ٹیگ کے محفوظات: بیاں

جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا

باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گُل کا
جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا
جب پُھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے
لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گُل کا
نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں
شعلوں کو بنا کر نگراں موسمِ گُل کا
سُوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں
دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گُل کا
شکیب جلالی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو

مجلسِ دل بکھر چکی، مجلسیاں کی خیر ہو
اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو
راحتِ جاں نہ مل سکی، ہم کو اماں نہ مل سکی
خیر ہماری خیر ہے، جائے اماں کی خیر ہو
باغ چہک نہیں رہا، رنگ مہک نہیں رہا
سانس اُکھڑ گیا مرا، ہم نفساں کی خیر ہو
ہجر ہے یا وصال ہے، اصل میں اک خیال ہے
یعنی یقیں سے ہو مفر، گویا گماں کی خیر ہو
کتنا عجیب وقت ہے، خواب گروں پہ سخت ہے
رنج کا بندوبست ہے، دل زدگاں کی خیر ہو
ایک ہجومِ بد نگاہ، بے ہنروں کی اک سپاہ
پردہ دری سے بچ کے چل، رازِ نہاں کی خیر ہو
اے مرے قلبِ ناصبور، خواہشِ وصل دُور دُور
ملتفتوں سے کر حذر، شوقِ زیاں کی خیر ہو
ایک سا شورِ ہاؤ ہُو، پھیل گیا ہے چار سُو
نعرہ زنوں کی بھیڑ میں، خلوتیاں کی خیر ہو
عارض و لب کھِلے رہیں، چاکِ جنوں سلے رہیں
شیریں مقال زندہ باد، ماہ وشاں کی خیر ہو
عشق سے دشمنی کے دن، حرف کی جاں کنی کے دن
شہرِ سخن کے شور میں، کم سخناں کی خیر ہو
وحشتِ دل کے محرماں، میرے سخن کے نکتہ داں
آج بھی چند ہیں یہاں، خوش نظراں کی خیر ہو
لطف و سرور بے کراں، نشہ و کیف جاوداں
میکدہ_جنوں ترے، پیر_مغاں کی خیر ہو
بزم_طرب سجی رہی، بس یہ ہما ہمی رہے
آہ مری دبی رہے، زمزمہ خواں کی خیر ہو
اوجِ کمالِ دل کشی، اے مرے طرزِ شاعری
عمر دراز ہو تری، حسنِ بیاں کی خیر ہو
ختم ہوا سفر یہاں، چل پڑو سوئے لامکاں
راہ روو سفر بخیر، بزم_ جہاں کی خیر ہو
درد کا ہم نشیں کوئی، کوچہ_غم کہیں کوئی
اچھا کہیں نہیں کوئی، ماتمیاں کی خیر ہو
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا

زندگی کا سفر ایک دن، وقت کے شور سے، ایک پُرخواب ساعت کے بیدار ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا
تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا
بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب، واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسئلے، ہاتھ باندھے ہوئے، صف بہ صف روبرو آئیں گے
سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، سب وہم مر جائیں گے، بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا
بے دماغوں کے اِس اہلِ کذب و ریا سے بھرے شہر میں، ہم سوالوں سے پُر، اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہو گئے
چند ہی روز باقی ہیں بس، جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی جب، یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا
بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی
تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا
کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی، تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے دی گئی ہے، کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے
تم یہ شاید نہیں جانتے، اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی، یہ زمیں ہو نہ ہو، آسماں ختم ہو جائے گا
عرفان ستار

لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

یہ حَسیں جس کو مِرا عجزِ بیاں کہتے ہیں
لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا

وعدۂ فَردا کو زیبِ داستاں رہنے دِیا
حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا
کون سی چھَت کیسی دیواریں کَہاں کے بام و دَر
سَر چھُپانے کو تھا جیسا بھی مکاں رہنے دِیا
مُدَّتَوں سے اِک خُدائی ہے وہ اَب جیسی بھی ہے
سِلسِلہ ہم نے بھی تا حَدِ گُماں رہنے دِیا
بہرِ تسکینِ غرورِ اِختیار و اقتدار
کِس نے یہ شورِ صَدائے اَلاماں رہنے دِیا
کون ہے پَردے کے پیچھے! ہے بھی کوئی یا نہیں !
ہر گماں ہم نے پَسِ پَردہ نِہاں رہنے دِیا
حیَف! یہ دعوائے ہَم آہَنگیٔ عِلم و ہُنَر!
لوگ اِس پَر خُوش ہیں سَر پَر آسماں رہنے دِیا
وَقت نے بھَر تَو دِئیے سَب زَخمِ یادِ عندلیب
شاخِ گُل پر ایک ہَلکا سا نشاں رہنے دِیا
جِس کو ضامنؔ آشیانہ پھُونکتے دیکھا تھا کَل
تُم نے حیَرَت ہے اُسی کو باغباں رہنے دِیا
ضامن جعفری

ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب

زندگی تحفَہِ یَک بارِ گراں ہے صاحب
ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب
آگ میخانہِ ہستی میں لگائی کِس نے؟
کوئی کہتا تھا کہ خُود پیِرِ مُغاں ہے صاحب
زِیست اِک خواب سا ہے عالَمِ بیداری کا
وہ بھی کیا کہیے یقیں ہے کہ گُماں ہے صاحب
مُنتَشَر ہو گئے اَربابِ کَرَم اَور احباب
پُوچھتے پِھرتے ہیں ہم کون کہاں ہے صاحب
دِیدہ و دِل کی بَظاہر تَو خَطا ہے لیکن
حُسن کا ذِکر اَبھی مُحتاجِ بیاں ہے صاحب
عِشق آئینہِ ہَستی کی جِلا ہے ضامنؔ
گَردِ تاریخ کی ہَر تہ میں نہاں ہے صاحب
ضامن جعفری

مِل بھی لیتے ہیں مگر بارِ گراں ہو جیسے

ذِکر ہے میرا حدیثِ دِگَرَاں ہو جیسے
مِل بھی لیتے ہیں مگر بارِ گراں ہو جیسے
راکھ کر کے بھی مرے دل کو وہ یوں فکر میں ہیں
کہیں اُٹھتا ہُوا ہلکا سا دُھواں ہو جیسے
آہ و فریاد نہ منّت نہ سماجت کا اثر
اِک تغافل ہی فقط حسنِ بیاں ہو جیسے
شب کے سنّاٹے میں اُس چہرہ و آواز کی یاد
"چاندنی رات میں دریا کا سماں ہو جیسے”
اُن کو جینا ہی گوارا نہیں میرا ضامنؔ
سانس بھی لُوں تو شکایت ہے فغاں ہو جیسے
ضامن جعفری

وہ ٹَہَر جائیں تو پھر وقت رواں کیسے ہو

دل ہی مدہوش ہے احساسِ زیاں کیسے ہو
وہ ٹَہَر جائیں تو پھر وقت رواں کیسے ہو
اُن سے ہر کیفیتِ کون و مکاں کر کے بیاں
اب پریشاں ہوں محبت کا بیاں کیسے ہو
روٹھ کر بھی جو سدا میری خبر رکھتا ہے
مجھ کو اُس شخص پہ نفرت کا گماں کیسے ہو
تو ہی بتلا دے ہر اِک سانس میں بسنے والے
اِس طرح سے تو کوئی کارِ جہاں کیسے ہو
دل شکستہ ہے کوئی، کوئی نظر نیچی ہے
کس کا نقصان سِوا ہے یہ عیاں کیسے ہو
اُن کو لگتی تو ہیں اچھی تری غزلیں ضامنؔ
رازِ دل اَور بھلا کھُل کے بیاں کیسے ہو
ضامن جعفری

لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

پیشِ حُسن آپ جسے عجزِ بیاں کہتے ہیں
لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

ہر لمحہ وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا

آغازِ محبت کا سماں بھول گئے کیا
ہر لمحہ وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا
چہرے کی تب و تاب وہ آہٹ پہ ہماری
ہر پل وہ سوئے دَر نِگَراں بھول گئے کیا
کیا حرفِ محبت کو تکلّم کی ضرورت
آنکھوں میں ہے جو حُسنِ بیاں بھول گئے کیا
وہ حسن و جوانی کے لپکتے ہوئے شعلے
اور اُن میں سکونِ دو جہاں بھول گئے کیا
ہر چیز اہم تھی، نظر و لہجہ و الفاظ
ہر چیز پہ سو سو تھے گماں بھول گئے کیا
یوں یاد دِلاتا ہوں اُنہیں وعدۂ فردا
میں آپ کے صدقے مری جاں بھول گئے کیا
ہے کوئی جو اُن سے یہ ذرا پوچھ کے آئے
قدریں وہ بزرگوں کی میاں بھول گئے کیا
شیرینیٔ گفتار ہے ضامنؔ جو تمہاری
ہے صدقۂ شیریں دہناں بھول گئے کیا
ضامن جعفری

اب مجھے یہ امتحاں کھَلنے لگا

ارتباطِ جسم و جاں کھَلنے لگا
اب مجھے یہ امتحاں کھَلنے لگا
اک متاعِ زندگی لگتا تھا جو
اب وہ حرفِ رایگاں کھَلنے لگا
آنچ آئی جب اصولوں پر مرے
التفاتِ دوستاں کھَلنے لگا
تیری منزل تھی مرا نقشِ قدم
اب مرا نام و نشاں کھَلنے لگا
اشکبار آنکھوں نے مانگی ہے دعا
آگ لگ جائے، دُھواں کھَلنے لگا
کب تلک قتلِ زبان و حرف و لفظ
شاعرِ شعلہ بیاں کھَلنے لگا
علم و دانش، حرف و فن آزاد ہَوں
حلقۂ دانشوراں کھَلنے لگا
کب سے ہُوں محرومِ کنجِ عافیت
یہ جہانِ اَبلَہاں کھَلنے لگا
فطرتِ آزاد کو ضامنؔ مری
ہر جگہ اک آسماں کھَلنے لگا
ضامن جعفری

ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپے جاں اور طرح کے
اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دُنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دَولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی

خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے
خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اُڑ رہا ہے پھُولوں کا
غنچہ غنچہ شررفشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش رُبا
کچھ مری شوخیٔ بیاں بھی ہے
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
وجہِ تسکیں بھی ہے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے
ناصر کاظمی

یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں

اے جذبِ دل سمجھ مرے منہ میں زباں نہیں
یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں
بلبل کے بعد پوچھتی پھرتی ہے یہ صبا
اتنے بڑے چمن میں کوئی خوش بیاں نہیں
ہر لمحہ دل سے آتی ہے امید کی صدا
دنیا میں کوئی بات بعید از گماں نہیں
ساری صدائیں میری صدا کی ہیں بازگشت
اہلِ چمن میں کون مرا ہم زباں نہیں
شکوے کا کیا جواز ہے باصرِؔ تمہارے پاس
وہ مہرباں ہی کب تھے جو اب مہرباں نہیں
باصر کاظمی

پھر غلط کیا تھا جو تجھ کو ہم زباں سمجھا تھا میں

اپنے افسانے کو سب کی داستاں سمجھا تھا میں
پھر غلط کیا تھا جو تجھ کو ہم زباں سمجھا تھا میں
تُو نے آنکھیں پھیر لیں تو آج آنکھیں کھُل گئیں
تیری باتوں سے تو تجھ کو مہرباں سمجھا تھا میں
میری کوتاہی کہ میں سمجھا نہ اپنی قدر آپ
میری خوش فہمی کہ تجھ کو قدرداں سمجھا تھا میں
ہو کے شرمندہ وہ مجھ سے آج یہ کہنے لگا
انکساری کو تری عجزِ بیاں سمجھا تھا میں
آج اُسی کے نام سے روشن ہیں منزل کے چراغ
جس مسافر کے سفر کو رائگاں سمجھا تھا میں
باصر کاظمی

موجۂ آبِ رواں یاد آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
جب ترا لطفِ نہاں یاد آئے
موجۂ آبِ رواں یاد آئے
تجھ سے خسارہ پیار میں پا کے
سُود نہ کوئی زیاں یاد آئے
تیور جب بھی فلک کے دیکھوں
تجھ ابرو کی کماں یاد آئے
راج پاٹ جب دل کا جانچوں
تجھ سا رشکِ شہاں یاد آئے
ہاں ہاں ہر دو بچھڑے مجھ سے
بزم تری کہ جناں یاد آئے
چاند اور لہر کے ربط سے ماجِد
کس کا زورِ بیاں یاد آئے
ماجد صدیقی

دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور
دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور
کہتی ہیں تجھے تشنہ شگوفوں کی زبانیں
اے ابر کرم ! کھینچ نہ تو اپنی کماں اور
ہر نقشِ قدم، رِستے لہو کا ہے مرّقع
اِس خاک پہ ہیں، اہلِ مسافت کے نشاں اور
نکلے ہیں لئے ہاتھ میں ہم، خَیر کا کاسہ
اُٹھنے کو ہے پھر شہر میں، غوغائے سگاں اور
صیّاد سے بچنے پہ بھی ، شب خون کا ڈر ہے
اب فاختہ رکھتی ہے یہاں ، خدشۂ جاں اور
دیکھیں گے، گرانی ہے زمانے کی یہی تو
سبزے کے کچلنے کو ابھی ، سنگِ گراں اور
ماجد وُہی کہتے ہیں، تقاضا ہو جو دل کا
ہم اہلِ سیاست نہیں، دیں گے جو بیاں اور
ماجد صدیقی

پپڑی سا ہر اک لب پہ جما شورِ فغاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
وُہ خوف کہ ہر جسم میں دبکی ہوئی جاں ہے
پپڑی سا ہر اک لب پہ جما شورِ فغاں ہے
برتر ہے ہر اِک بزم میں مختار ہے جو بھی
ہونٹوں پہ سجا اُس کے عجب زورِ بیاں ہے
کیا جانئے کچھ بھی تو معانی نہیں رکھتی
وُہ خامشی پھیلی جو کراں تا بہ کراں ہے
اِک ایک نگہ تیر، ہمیں دیکھنے والی
جو طاق بھی ابرو کا نظر آئے کماں ہے
ہر عہد کے آنگن میں بہلنے کو ہمارے
جس سمت نظر جائے کھلونوں کا سماں ہے
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گل ہیں خوشبُو ہیں کہکشاں ہیں ہم
تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم
کل بھی تھا ساتھ ولولوں کا ہجوم
آج بھی میرِ کارواں ہیں ہم
اِک تمنّا کا ساتھ بھی تو نہیں
کس بھروسے پہ یوں رواں ہیں ہم
دل میں سہمی ہے آرزوئے حیات
کن بگولوں کے درمیاں ہیں ہم
جانتی ہیں ہمیں ہری شاخیں
زرد پتّوں کے ترجمان ہیں ہم
دل کا احوال کیا کہیں ماجدؔ
گو بظاہر تو گلستاں ہیں ہم
ماجد صدیقی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 100
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 70
ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 61
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 56
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 48
زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 27
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 9
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 8
زندگی کا سفر ایک دن، وقت کے شور سے، ایک پُرخواب ساعت کے بیدار ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا
تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا
بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب، واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسئلے، ہاتھ باندھے ہوئے، صف بہ صف روبرو آئیں گے
سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، سب وہم مر جائیں گے، بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا
بے دماغوں کے اِس اہلِ کذب و ریا سے بھرے شہر میں، ہم سوالوں سے پُر، اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہو گئے
چند ہی روز باقی ہیں بس، جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی جب، یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا
بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی
تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا
کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی، تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے دی گئی ہے، کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے
تم یہ شاید نہیں جانتے، اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی، یہ زمیں ہو نہ ہو، آسماں ختم ہو جائے گا
عرفان ستار

یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 18
قیامت اب جہاں ہو گی ستم تیرا باں ہو گا
یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا
نہ گھبرا اے مریضِ عشق دونوں آنے والے ہیں
قضا بھی مہماں ہو گی وہ بت بھی مہماں ہو گا
بہار آخر ہے پی لی بیٹھ کر اے شیخ رندوں میں
یہ محفل پھر کہاں ہو گی یہ جلسہ پھر کہاں ہو گا
چمن میں توڑ ڈالی باغباں نے مجھ سے یہ کہہ کر
نہ شاخِ آشیاں ہو گی نہ تیرا آشیاں ہو گا
کدھر ڈھونڈے گا اپنے قافلے سے چھوٹنے والے
نہ گردِ کارواں ہو گی نہ شورِ کارواں ہو گا
مجھے معلوم ہے اپنی کہانی، ماجرا اپنا
نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا
وہ چہرے سے سمجھ لیں گے مری حالت مرا ارماں
نہ محتاجِ بیاں ہو گی نہ محتاجِ بیں ہو گا
تم اپنے در پہ دیتے ہو اجازت دفنِ دشمن کی
مری تربت کہاں ہو گی مرا مرقد کہاں ہو گا
ابھی کیا ہے قمر ان ی ذرا نظریں تو پھرنے دو
زمیں نا مہرباں ہو گی فلک نا مہرباں ہو گا
قمر جلالوی

کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 44
ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟
بہتر ہے آپ غیر سے دل کھول کر ملیں
آخر تو یہ بھی میرے ہی ہے امتحاں کی طرح
اُس شمع رُو کی بزم میں مانع نہ تھا کوئی
ہوتی سبک جو نالۂ آتش فشاں کی طرح
کیوں ہر نفس ہے شہدِ خموشی سے بند لب
بھائی ہے دل کو کون سے شیریں بیاں کی طرح
لڑنے میں آشتی نہ تغافل میں التفات
یہ جور کی نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح
خمیازہ بند بند گسل ہے خمار سے
بدمست کر گئی یہ کس ابرو کماں کی طرح
ہر ہر قدم پہ رشک سے جلتی ہے شمعِ فند
چلتا ہے وہ بھی شیفتہ میری زباں کی طرح
مصطفٰی خان شیفتہ

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 47
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جانبر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نا مہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ دہلوی

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 209
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
بلا سے!گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِخوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے
رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے
فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں
دراز دستئِ قاتل کے امتحاں کے لئے
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لئے
زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے
نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے
زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 120
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ہے خوںِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خو نبانہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
لیتا، نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا، جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا

دیوان سوم غزل 1079
میں گلستاں میں آ کے عبث آشیاں کیا
بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا
پھر اس کے ابرواں کا خم و تاب ہے وہی
تلوار کے تلے بھی مرا امتحاں کیا
دوں کس کو دوش دشمن جانی تھی دوستی
اس سودے میں صریح میں نقصان جاں کیا
گالی ہے حرف یار قلم نے قضا کے ہائے
صورت نکالی خوب ولے بدزباں کیا
اس جنس خوش کے پیچھے کھپا میں چوائو کیا
میں نے کسو کا کیا کیا اپنا زیاں کیا
لڑکے جہان آباد کے یک شہر کرتے ناز
آجاتے ہیں بغل میں اشارہ جہاں کیا
میں منتظر جواب کا نامے کے مر گیا
ناچار میر جان کو اودھر رواں کیا
میر تقی میر

انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا

دیوان دوم غزل 718
یہ میر ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا
جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا
منھ تکیے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا
جس راہ سے وہ دل زدہ دلی میں نکلتا
ساتھ اس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا
افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
آندھی تھی بلا تھا کوئی آشوب جہاں تھا
کس مرتبہ تھی حسرت دیدار مرے ساتھ
جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا
مجنوں کو عبث دعوی وحشت ہے مجھی سے
جس دن کہ جنوں مجھ کو ہوا تھا وہ کہاں تھا
غافل تھے ہم احوال دل خستہ سے اپنے
وہ گنج اسی کنج خرابی میں نہاں تھا
کس زور سے فرہاد نے خارا شکنی کی
ہر چند کہ وہ بے کس و بے تاب و تواں تھا
گو میر جہاں میں کنھوں نے تجھ کو نہ جانا
موجود نہ تھا تو تو کہاں نام و نشاں تھا
میر تقی میر

ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 103
مردِ نسیاں بُرد کا نام و نشاں کیا پوچھئے
ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے
نامقرر راستوں کی سیرِ ممنوعہ کے بعد
کیوں ہنسی کے ساتھ آنسو ہیں رواں، کیا پوچھئے
ہر نئے ظاہر میں پوشیدہ ہے اک ظاہر نیا
ایک حیرت ہے نہاں اندر نہاں کیا پوچھئے
خود کو نامشہور کرنے کے یہی تو ڈھنگ ہیں
آفتاب اقبال کا طرزِ بیاں کیا پوچھئے
کیوں اُسے پرتوں کی پرتیں کھو جنا اچھا لگے
کیوں کئے جاتا ہے کارِ رائیگاں کیا پوچھئے
لیکھ ہی ایسا تھا یا آدرش میں کچھ کھوٹ تھی
زندگی ہم سے رہی کیوں بدگماں کیا پوچھئے
ہم نے سمجھا یا تو تھا لیکن وہ سمجھا ہی نہیں
آج کا یہ سود ہے کل کا زیاں کیا پوچھئے
ہم سبھی جس داستاں کے فالتو کردار ہیں
زندگی ہے ایک ایسی داستاں ، کیا پوچھئے
آفتاب اقبال شمیم

مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
وُہ بے دلی ہے کہ زندہ ہوں جسم و جاں سے پرے
مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
خفاں کہ ایک ستارہ نہ زیرِ دام آیا
کمندِ فکر تو ڈالی تھی کہکشاں سے پرے
سماعتوں پہ جھمکے ہیں عجیب سائے سے
نکلی گیا ہوں میں شاید حدِ بیاں سے پرے
بلا سے سامنے آئے کہ بے نمود رہے
وُہ حادثہ کہ ابھی ہے مرے گماں سے پرے
ابھی سے بننے لگیں وہم کی پناہ گاہیں
ابھی تو حشر کا سورج ہے سائباں سے پرے
کچھ ایسا لطف ملا خود یہ رحم کھانے میں
گیا نہ شوقِ غزل لذت زیاں سے پرے
آفتاب اقبال شمیم

بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 58
کوئی ضرور آئے گا، اُسکو یہاں لئے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے
رہتا ہے دور سے پرے، حدِّشعور سے پرے
حلقۂ بے محیط میں کون و مکاں لئے ہوئے
اتنے قریب و دور سے اُس کے لبوں کو دیکھنا
لذتیں نارسائی کی زیرِ زباں لئے ہوئے
ہاں میں نہیں ، نہیں میں ہاں ، اُسکی ادائے دلبری
لب پہ غزل کی طرز کا رنگِ بیاں لئے ہوئے
زانوئے شاخ پر کوئی سویا ہوا گلاب سا
گود میں اپنے لال کو بیٹھی ہے ماں لئے ہوئے
دے کے صدا گزر گیا، کوئی گدا گزر گیا
کاسہء گردباد میں رزقِ خزاں لئے ہوئے
آفتاب اقبال شمیم

جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فیض احمد فیض

یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 179
بچا کے رکھا ہے جس کو غروبِ جاں کے لیے
یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
چلیں کہیں تو سیہ دل زمانوں میں ہوں گی
فراغتیں بھی اس اک صدقِ رائیگاں کے لیے
لکھے ہیں لوحوں پہ جو مردہ لفظ، ان میں جییں
اس اپنی زیست کے اسرار کے بیاں کے لیے
پکارتی رہی ہنسی، بھٹک گئے ریوڑ
نئے گیاہ، نئے چشمۂ رواں کے لیے
سحر کو نکلا ہوں مینہ میں اکیلا کس کے لیے؟
درخت، ابر، ہوا، بوئے ہمرہاں کے لیے
سوادِ نور سے دیکھیں تو تب سراغ ملے
کہ کس مقام کی ظلمت ہے کس جہاں کے لیے
تو روشنی کے ملیدے میں رزق کی خاطر
میں روشنائی کے گودے میں آب و ناں کے لیے
ترس رہے ہیں سدا خشت خشت لمحوں کے دیس
جو میرے دل میں ہے اس شہرِ بےمکاں کے لیے
یہ نین، جلتی لووں، جیتی نیکیوں والے
گھنے بہشتوں کا سایہ ہیں ارضِ جاں کے لیے
ضمیرِ خاک میں خفتہ ہے میرا دل امجد
کہ نیند مجھ کو ملی خوابِ رفتگاں کے لیے
مجید امجد

جو تم سن لو، تمہاری داستاں ہم

مجید امجد ۔ غزل نمبر 84
قریبِ دل، خروشِ صد جہاں ہم
جو تم سن لو، تمہاری داستاں ہم
کسی کو چاہنے کی چاہ میں گم
جیے بن کر نگاہِ تشنگاں ہم
ہر اک ٹھوکر کی زد میں لاکھ منزل
ہمیں ڈھونڈو، نصیبِ گمرہاں ہم
ہمیں سمجھو، نگاہِ ناز والو!
لبوں پر کانپتا حرفِ بیاں ہم
بجھی شمعوں کی اس نگری میں امجد
اُبھرتے آفتابوں کی کماں ہم
مجید امجد

راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 281
شہر میں گلبدناں، سیم تناں تھے کتنے
راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے
خوُب ہے سلسلۂ شوق، مگر یاد کرو
دوستو! ہم بھی تو شیدائے بتاں تھے کتنے
کچھ نہ سمجھے کہ خموشی مری کیا کہتی ہے
لوگ دلدادۂ الفاظ و بیاں تھے کتنے
تو نے جب آنکھ جھکائی تو یہ محسوس ہوا
دیر سے ہم تری جانب نگراں تھے کتنے
اَب تری گرمئ گفتار سے یاد آتا ہے
ہم نفس! ہم بھی کبھی شعلہ زَباں تھے کتنے
وقت کے ہاتھ میں دیکھا تو کوئی تِیر نہ تھا
رُوح کے جسم پہ زَخموں کے نشاں تھے کتنے
کسی تعبیر نے کھڑکی سے نہ جھانکا، عرفانؔ
شوق کی راہ میں خوابوں کے مکاں تھے کتنے
عرفان صدیقی

نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 387
رات کا شور، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں
نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں
ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے
دوستو آؤ عدالت میں بیاں سنتے ہیں
کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار
یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں
اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ
شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں
ایسے منفی تو لب و دیدہ نہیں ہیں اس کے
کچھ زیادہ ہی مرے وہم و گماں سنتے ہیں
بات کرتی ہے ہوا میری نگہ سے منصور
اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں
منصور آفاق

نظم میں ہم بیاں ہوئے جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 298
خاک پر آسماں ہوئے جائیں
نظم میں ہم بیاں ہوئے جائیں
دل نے خوشبو کشید کرلی ہے
ہم کہاں رائیگاں ہوئے جائیں
تتلیوں کے پروں پہ لکھے ہم
وقت کی داستاں ہوئے جائیں
گفتگو کی گلی میں ہم اپنی
خامشی سے عیاں ہوئے جائیں
مسجدِ دل کی خالی چوکھٹ پر
ہم عشاء کی اذاں ہوئے جائیں
اُس مکیں کی امید پر منصور
ہم سراپا مکاں ہوئے جائیں
منصور آفاق

دیکھتا ہوں ویسی ہی آبِ رواں میں کوئی چیز

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 183
جگمگاتی تھی جو طاقِ آسماں میں کوئی چیز
دیکھتا ہوں ویسی ہی آبِ رواں میں کوئی چیز
رات جیسا ساری دنیا میں نہیں ہے کوئی ظلم
اور دئیے جیسی نہیں سارے جہاں میں کوئی چیز
یہ بھی ہو سکتا ہے ممکن میں کوئی کردار ہوں
یا مرے جیسی کسی ہے داستاں میں کوئی چیز
دیکھنا میری طرف کچھ دن نہیں آنا تجھے
ایسا لگتا ہے کہ ہے میرے مکاں میں کوئی چیز
کوئی بے مفہوم نقطہ، کوئی مصرع کا فریب
ڈھونڈتی ہے رات پھر صبحِ بیاں میں کوئی چیز
لگتا ہے دشتِ جنوں کی آندھیوں کو دیکھ کر
اہل غم نے سونپ دی میری کماں میں کوئی چیز
واہمہ ہے سانحہ کا،خدشہ اِن ہونی کاہے
خوف جیسی ہے مرے وہم وگماں میں کوئی چیز
آیت الکرسی کا کب تک کھینچ رکھوں گا حصار
جانے والا دے گیا میری اماں میں کوئی چیز
نام ہے دیوانِ منصور اس کا، کل کی ڈاک میں
بھیج دی ہے صحبتِ آئندگاں میں کوئی چیز
منصور آفاق

گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 26
ملتے ہی ان کے بھول گئیں کلفتیں تمام
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
رات ان کو بات بات پہ سو سو دئیے جواب
مجھ کو خود اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا
رونا یہ ہے کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں
طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا
تھا کچھ نہ کچھ کہ پھانس ہی اک دل میں چبھ گئی
مانا کہ اس کے ہاتھ میں تیر و سناں نہ تھا
بزم سخن میں جی نہ لگا اپنا زینہار
شب انجمن میں حالیؔ جادو بیاں نہ تھا
الطاف حسین حالی

جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 252
آپ تک ہے نہ غم جہاں تک
جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے
اشک شبنم ہوں یا تبسم گل
ابھی ہر راز گلستاں تک ہے
ان کی پرواز کا ہے شور بہت
گرچہ اپنے ہی آشیاں تک ہے
پھول ہیں اس کے باغ ہے اس کا
دسترس جس کی باغباں تک ہے
پوچھتے ہیں وہ حال دل باقیؔ
یہ بھی گویا مرے بیاں تک ہے
باقی صدیقی

کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 226
دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے
دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش
پھر نہ سیر گلستاں کرنا پڑے
حال دل ان کو بتانے کے لئے
ایک عالم سے بیاں کرنا پڑے
پاس دنیا میں ہے اپنی بھی شکست
اور تجھے بھی بدگماں کرنا پڑے
ہوشیار اے جذب دل اب کیا خبر
تذکرہ کس کا کہاں کرنا پڑے
اب تو ہر اک مہرباں کی بات پر
ذکر دور آسماں کرنا پڑے
زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ
ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے
باقی صدیقی

بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 200
اردوگرد دیواریں اور درمیاں چہرے
بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے
گردش زمانہ کا اک طویل افسانہ
یہ جلی جلی نظریں، یہ دھواں دھواں چہرے
نقش نقش پر برہم، داغ داغ پر خنداں
زندگی کی راہوں میں رہ گئے کہاں چہرے
قہقہوں کے ساغر میں ڈھل سکیں نہ وہ باتیں
موج لب سے پہلے ہی کر گئے بیاں چہرے
موسموں کی تلخی کا کچھ سراغ دیتے ہیں
شاخ جسم نازک پر برگ بے زباں چہرے
اک خیال دنیا کاکر گیا سکوں برہم
اک ہوا کے جھونکے سے ہو گئے عیاں چہرے
رنگ و بو کی تصویریں آئنے بدلتی ہیں
خار کی خلش چہرے، پھول کا گماں چہرے
رک گئے وہاں ہم بھی ایک دو گھڑی باقیؔ
جس جگہ نظر آئے چند مہرباں چہرے
باقی صدیقی

سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 93
دل کے مٹنے لگے نشاں دیکھو
سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو
ہر کلی سے لہو ٹپکنے لگا
شوق تعمیر گلستاں دیکھو
بار صیاد ہے کہ بار ثمر
جھک گئی شاخ آشیاں دیکھو
دل کا انجام ایک قطرہ خوں
حاصل بحر بیکراں دیکھو
سائے کرنوں کے ساتھ چلتے ہیں
صبح میں شام کا سماں دیکھو
داغ آئینہ بن گئے فرسنگ
سفر شوق کے نشاں دیکھو
پڑ گئی سرد آتش احساس
جم گیا خون عاشقاں دیکھو
لو دلوں کی حدیں سمٹنے لگیں
تنگ ہے کس قدر جہاں دیکھو
تم بھی کہنے لگے خدا لگتی
لڑکھڑانے لگی زباں دیکھو
دل کا ہر زخم ہے زباں اپنی
اس پہ یہ حسرت بیاں دیکھو
آگ سے کھیلتے ہو کیوں باقیؔ
اپنا دل دیکھو اپنی جاں دیکھو
باقی صدیقی