا سو تھا
برسوں سے ہے تلاوت و سجادہ و نماز
پر میل دل جو سوے مئے ناب تھا سو تھا
ہم خشک لب جو روتے رہے جوئیں بہ چلیں
پر میر دشت عشق کا بے آب تھا سو تھا
میر تقی میر

کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی

دیوان دوم غزل 954
آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی
کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی
میں ہی جلتا نہیں جدا دل سے
دور مجھ سے کباب ہے وہ بھی
سائل بوسہ سب گئے محروم
ایک حاضر جواب ہے وہ بھی
وہم جس کو محیط سمجھا ہے
دیکھیے تو سراب ہے وہ بھی
کم نہیں کچھ صبا سے اشک گرم
قاصد پرشتاب ہے وہ بھی
حسن سے دود دل نہیں خالی
زلف پرپیچ و تاب ہے وہ بھی
خانہ آباد کعبے میں تھا میر
کیا خدائی خراب ہے وہ بھی
میر تقی میر

دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا

دیوان دوم غزل 668
پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا
کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گردباد برسوں
گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا
کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش
اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا
انواع جرم میرے پھر بے شمار و بے حد
روز حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا
اک آگ لگ رہی ہے سینوں میں کچھ نہ پوچھو
جل جل کے ہم ہوئے ہیں اس بن کباب کیا کیا
افراط شوق میں تو رویت رہی نہ مطلق
کہتے ہیں میرے منھ پر اب شیخ و شاب کیا کیا
پھر پھر گیا ہے آکر منھ تک جگر ہمارے
گذرے ہیں جان و دل پر یاں اضطراب کیا کیا
آشفتہ اس کے گیسو جب سے ہوئے ہیں منھ پر
تب سے ہمارے دل کو ہے پیچ و تاب کیا کیا
کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میر جی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا
میر تقی میر

دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے

دیوان اول غزل 614
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے
دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے
روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی
تو بے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے
اس شہر دل کو تو بھی جو دیکھے تو اب کہے
کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے
منھ پر لیے نقاب تو اے ماہ کیا چھپے
آشوب شہر حسن ترا آفتاب ہے
کس رشک گل کی باغ میں زلف سیہ کھلی
موج ہوا میں آج نپٹ پیچ و تاب ہے
کیا دل مجھے بہشت میں لے جائے گا بھلا
جس کے سبب یہ جان پہ میری عذاب ہے
سن کان کھول کر کہ تنک جلد آنکھ کھول
غافل یہ زندگانی فسانہ ہے خواب ہے
رہ آشناے لطف حقیقت کے بحر کا
ہے رشک زلف و چشم جو موج حباب ہے
آتش ہے سوز سینہ ہمارا مگر کہ میر
نامے سے عاشقوں کے کبوتر کباب ہے
میر تقی میر

وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے

دیوان اول غزل 565
اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے
وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے
بھرا ہے دل مرا جام لبالب کی طرح ساقی
گلے لگ خوب روئوں میں جو میناے شراب آوے
بغل پروردئہ طوفاں ہوں میں یہ موج ہے میری
بیاباں میں اگر روئوں تو شہروں میں بھی آب آوے
لپیٹا ہے دل سوزاں کو اپنے میر نے خط میں
الٰہی نامہ بر کو اس کے لے جانے کی تاب آوے
میر تقی میر

کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو

دیوان اول غزل 407
فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
کیا آفت آگئی مرے اس دل کی تاب کو
میری ہی چشم تر کی کرامات ہے یہ سب
پھرتا تھا ورنہ ابر تو محتاج آب کو
گذری ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اس سے میں ترسوں ہوں خواب کو
خط آگیا پر اس کا تغافل نہ کم ہوا
قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو
تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے
پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جام شراب کو
اب تو نقاب منھ پہ لے ظالم کہ شب ہوئی
شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو
کہنے سے میر اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھائوں کب تک اس دل خانہ خراب کو
میر تقی میر

ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب

دیوان اول غزل 178
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب
تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کریو اضطراب
اے رگ گل دیکھیو کھاتی ہے جو تو پیچ و تاب
موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب
تو ہو اور دنیا ہو ساقی میں ہوں مستی ہو مدام
پر بط صہبا نکالے اڑ چلے رنگ شراب
ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک
ٹک تو رہ پیری چلی آتی ہے اے عہد شباب
کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوے حرم
ذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب
کیا ہو رنگ رفتہ کیا قاصد ہو جس کو خط دیا
جز جواب صاف اس سے کب کوئی لایا جواب
واے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں
جام مے پر گردش آوے اور میخانہ خراب
چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا
ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشک آبدار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب
کچھ نہیں بحرجہاں کی موج پر مت بھول میر
دور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
میر تقی میر

یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

دیوان اول غزل 104
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روے خنداں چشم پرآب نکلا
پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا
روے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا
مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا
شان تغافل اپنے نوخط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منھ سے جواب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میر رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
میر تقی میر

قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا

دیوان اول غزل 97
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبے میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا
نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا
احوال اس شکار زبوں کا ہے جاے رحم
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا
منھ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے
شب ہم کو میر پرتو مہتاب لے گیا
میر تقی میر

مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 39
سفید طشت میں اک کاسنی گلاب ملا
مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا
ملی شرابِ کرم ہم گناہگاروں کو
جنابِ شیخ کو بس وعدۂ شراب ملا
یہ آنکھیں لیں جو دیکھنا نہیں ممکن
کسی مقام پہ سر چشمۂ غیاب ملا
میں سرخ سرخ رتوں سے بڑا الرجک ہوں
مجھے ہمیشہ لہو رنگ آفتاب ملا
مجھے چراغ کی خواہش ذرا زیادہ ہے
وہ رات ہوں جسے کوئی نہ ماہ تاب ملا
علوم وصل سے میرا بھی کچھ تعارف ہو
کوئی بیاض دکھا دے کوئی کتاب ملا
سلگ اٹھی ہے تہجد میں وصل کی خواہش
خدائے پاک مجھے منزلِ ثواب ملا
تُو ہار جائے گی غم کا مقابلہ پگلی
شمارِ شامِ محرم سے نہ حساب ملا
ہزار ٹیکس دئیے روڈ کے مگر منصور
میں جس طرف بھی مڑا راستہ خراب ملا
منصور آفاق

ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 28
قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں
جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں
سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں
دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں
محشر کے دن بٹہائے گئے آفتاب میں
رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں
یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں
تیرِ دعا نشانے پہ کیونکر نہ بیٹھتا
کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں
وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے
کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں
حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا
پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں
مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ
جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں
سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل
کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں
چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع
کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں
دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے
ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں
ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں
موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں
اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر
بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں
چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے
شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں
کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں
بلبل بنے جو بلبلہ اٹھّے گلاب میں
چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے
مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں
ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند
اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں
جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر
اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں
امیر مینائی