ٹیگ کے محفوظات: بیتاب

اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 99
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اُس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بیتاب سے بھی
اے سمندر کی ہوا تیر اکرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حُسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی
احمد فراز

تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 94
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِبزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو ، وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیلِ گریہ میں ، گردُوں کفِ سیلاب تھا
مرزا اسد اللہ خان غالب

سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو

دیوان پنجم غزل 1714
کیونکر مجھ کو نامہ نمط ہر حرف پہ پیچ و تاب نہ ہو
سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو
گل کو دیکھ کے گلشن کے دروازے ہی سے پھر آیا
کیا مل بیٹھیے اس سے بھلا جو صحبت ہی کا باب نہ ہو
مستی خرابی سر پر لائی کعبے سے اٹھ دیر گیا
جس کو خدا نے خراب کیا ہو پھر وہ کیونکے خراب نہ ہو
خلع بدن کرنے سے عاشق خوش رہتے ہیں اس خاطر
جان و جاناں ایک ہیں یعنی بیچ میں تن جو حساب نہ ہو
خشم و خطاب جبیں پر چیں تو حسن ہے گل رخساروں کا
وہ محبوب خنک ہوتا ہے جس میں ناز و عتاب نہ ہو
میں نے جو کچھ کہا کیا ہے حد و حساب سے افزوں ہے
روز شمار میں یارب میرے کہے کیے کا حساب نہ ہو
صبر بلا ہاے عشقی پر حوصلے والے کرتے ہیں
رحمت ہے اس خستہ جگر کو دل جس کا بیتاب نہ ہو
جس شب گل دیکھا ہے ہم نے صبح کو اس کا منھ دیکھا
خواب ہمارا ہوا ہوا ہے لوگوں کا سا خواب نہ ہو
نہریں چمن کی بھر رکھی ہیں گویا بادئہ لعلیں سے
بے عکس گل و لالہ الٰہی ان جویوں میں آب نہ ہو
اس دن میں تو مستانہ ہوتا ہوں کوئی کوچہ گدا
جس دن کاسۂ چوبیں میں میرے یک جرعہ بھی شراب نہ ہو
تہ داری کچھ دیدئہ تر کی میر نہیں کم دریا سے
جوشاں شور کناں آجاوے یہ شعلہ سیلاب نہ ہو
میر تقی میر

اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا

دیوان چہارم غزل 1349
چاہت کا اظہار کیا سو اپنا کام خراب ہوا
اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
ساری ساری راتیں جاگے عجز و نیاز و زاری کی
تب جاکر ملنے کا اس کے صبح کے ہوتے جواب ہوا
کیا کہیے مہتاب میں شب کی وہ بھی ٹک آبیٹھا تھا
تاب رخ اس مہ نے دیکھی سو درجے بیتاب ہوا
شمع جو آگے شام کو آئی رشک سے جل کر خاک ہوئی
صبح گل تر سامنے ہوکر جوش شرم سے آب ہوا
مرتے نہ تھے ہم عشق کے رفتہ بے کفنی سے یعنی میر
دیر میسر اس عالم میں مرنے کا اسباب ہوا
میر تقی میر

چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا

دیوان دوم غزل 680
دل فرط اضطراب سے سیماب سا ہوا
چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا
شاید جگر گداختہ یک لخت ہو گیا
کچھ آب دیدہ رات سے خوناب سا ہوا
وے دن گئے کہ اشک سے چھڑکائو سا کیا
اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا
اک دن کیا تھا یار نے قد ناز سے بلند
خجلت سے سرو جوے چمن آب سا ہوا
کیا اور کوئی روئے کہ اب جوش اشک سے
حلقہ ہماری چشم کا گرداب سا ہوا
قصہ تو مختصر تھا ولے طول کو کھنچا
ایجاز دل کے شوق سے اطناب سا ہوا
عمامہ ہے موذن مسجد کہ بارخر
قد تو ترا خمیدہ ہو محراب سا ہوا
بات اب تو سن کہ جاے سخن حسن میں ہوئی
خط پشت لب کا سبزئہ سیراب سا ہوا
چل باغ میں بھی سوتے سے اٹھ کر کبھو کہ گل
تک تک کے راہ دیدئہ بے خواب سا ہوا
سمجھے تھے ہم تو میر کو عاشق اسی گھڑی
جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا
میر تقی میر

ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

دیوان اول غزل 175
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پرآب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آئی تھی آنکھوں سے چلی سیلاب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ در نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب
اب رسم ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
دل کس کے رو و مو سے لگایا ہے میر نے
پاتے ہیں اس جوان کو بیتاب روز و شب
میر تقی میر

برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

دیوان اول غزل 20
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا
برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا
گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا
وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بیتاب ہوں سیماب سا
دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روز وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا
ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گذرے ہے قد جو ہوا محراب سا
تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھی کبھو
اب دیدئہ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا
بہکے جو ہم مست آگئے سو بار مسجد سے اٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا
رکھ ہاتھ دل پر میر کے دریافت کر کیا حال ہے
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دنوں بیتاب سا
میر تقی میر