ٹیگ کے محفوظات: بیماروں

اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں

کچھ آوارہ یاروں میں آ بیٹھا ہوں
اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں
آتے جاتے دیکھ رہے ہیں لوگ مجھے
بےزاری! بازاروں میں آ بیٹھا ہوں
سیکھ رہا ہوں سارے گُر مکّاری کے
کچھ دن سے زر داروں میں آ بیٹھا ہوں
دِل کی کالک دھُل جائے گی لمحوں میں
مولاؑ کے حُب داروں میں آ بیٹھا ہوں
موت مری تصویر اُٹھائے پِھرتی ہے
جب سے میں بیماروں میں آ بیٹھا ہوں
میں جنگل میں رہنے والا سبز نظر
عُریانی کے غاروں میں آ بیٹھا ہوں
افتخار فلک

رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 65
بیٹھیے شوق سے دشمن کی طرف داروں میں
رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں
آنکھ نرگس سے لڑاتے ہو جو گلزاروں میں
کیوں لیئے پھرتے ہو بیمار کو بیماروں میں
عشق نے قدر کی نظروں سے نہ جب تک دیکھا
حسن بکتا ہی پھرا مصر کے بازاروں میں
دل کی ہمت ہے جو ہے جنبشِ ابرو پہ نثار
ورنہ کون آتا ہے چلتی ہوئی تلواروں میں
جو پر رحمتِ معبود جو دیکھی سرِ حشر
آملے حضرتِ واعظ بھی گنہ گاروں میں
جب وہ آتے ہیں تو مدھم سے پڑ جاتے ہیں چراغ
چاند سی روشنی ہو جاتی ہے کم تاروں میں
وہ بھی کیا دن تھے کہ قسمت کا ستارہ تھا بلند
اے قمر رات گزر جاتی تھی مہ پاروں میں
قمر جلالوی

کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو

دیوان ششم غزل 1862
اگلے سب چاہتے تھے ہم سے وفاداروں کو
کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو
شہر تو عشق میں ہے اس کے شفاخانہ تمام
وہ نہیں آتا کبھو دیکھنے بیماروں کو
مستی میں خوب گذرتی ہے کہ غفلت ہے ہمیں
مشکل اس مصطبے میں کام ہے ہشیاروں کو
فکر سے اپنے گذرتا ہے زمیں کاوی میں دن
رات جاتی ہے ہمیں گنتے ہوئے تاروں کو
خوب کرتے ہیں جو خوباں نہیں رو دیتے ہیں
منھ لگاتا ہے کوئی خوں کے سزاواروں کو
حسن بازار جہاں میں ہے متاع دلکش
صاحب اس کا ٹھگے جاتا ہے خریداروں کو
وامق و کوہکن و قیس نہیں ہے کوئی
بھکھ گیا عشق کا اژدر مرے غمخواروں کو
زندگی کرتے ہیں مرنے کے لیے اہل جہاں
واقعہ میر ہے درپیش عجب یاروں کو
میر تقی میر

شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم

دیوان ششم غزل 1841
کیا زمانہ تھا کہ تھے دلدار کے یاروں میں ہم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم الم رنج و قلق ہجراں کا تو
زندگی سے بے توقع ہیں ان آزاروں میں ہم
شاید آوے حال پرسی کرنے اس امید پر
کب سے ہیں دارالشفا میں اس کے بیماروں میں ہم
دھوپ میں جلتے ہیں پہروں آگے اس کے میرجی
رفتگی سے دل کی ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں ہم
میر تقی میر

جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ

دیوان ششم غزل 1820
وامق و فرہاد و مجنوں کون ہے یاروں کے بیچ
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ
جمع خوباں میں مرا محبوب اس مانند ہے
جوں مہ تابندہ آتا ہے کبھو تاروں کے بیچ
جو جفا عاشق پہ ہے سو اور لوگوں پر نہیں
اس سے پیدا ہے کہ میں ہی ہوں گنہگاروں کے بیچ
مر گئے بہتیرے صاحب دل ہوس کس کو ہوئی
ایسے مرنے جینے کی ان عشق کے ماروں کے بیچ
رونا کڑھنا عشق میں دیکھا مرا جن نے کہا
کیا جیے گا یہ ستم دیدہ ان آزاروں کے بیچ
منتظر برسوں رہے افسوس آخر مر گئے
دیدنی تھے لوگ اس ظالم کے بیماروں کے بیچ
خاک تربت کیوں نہ اپنی دلبرانہ اٹھ چلے
ہم بھی تھے اس نازنیں کے ناز برداروں کے بیچ
صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دل کھلے
تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ
باغ میں تھے شب گل مہتاب میرے آس پاس
یار بن یعنی رہا میں میر انگاروں کے بیچ
میر تقی میر

ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں

دیوان چہارم غزل 1461
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں
ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں
کوچۂ یار تو ہے غیرت فردوس ولے
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ہوکے بدحال محبت میں کھنچے آخرکار
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
جی گیا ایک دم سرد ہی کے ساتھ اپنا
ہم جو خوش زمزمہ تھے اس کے گرفتاروں میں
اب در باز بیاباں میں قدم رکھیے میر
کب تلک تنگ رہیں شہر کی دیواروں میں
میر تقی میر

پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں

دیوان دوم غزل 883
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں
باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ایک کے بھی وہ برے حال میں آیا نہ کبھو
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
دوستی کس سے ہوئی آنکھ کہاں جاکے لڑی
دشمنی آئی جسے دیکھتے ہی یاروں میں
ہائے رے ہاتھ جہاں چوٹ پڑی دو ہی کیا
الغرض ایک ہے وہ شوخ ستمگاروں میں
کشمکش جس کے لیے یہ ہے شمار دم یہ
ان نے ہم کو نہ گنا اپنے گرفتاروں میں
کیسی کیسی ہے عناصر میں بھی صورت بازی
شعبدے لاکھوں طرح کے ہیں انھیں چاروں میں
مشفقو ہاتھ مرے باندھو کہ اب کے ہر دم
جا الجھتے ہیں گریبان کے دو تاروں میں
حسب قسمت سبھوں نے کھائے تری تیغ کے زخم
ناکس اک نکلے ہمیں خوں کے سزاواروں میں
اضطراب و قلق و ضعف ہیں گر میر یہی
زندگی ہو چکی تو اپنی ان آزاروں میں
میر تقی میر

غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے

دیوان اول غزل 607
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مت تبختر سے گذر قمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سرو رواں کے ناز برداروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تونے اودھر آنکھ اٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی
رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے
گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہگاروں میں تھے
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میر دونوں اپنے غم خواروں میں تھے
میر تقی میر