ٹیگ کے محفوظات: بہلاتا

کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں

مجبور ہُوں دل کے ہاتھوں سے پھر کوئے بتاں کو جاتا ہُوں
کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں
ہُوں نَو سَفَرِ راہِ الفت، تا راس آجائے خوئے بتاں
اے محوِ تماشا دیکھ ذرا، کس شوق سے ٹھوکر کھاتا ہُوں
محرومیِ منزل قسمت ہے، اتمامِ سَفَر ہو گا نہ کبھی
دو چار قدم پر منزل ہے اور میں ہُوں کہ بیٹھا جاتا ہُوں
اخلاص و محبّت سے عاری اِس حرص و ہَوس کی دنیا میں
اِخلاص و محبّت جُرم مرے، میں خوارِ جہاں کہلاتا ہُوں
کچھ گرمیِ محشر تیز ہُوئی، کچھ داوَرِ محشر چونک اُٹھا
کچھ وہ بھی پریشاں ہیں ضامنؔ، میں داغِ جگر دِکھلاتا ہُوں
ضامن جعفری

میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا

تو جب دوبارہ آیا تھا
میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا
پھر وہی گھر ، وہی شام کا تارا
پھر وہی رات ، وہی سپنا تھا
تجھ کو لمبی تان کے سوتے
میں پہروں تکتا رہتا تھا
ایک انوکھے وہم کا جھونکا
تیری نیند اُڑا دیتا تھا
تیری ایک صدا سنتے ہی
میں گھبرا کر جاگ اٹھتا تھا
جب تک تجھ کو نیند نہ آتی
میں ترے پاس کھڑا رہتا تھا
نئی انوکھی بات سنا کر
میں تیرا جی بہلاتا تھا
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پل گزرا تھا
ایک وہ دن جب بیٹھے بیٹھے
تجھ کو وہم نے گھیر لیا تھا
صبح کی چائے سے پہلے اُس دن
تو نے رختِ سفر باندھا تھا
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
اب نہ وہ گھر نہ وہ شام کا تارا
اب نہ وہ رات نہ وہ سپنا تھا
آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی
کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا
مرجھائے پھولوں کا گجرا
خالی کھونٹی پر لٹکا تھا
پچھلی رات کی تیز ہوا میں
کورا کاغذ بول رہا تھا
ناصر کاظمی

میرا تو سب شہر سے اِک جیسا ناتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
کون نہیں اور کون، کہوں، مجھ کو بھاتا ہے
میرا تو سب شہر سے اِک جیسا ناتا ہے
وقت ہمیں بھی اَب وہ لاڈ دلائے جیسے
نوکر مالک کے بچّے کو بہلاتا ہے
جس کے مُنہ پر جھُوٹ ہے سچّا اُس کو جانو
سچ کہتا ہے جو بھی شخص وُہی جھُوٹا ہے
رُت، جو پھُول لُٹے ہیں شاید پھر لوٹا دے
دل میں باقی ہے تو ایک یہی آشا ہے
ہونٹ ہی حرف و صوت سے کچھ محروم نہیں ہیں
آنکھوں تک میں بھی اِک جیسا سناٹا ہے
کشتی کے پتوار نہ جل ہی سے جل جائیں
ہر راہرو کے ذہن میں ایک یہی چِنتا ہے
کانوں میں پھنکار سی اِک پہنچی ہے، کہیں سے
چڑیوں پر پھر شاید سانپ کہیں جھپٹا ہے
ماجد صدیقی

جھونکے سے جانے کیا اپنا ناتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
کُنجِ قفس تک بھی خوشبو سی لاتا ہے
جھونکے سے جانے کیا اپنا ناتا ہے
پِٹوا کر سہلائے یُوں ہر پنیچ ہمیں
بالغ جیسے بچّے کو بہلاتا ہے
ظالم کے ہتھے جو بھی اِک بار چڑھے
جیون بھرُوہ اُس کے ہی گُن گاتا ہے
پنچھی سوچیں اَب وُہ ایکا کرنے کی
جو ایکا مرگِ انبوہ دکھاتا ہے
سینت کے رکھے صید نہ اپنا زورآور
شیر کے من کو تازہ خون ہی بھاتا ہے
جس کے سر تھا خون کسی کا شخص وُہی
اَب قبروں پر پھول چڑھانے آتا ہے
ماجدؔ بھی کیا سادہ ہے اخلاص پہ جو
رہ رہ کر اِس دَور میں بھی اِتراتا ہے
ماجد صدیقی

کیا جانوں میں روئوں گا کیسا دریا چڑھتا آتا ہے

دیوان پنجم غزل 1743
دل بھی بھرا رہتا ہے میرا جی بھی رندھا کچھ جاتا ہے
کیا جانوں میں روئوں گا کیسا دریا چڑھتا آتا ہے
سچ ہے وہ جو کہا کرتا ہے کون ہے تو کیا سمجھے ہمیں
بیگانے تو ہیں ہی ہم وے ناؤں کا چاہ کا ناتا ہے
تو بلبل آزردہ نہ ہو گل پھول سے باغ بہاراں میں
رنج کش الفت ہے عاشق جی اپنا بہلاتا ہے
عشق و محبت کیا جانوں میں لیکن اتنا جانوں ہوں
اندر ہی سینے میں میرے دل کو کوئی کھاتا ہے
عاشق اپنا جان لیا ہے ان نے شاید میر ہمیں
دیکھ بھری مجلس میں اپنی ہم ہی سے شرماتا ہے
میر تقی میر

خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں

دیوان سوم غزل 1181
ظلم و ستم کیا جور و جفا کیا جو کچھ کہیے اٹھاتا ہوں
خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں
گھر سے اٹھ کر لڑکوں میں بیٹھا بیت پڑھی دو باتیں کیں
کس کس طور سے اپنے دل کو اس بن میں بہلاتا ہوں
ہائے سبک ہونا یہ میرا فرط شوق سے مجلس میں
وہ تو نہیں سنتا دل دے کر میں ہی باتیں بناتا ہوں
قتل میں میرے یہ صحبت ہے غم غصے سے محبت کے
لوہو اپنا پیتا ہوں تلواریں اس کی کھاتا ہوں
آنے کی میری فرصت کتنی دو دم دو پل ایک گھڑی
رنجش کیوں کا ہے کو خشونت غصہ کیا ہے جاتا ہوں
سرماروں ہوں ایدھر اودھر دور تلک جاتا ہوں نکل
پاس نہیں پاتا جو اس کو کیا کیا میں گھبراتا ہوں
پھاڑ کے خط کو گلے میں ڈالا شہر میں سب تشہیر کیا
سامنے ہوں قاصد کے کیونکر اس سے میں شرماتا ہوں
پہلے فریب لطف سے اس کے کچھ نہ ہوا معلوم مجھے
اب جو چاہ نے بدلیں طرحیں کڑھتا ہوں پچھتاتا ہوں
مجرم اس خاطر ہوتا ہوں میں بعضی بعضی شوخی کر
عذر گناہ میں جاکر اس کے پائوں کو ہاتھ لگاتا ہوں
دیکھے ان پلکوں کے اکثر میر ہوں بے خود تنگ آیا
آپ کو پاتا ہوں تو چھری اس وقت نہیں میں پاتا ہوں
میر تقی میر

پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں

دیوان دوم غزل 871
کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں
پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں
داغ ہوں کیونکر نہ میں درویش یارو جب نہ تب
بوریا پوشوں ہی میں وہ شعلہ خو پاتا ہوں میں
ہجر میں اس طفل بازی کوش کے رہتا ہوں جب
جا کے لڑکوں میں ٹک اپنے دل کو بہلاتا ہوں میں
ہوں گرسنہ چشم میں دیدار خوباں کا بہت
دیکھنے پر ان کے تلواریں کھڑا کھاتا ہوں میں
آب سب ہوتا ہوں پاکر آپ کو جیسے حباب
یعنی اس ننگ عدم ہستی سے شرماتا ہوں میں
ایک جاگہ کب ٹھہرنے دے ہے مجھ کو روزگار
کیوں تم اکتاتے ہو اتنا آج کل جاتا ہوں میں
ہے کمال عشق پر بے طاقتی دل کی دلیل
جلوئہ دیدار کی اب تاب کب لاتا ہوں میں
آسماں معلوم ہوتا ہے ورے کچھ آگیا
دور اس سے آہ کیسا کیسا گھبراتا ہوں میں
بس چلے تو راہ اودھر کی نہ جائوں لیک میر
دل مرا رہتا نہیں ہر چند سمجھاتا ہوں میں
میر تقی میر

قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا

دیوان دوم غزل 685
گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا
قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا
پھرا تھا دور اس سے مدتوں میں کوہ و صحرا میں
بلاکر پاس اپنے مجھ کو بٹھلاتا تو کیا ہوتا
ہوئے آخر کو سارے کام ضائع ناشکیبی سے
کوئی دن اور تاب ہجر دل لاتا تو کیا ہوتا
دم بسمل ہمارے زیر لب کچھ کچھ کہا سب نے
جو وہ بے رحم بھی کچھ منھ سے فرماتا تو کیا ہوتا
کہے سے غیر کے وہ توڑ بیٹھا ووہیں یاروں سے
کیے جاتا اگر ٹک چاہ کا ناتا تو کیا ہوتا
کبھو سرگرم بازی ہمدموں سے یاں بھی آجاتا
ہمیں یک چند اگر وہ اور بہلاتا تو کیا ہوتا
گئے لے میر کو کل قتل کرنے اس کے در پر سے
جو وہ بھی گھر سے باہر اپنے ٹک آتا تو کیا ہوتا
میر تقی میر