ٹیگ کے محفوظات: بیکراں

پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کانٹوں کے درمیاں گلِ تر کا نشاں بھی دیکھ
پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ
ہاتھوں میں میرے، صفحۂ سادہ پہ کر نظر
اظہارِ غم کو ترسی ہوئی انگلیاں بھی دیکھ
تو اور سراپا بس میں ہمارے ہو! ہائے ہائے!!
ہم پر یہ ایک تہمتِ اہلِ جہاں بھی دیکھ
تھا زیست میں بہار کا طوفاں بھی پل دو پل
اِس بحر میں تموّجِ گردِ خزاں بھی دیکھ
سہمی ہوئی حیات کو یُوں مختصر نہ جان
لمحے میں جھانک اور اسے بیکراں بھی دیکھ
ردّی کے بھاؤ بیچا گیا ہوں کسی کے ہاتھ
لے کُو بکُو بکھرتی مری داستاں بھی دیکھ
ماجدؔ ہے جس کا شور سماعت میں اَب تلک
اُس سیلِ تند و تیز کے چھوڑے نشاں بھی دیکھ
ماجد صدیقی

سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 102
ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بیکراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہ ءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے، میں ترے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
گلہ ءِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
جون ایلیا

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 209
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
بلا سے!گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِخوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے
رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے
فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں
دراز دستئِ قاتل کے امتحاں کے لئے
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لئے
زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے
نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 93
دل کے مٹنے لگے نشاں دیکھو
سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو
ہر کلی سے لہو ٹپکنے لگا
شوق تعمیر گلستاں دیکھو
بار صیاد ہے کہ بار ثمر
جھک گئی شاخ آشیاں دیکھو
دل کا انجام ایک قطرہ خوں
حاصل بحر بیکراں دیکھو
سائے کرنوں کے ساتھ چلتے ہیں
صبح میں شام کا سماں دیکھو
داغ آئینہ بن گئے فرسنگ
سفر شوق کے نشاں دیکھو
پڑ گئی سرد آتش احساس
جم گیا خون عاشقاں دیکھو
لو دلوں کی حدیں سمٹنے لگیں
تنگ ہے کس قدر جہاں دیکھو
تم بھی کہنے لگے خدا لگتی
لڑکھڑانے لگی زباں دیکھو
دل کا ہر زخم ہے زباں اپنی
اس پہ یہ حسرت بیاں دیکھو
آگ سے کھیلتے ہو کیوں باقیؔ
اپنا دل دیکھو اپنی جاں دیکھو
باقی صدیقی