ٹیگ کے محفوظات: بینا

حسن خود محوِ تماشا ہو گا

عشق جب زمزمہ پیرا ہو گا
حسن خود محوِ تماشا ہو گا
سن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہو گا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بیدرد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہو گا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رَمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہو گا
پھر نئی رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہو گا
گلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہو گا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شرر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتہ پتہ لبِ گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
ناصر کاظمی

تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
بہرِ عرفان، عطا زیست مکّرر ہو اگر
میں جو مانگوں تو فقط دیدۂ بینا مانگوں
ہونٹ مانگوں وہ تپش جن سے، سخن کی جھلکے
اور درونِ رگِ جاں، خون مچلتا مانگوں
حرفِ حق منہ پہ جو ہے، اُس کی پذیرائی کو
پیشِ فرعون، خدا سے یدِ بیضا مانگوں
جس نے دی عمر مجھے، وام ہی، چاہے دی ہے
وہ سخی مدِّ مقابل ہو تو کیا کیا مانگوں
جو بھی دیکھے اُسے صنّاع مرا، یاد آئے
میں سرِ خاک بس ایسا قدِ بالا مانگوں
جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
ماجد صدیقی

شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
گر کے پتّا شاخ سے جس طرح واویلا کرے
شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے
تھے ہمِیں وُہ گُل جو گلدانوں میں بھی مہکا کئے
کون ہے ورنہ جو نُچ کر بھی سلوک اچّھا کرے
خواب تک میں بھی یہی رہتی ہے جانے آس کیوں
چاند جیسے ابر سے، کھڑکی سے وُہ جھانکا کرے
التفات ہم پر ہے یُوں اہلِ کرم کا جس طرح
دشت پر بھٹکا ہُوا بادل کوئی سایا کرے
فکر ہو بھی تو رعایا کو خود اپنی فکر ہو
شاہ کو کیا ہے پڑی ایسی کہ وہ سوچا کرے
کیا کہیں کتنی اپھل ہے نوکری اِس دَور کی
آدمی اِس سے تو دانے بھُون کر بیچا کرے
مُکھ دمک اُٹھیں سبھی تو رقص پر موقوف کیا
ہو گیا ایسا تو ماجدؔ جانے کیا سے کیا کرے
ماجد صدیقی

گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 87
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ@ ہائے بے جا کا
ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا
@نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 76
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا@
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
@کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا ۔ نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

دیوان اول غزل 225
پشت پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر
ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر
گرو مے ہوں آئو شیخ شہر
ابر جھوما ہی جا ہے صحرا پر
دل پر خوں تو تھا گلابی شراب
جی ہی اپنا چلا نہ صہبا پر
یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے
سات پردے ہیں چشم بینا پر
فرصت عیش اپنی یوں گذری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر
طارم تاک سے لہو ٹپکا
سنگ باراں ہوا ہے مینا پر
میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
میر تقی میر

جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 261
دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
جذب دل کے کوئی معنی نہ رہے
کس سے عجز لب گویا کہیے
کوئی آواز بھی آواز نہیں
دل کو اب دل کی تمنا کہیے
اتنا آباد کہ ہم شور میں گم
اتنا سنسان کہ صحرا کہیے
ہے حقیقت کی حقیقت دنیا
اور تماشے کا تماشا کہیے
لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں
شہر کو شہر کا نقشہ کہیے
خون دل حاصل نظارہ ہے
نگہ شوق کو پردا کہیے
شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے
اسے انداز صبا کا کہیے
دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ
چشم نرگس کو بھی بینا کہیے
باقی صدیقی

درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 118
موج ہاتھ آئے تو دریا مانگیں
درد دل مانگ کے پھر کیا مانگیں
کیا ملا انجمن آرائی سے
کیسے تنہائی سے رستہ مانگیں
دست کوتاہ نہیں دست طلب
مانگنے والوں سے ہم کیا مانگیں
دل کو غم ہائے جہاں سے فرصت
تجھ سے کیا تیری تمنا مانگیں
کس قدر تاب نظر ہے کس کو
کس لئے دیدہ بینا مانگیں
شہر کا شہر کڑی دھوپ میں ہے
کس کی دیوار سے سایہ مانگیں
کبھی قطرے کو بحسرت دیکھیں
کبھی دریا سے نہ قطرہ مانگیں
کبھی اک ذرے میں گم ہو جائیں
کبھی ہم وسعت صحرا مانگیں
تاب نظارا نہیں ہے باقیؔ
پھر بھی ہم طرفہ تماشا مانگیں
باقی صدیقی

تو جہاں آخری پردا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ مقام دل و جاں کیا ہو گا
تُو جہاں آخری پردا ہو گا
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا
ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا
راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا
اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہو گا
بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا
سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہو گا
پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدہ بینا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا
باقی صدیقی