ٹیگ کے محفوظات: بہتری

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 206
گماں کی اک پریشاں منظری ہے
بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے
اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات
میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے
تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو
کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے
گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے
کوئی لہکے خیابانِ صبا میں
یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے
جون ایلیا

صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی

دیوان چہارم غزل 1500
جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی
صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی
شب سن کے شور میرا کچھ کی نہ بے دماغی
اس کی گلی کے سگ نے کیا آدمی گری کی
کرتے نہیں ہیں دل خوں اس رنگ سے کسو کا
ہم دل شدوں کی ان نے کیا خوب دلبری کی
اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی
اچھی لگی نہ ہم کو خوش صورتی پری کی
ہے اپنی مہرورزی جانکاہ و دل گدازاں
اس رنج میں نہیں ہے امید بہتری کی
رفتار ناز کا ہے پامال ایک عالم
اس خودنما نے کیسی خودرائی خودسری کی
اے کاش اب نہ چھوڑے صیاد قیدیوں کو
جی ہی سے مارتی ہے آزادی بے پری کی
اس رشک مہ سے ہر شب ہے غیر سے لڑائی
بخت سیہ نے بارے ان روزوں یاوری کی
کھٹ پچریاں ہی کی ہیں صراف کے نے ہم سے
پیسے دے بیروئی کی پھر لے گئے کھری کی
گذرے بسان صرصر عالم سے بے تامل
افسوس میر تم نے کیا سیر سرسری کی
میر تقی میر