ٹیگ کے محفوظات: بیر

پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر

ایک نگر میں ایسا دیکھا دِن بھی جہاں اندھیر
پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر
ہوا چلی تو پنکھ پنکھیرو بستی چھوڑ گئے
سونی رہ گئی کنگنی، خالی ہوئے منڈیر
بچپن میں بھی وُہی کھلاڑی بنا ہے اپنا میت
جس نے اُونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر
یارو تم تو ایک ڈگر پر ہار کے بیٹھ گئے
ہم نے تپتی دُھوپ میں کاٹے کڑے کوس کے پھیر
اب کے تو اس دیس میں یوں آیا سیلاب
کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہو گئیں ڈھیر
ناصر کاظمی

اے حادثاتِ وقت کے خالق گزار خیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 8
پاؤں سے دھرتی نکلی تو رکھے فلک پہ پیر
اے حادثاتِ وقت کے خالق گزار خیر
ہم لوگ ہیں زمیں پہ مسلسل کھڑی نماز
ہم نے رکھا نہیں ہے کبھی آسماں سے بیر
اس کرۂ کشش کے طلسمات توڑ دے
اے دجلۂ زمیں کے شناور ، خلا میں تیر
دنیا میں مال و زر کے سجودو رکوع سے
مسلم گزیدہ کعبہ ہے کافر گزیدہ دیر
وہ جانتے ہیں رات کی ساری کہا نیاں
سانسوں کے پل صراط پر دن بھر کریں جو سیر
منصور کہہ رہے ہیں عمل سے فلک شناس
ابلیس رشتہ دار ہمارا ، خدا ہے غیر
منصور آفاق