آج کرنا تھی توجہ چاکِ داماں کی طرف
دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف
جب ہوا کے نام پہنچا آمدِ شب کا پیام
ایک جھونکا چل دیا شمعِ فروزاں کی طرف
ایک چہرہ جگمگایا ہے سرِ دشتِ خیال
ایک شعلہ اٹھ رہا ہے دل سے مژگاں کی طرف
یہ بیاباں اور اس میں چیختی گاتی ہوا
ان سے دل بھر لے تو جاؤں راہِ آساں کی طرف
اس طرح حائل نہیں ہوتے کسی کی راہ میں
کیوں بھلا اتنی توجہ ایک مہماں کی طرف
عین ممکن ہے کہ تو سچ بول کر زندہ رہے
میں اشارہ کر رہا ہوں ایک امکاں کی طرف
اک تقاضا بے بسی کی راکھ میں دہکا ہوا
اک تذبذب کا سفر انکار سے ہاں کی طرف
جس کے بدلے موت صدیوں کی بسر کرنا پڑے
زندگی کا قرض اتنا تو نہیں جاں کی طرف
عرفان ستار