ایک نگر میں ایسا دیکھا دِن بھی جہاں اندھیر
پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر
ہوا چلی تو پنکھ پنکھیرو بستی چھوڑ گئے
سونی رہ گئی کنگنی، خالی ہوئے منڈیر
بچپن میں بھی وُہی کھلاڑی بنا ہے اپنا میت
جس نے اُونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر
یارو تم تو ایک ڈگر پر ہار کے بیٹھ گئے
ہم نے تپتی دُھوپ میں کاٹے کڑے کوس کے پھیر
اب کے تو اس دیس میں یوں آیا سیلاب
کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہو گئیں ڈھیر
ناصر کاظمی