ٹیگ کے محفوظات: بیگانہ

بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا

میری ناکامی کا افسانہ بھی کیا افسانہ تھا
بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا
کشمکش کی زَد میں تھا انساں کا ذوقِ بندگی
ایک جانب تیرا کعبہ، اک طرف بُت خانہ تھا
میرے غم انگیز نغمے جانِ محفل بن گئے
ورنہ تیرا سازِ مطرب سوز سے بیگانہ تھا
ان کی آنکھوں نے کبھی بخشا تھا کیفِ بے خودی
زندگی مسرور تھی اور وَجد میں مے خانہ تھا
آبدیدہ ہو گئے اہلِ ستم بھی، اے شکیبؔ
ہائے کتنا سوز میں ڈوبا ہوا افسانہ تھا
شکیب جلالی

نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ

ہیں مستِ بادہِ حُسنِ صَنَم کیا رُخ کریں سُوئے میخانہ
نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ
تمہیدِ محبّت کیا کہیے شرحِ غمِ ہجراں کیا کیجے
ہر ایک نظر اِک عنواں ہے ہر موجِ نَفَس اِک افسانہ
کیا غمزہِ چشمِ سرمہ سا غارت گرِ ہوش و عقلِ رسا
کیا وصفِ نگاہِ ہوشرُبا کر جائے جو خود سے بیگانہ
پائینِ غبارِ راہِ جنوں پھر شورِ سلاسل سُنتا ہُوں
ہو مژدہ وادیِ نجد تجھے پھر آتا ہے کوئی دیوانہ
اے محرَمِ سرِّ عشق بتا ہوتا ہے جب اُس کوچے سے گذر
آجاتی ہے لغزش چال میں کیوں کیا ڈھونڈے نظر بیتابانہ
اعزازِ کمالِ جذب و جنوں ہُوں عالَمِ وحشَت میں ضامنؔ
مِری مُشتِ خاک آگے آگے مِرے پیچھے پیچھے ویرانہ
ضامن جعفری

کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ

ہوش و خِرَد فَریب ہیں دِیوانہ ہو کے دیکھ
کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ
پھِر دیکھیو کہاں کا خلوص اُور کہاں کا عشق
مَنظَر سے کَٹ ذَرا، ذرا اَفسانہ ہو کے دیکھ
مَت پُوچھ رَبطِ ساقی و میِنا و بادہ خوار
سَب راز کھُلتے جائیں گے پیمانہ ہو کے دیکھ
کیا جانے کَب سے ٹھوکروں میں تھا اِک اہلِ ہوش
آخر ضَمِیر چیخا کہ دیوانہ ہو کے دیکھ
سَمجھا رَہا ہُوں دیکھئے کَب تَک سَمَجھ میں آئے
اَپنا ہی ہو کے دیکھ لے میرا نہ ہو کے دیکھ
ضامنؔ! مُصِر ہے کَب سے کِسی کی نگاہِ ناز
خُودسوز! شَمعِ حُسن کا پَروانہ ہو کے دیکھ
ضامن جعفری

پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل

وا ہوا پھر درِ میخانۂ گل
پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل
زمزمہ ریز ہوے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہوا کاشانۂ گل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گل
پھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گل
پھر کسی گل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ میخانۂ گل
پھر سرِ شام کوئی شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گل
آج غربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانۂ گل
آج ہم خاک بسر پھرتے ہیں
ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گل
ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہم سے پوچھے کوئی افسانۂ گل
کل ترا دَور تھا اے بادِ صبا
ہم ہیں اب سرخیٔ افسانۂ گل
ہم ہی گلشن کے امیں ہیں ناصر
ہم سا کوئی نہیں بیگانۂ گل
ناصر کاظمی

سُن تو لیتا وُہ مری گو بات بچگانہ سہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
ٹھیک ہے طرزِ کرم اُس بُت کی جانانہ سہی
سُن تو لیتا وُہ مری گو بات بچگانہ سہی
گوہرِ مقصود کی دُھن ہے تو پھر کیا دیکھنا
جو کہے کہہ لے، چلن اپنا گدایانہ سہی
اُس نے کرنا تھا کسی کو تو نظر انداز بھی
بزم میں اُس شوخ کی میں ہی وُہ بیگانہ سہی
جانتے ہیں کچھ ہمِیں، ہے حالِ دل اندر سے کیا
دیکھنے میں ٹھاٹھ اِس بستی کے شاہانہ سہی
سیج تھی شاید کوئی، نَے وصل کی شب تھی کوئی
تم سے تھی منسوب جو ہر بات افسانہ سہی
ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جنوں کی رفعتیں
زیست میں ماجدؔ اگرچہ لاکھ فرزانہ سہی
ماجد صدیقی

جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا

دیوان پنجم غزل 1566
عشق کیے پچھتائے ہم تو دل نہ کسو سے لگانا تھا
جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا
غیریت کی اس کی شکایت یار عبث اب کرتے ہیں
طور اس شوخ ستم پیشہ کا طفلی سے بیگانہ تھا
بزم عیش کی شب کا یاں دن ہوتے ہی یہ رنگ ہوا
شمع کی جاگہ دود تنک تھا خاکستر پروانہ تھا
دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور
ہمرہ نعش عاشق کے اس ظالم کو بھی آنا تھا
طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب
روتے روتے ہنسنے لگا یہ میر عجب دیوانہ تھا
میر تقی میر

ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 16
جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق
ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق
سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق
دل مرا شیشہ ہے آنکھیں مری پیمانۂ عشق
جسم با جوشِ محبت سے ہے میخانۂ عشق
ہم تھے اور پیشِ نظر جلوۂ مستانۂ عشق
جس زمانے میں نہ محرم تھا نہ بیگانہ عشق
ہم وہ فرہاد تھے کاٹا نئی صورت سے پہاڑ
حسن کا گنج لیا کھود کے ویرانۂ عشق
کچھ گرہ میں نہیں گرمی کے سوا مثلِ سپند
برگ و بر دود و شرر ہوں جو اُگے دانۂ عشق
عین مستی میں ملے ہیں مجھے گوشِ شنوا
سن رہا ہوں میں صدائے لبِ پیمانۂ عشق
آ رہے باغِ جناں سے جو زمیں پر آدم
فی الحقیقت تھی وہ اِک لغزشِ مستانۂ عشق
معتقد کون نہیں کون نہیں اس کا مرید
پیر ہفتاد و دو ملت کا ہے دیوانۂ عشق
دل نے تسبیح بنا کر وہ کئے زیبِ گُلو
ہاتھ آئے جو کوئی گوہرِ یک دانۂ عشق
زلفِ معشوق نہ گھٹ جائے ادب کا ہے مقام
بڑھ چلیں اتنے نہ موئے سرِ دیوانۂ عشق
سننے والوں کے یہ ڈر ہے نہ جلیں پردۂ گوش
کیا سناؤں کہ بہت گر ہے افسانۂ عشق
خاکِ درکار ہے وہ لوثِ خطا سے جو ہو پاک
ورنہ ہر خاک سے اگتا ہے کوئی دانۂ عشق
کہتے ہیں مرگِ جوانی جسے سب اہلِ جہاں
اپنے نزدیک ہے وہ بازیِ طفلانۂ عشق
آہ! عاشق سے ہوئی غفلتِ معشوق نہ کم
خواب تھا حسنِ فسوں ساز کو افسانۂ عشق
بختِ برگشتہ ہوں تب بھی نہیں جاتا یہ مزہ
نہ گرے بادہ جو واژوں بھی ہو پیمانۂ عشق
طور پر کہتی ہے یہ شمع تجلّی کی زباں
سرمۂ حسن ہے خاکسترِ پروانۂ عشق
طالبِ درد ہے اس درجہ مرا طائرِ دل
ٹوٹ پڑتا ہے یہ جس دام میں ہو دانۂ عشق
ہوں وہ دیوانہ کہ قدموں سے لگا ہے مرے حسن
ہے مرے پانوں میں زنجیر پری خانۂ عشق
مر کے دے روح کو میری یہ الٰہی قدرت
ہنس بن بن کے چُگے گوہرِ یک دانۂ عشق
کیا فلاطوں کو ہے نسبت ترے دیوانے سے
آشنا ہے یہ محبت کا وہ بے گانۂ عشق
ہم تھے اور چہرۂ محبوب کا نظّارہ امیر
شعلۂ حسن تھا جس روز نہ پروانۂ عشق
امیر مینائی