ٹیگ کے محفوظات: بیماری

دزد غمزوں کی ویسی عیاری

دیوان ششم غزل 1902
وے سیہ موئی و گرفتاری
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
اب کے دل ان سے بچ گیا تو کیا
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
اچھا ہونا نہیں مریض عشق
ساتھ جی کے ہے دل کی بیماری
کیوں نہ ابر بہار پر ہو رنگ
برسوں دیکھی ہے میری خوں باری
شور و فریاد و زاری شب سے
شہریوں کو ہے مجھ سے بیزاری
چلے جاتے ہیں رات دن آنسو
دیدئہ تر کی خیر ہے جاری
مر رہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
کیونکے راہ فنا میں بیٹھیے گا
جرم بے حد سے ہے گراں باری
واں سے خشم و خطاب و ناز و عتاب
یاں سے اخلاص و دوستی یاری
میر چلنے سے کیوں ہو غافل تم
سب کے ہاں ہو رہی ہے تیاری
میر تقی میر

جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے

دیوان پنجم غزل 1765
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی
جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے
چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ
سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے
آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جاے نہیں
صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے
مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر
جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے
پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں
آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے
بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ
عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر
اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے
آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی
یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے
واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میر
عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے
میر تقی میر

کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1372
رنج کیا کیا ہم نے کھینچے دوستی یاری کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ
دوش و آغوش و گریباں دامن گلچیں ہوئے
گل فشانی کر رہی ہے چشم خونباری کے بیچ
ایک کو اندیشۂ کار ایک کو ہے فکر یار
لگ رہے ہیں لوگ سب چلنے کی تیاری کے بیچ
منتظر تو رہتے رہتے پھر گئیں آنکھیں ندان
وہ نہ آیا دیکھنے ہم کو تو بیماری کے بیچ
جان کو قید عناصر سے نہیں ہے وارہی
تنگ آئے ہیں بہت اس چار دیواری کے بیچ
روتے ہی گذری ہمیں تو شب نشینی باغ کی
اوس سی پڑتی رہی ہے رات ہر کیاری کے بیچ
یاد پڑتا ہے جوانی تھی کہ آئی رفتگی
ہو گیا ہوں میں تو مست عشق ہشیاری کے بیچ
ایک ہوویں جو زبان و دل تو کچھ نکلے بھی کام
یوں اثر اے میر کیا ہو گریہ و زاری کے بیچ
میر تقی میر

رکن کاہے کو چشم تر کی خونباری کا کیا باعث

دیوان چہارم غزل 1366
نہیں گر چوٹ دل پر گریہ و زاری کا کیا باعث
رکن کاہے کو چشم تر کی خونباری کا کیا باعث
ہوئے تختے چمن کے چھاتیاں اے عشق داغوں سے
بہار آنے سے آگے ایسی گل کاری کا کیا باعث
تماشا ہے کہ اکثر نرگسی زن رہتے ہو ہم پر
ہمیں سے پوچھو تو پھر میر بیماری کا کیا باعث
میر تقی میر

شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے

دیوان دوم غزل 1048
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے
روتا پھرا ہوں برسوں لوہو چمن چمن میں
کوچے میں اس کے یکسر گل کاری ہو گئی ہے
یک جا اٹک کے رہنا ہے ناتمامی ورنہ
سب میں وہی حقیقت یاں ساری ہو گئی ہے
جب خاک کے برابر ہم کو کیا فلک نے
طبع خشن میں تب کچھ ہمواری ہو گئی ہے
مطلق اثر نہ دیکھا مدت کی آہ و زاری
اب نالہ و فغاں سے بیزاری ہو گئی ہے
اس سے دوچار ہونا آتا نہیں میسر
مرنے میں اس سے ہم کو ناچاری ہو گئی ہے
ہر بار ذکر محشر کیا یار کے در اوپر
ایسی تو یاں قیامت سو باری ہو گئی ہے
انداز شوخی اس کے آتے نہیں سمجھ میں
کچھ اپنی بھی طبیعت یاں عاری ہو گئی ہے
شاہی سے کم نہیں ہے درویشی اپنے ہاں تو
اب عیب کچھ جہاں میں ناداری ہو گئی ہے
ہم کو تو درد دل ہے تم زرد کیوں ہو ایسے
کیا میر جی تمھیں کچھ بیماری ہو گئی ہے
میر تقی میر

اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 222
توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آکر
شہر آباد کیا‘ نہرِ صبا جاری کی
ہم بھی کیا شے ہیں طبیعت ملی سیارہ شکار
اور تقدیر ملی آہوئے تاتاری کی
اتنا سادہ ہے مرا مایۂ خوبی کہ مجھے
کبھی عادت نہ رہی آئنہ برداری کی
میرے گم گشتہ غزالوں کا پتہ پوچھتا ہے
فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی
اس کے لہجے میں کوئی چیز تو شامل تھی کہ آج
دل پہ اس حرفِ عنایت نے گراں باری کی
عرفان صدیقی

اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 73
حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تیری چارہ گری کیا، میری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دِل ناداں نے دِکھا رکھی ہے ہشیاری کیا
قید خانے سے نکل آئے تو صحرا کا حصار
ہم سے ٹوٹے گی یہ زنجیرِ گرفتاری کیا
وہ بھی یک طرفہ سخن آراء ہیں، چلوں یوں ہی سہی
اتنی سی بات پہ یاروں کی دل آزاری کیا
عرفان صدیقی