ٹیگ کے محفوظات: بہانے

تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو

وہ کیسے ختم کریں گے ابھی فسانے کو
تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو
نہ آرزوئے ملامت نہ حسرتِ تعریض
اب اُن کے پاس رَہا کیا ہے آزمانے کو
ترس رہا تھا جبینِ نیاز کو کب سے
وہ دن بھی یاد ہیں کچھ اُن کے آستانے کو
نہ اُن کو دل سے علاقہ نہ درد کی پہچان
کسے چلے ہیں یہ ہم دردِ دل سنانے کو
نہ آہ کوئی ہوئی بارِ خاطرِ نازک
نہ کانوں کان خبر ہونے دی زمانے کو
بہت ہی فکر ہے احباب و اقرباء کی مجھے
کہ کوئی رہ نہ گیا ہو مجھے ستانے کو
نظر تو اُن کی جھکی دل مرا دُکھا ضامنؔ
نہ مل سکا جب اُنہیں اور کچھ بہانے کو
ضامن جعفری

پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ

لیجیے! آگئے! سَتانے لوگ
پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ
کوئی کچھ تَو کہے! میں ٹھیک تَو ہُوں ؟
کیوں کھڑے ہیں مِرے سرہانے لوگ؟
وقت خُود اُن میں زندہ رہتا ہے
خُود میں ہوتے ہیں جو زمانے لوگ
ہو گیا کیا میں اِتنا غیر اَہَم؟
کیوں نہیں آئے دل دُکھانے لوگ؟
میں اصولوں کی جنگ لڑتا رہا
داد دیتے رہے، سیانے لوگ
کاش تم ہوتے گذرے وقتوں میں
تم نے دیکھے نہیں پُرانے لوگ
زخمِ دل بھر رہی ہے تنہائی
پھر نہ لگ جائیں آنے جانے لوگ
ایک سچ بات مُنہ سے نکلی تھی
لگے محفل سے اُٹھ کے جانے لوگ
بات سچ ہے تَو میں کہوں گا ضرور
لَوٹ آؤں گا گر نہ مانے لوگ
مشعلِ جاں سے روشنی کی ہے
جب بھی آئے دِیے بجھانے لوگ
وقت ضائع نہ کیجئے ضامنؔ
جب بنانے لگیں بہانے لوگ
ضامن جعفری

خیال و فکر کو رَستا سُجھانے والا کون

دل و نگاہ کے پَردے ہَٹانے والا کون
خیال و فکر کو رَستا سُجھانے والا کون
یہاں ہر اِک سے ضمیرِ بَشَر یہ سُنتا ہے
تُو میرے پاس دَبے پاوں آنے والا کون
مُجھے شُبہ ہے میں شہرِ مُنافِقیِن میں ہُوں
یہ دَستِ دوستی یک دم بڑھانے والا کون
وہ تُم نہیں ہو، میں یہ بات مان بھی لُوں اگر
تَو اَور شہر میں میرا سَتانے والا کون
مِیاں ! میں جانے سے پہلے ہی خُود کو رو لُوں گا
مِلے گا بعد میں آنسو بَہانے والا کون
خِرَد سے پُوچھیے ضامنؔ کہ دَشتِ وحشَت میں
جنوں سے بڑھ کے ہُوا گُل کِھلانے والا کون
ضامن جعفری

تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہمرہِ بادِ صبا پُھول کِھلانے آتے
تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے
چاند کے قرب سے بے کل ہو سمندر جیسے
ایسی ہلچل مرے دل میں بھی مچانے آتے
جیسے بارش کی جگہ پُھول پہ شبنم کا نزول
تم بھی ایسے میں کسی اور بہانے آتے
رنگِرخسار سے دہکاتے شب و روز مرے
آتشِگل سے مرا باغ جلانے آتے
دینے آتے مجھے تم صبحِبہاراں کی جِلا
اور خوشبو سا رگ و پے میں سمانے آتے
ماجد صدیقی

پھُول مرضی کے کسی کو نہ کھلانے دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
آگ ہونٹوں پہ نہ دل کی کبھی آنے دینا
پھُول مرضی کے کسی کو نہ کھلانے دینا
چکھنے دینا نہ کبھی لمحۂ موجود کا رس
جب بھی دینا ہمیں تم خواب سُہانے دینا
جس کی تعمیر میں کاوش کا مزہ اُس کو مِلے
تُم نہ بالک کو گھروندا وُہ بنانے دینا
روشنی جس کے مکینوں کو بصیرت بخشے
ایسی کٹیا میں دیا تک نہ جلانے دینا
راندۂ خلق ہے، جو پاس تمہارا نہ کرے
درس اب یہ بھی کسی اور بہانے دینا
سنگ ہو جاؤ گے حق بات ہے جس میں ماجدؔ
ایسی آواز نہ تم شہ کے سرہانے دینا
ماجد صدیقی

شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
رُتوں سے نئی مات کھانے لگا
شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا
انا کو پنپتے ہوئے دیکھ کر
زمانہ ہمیں پھر سِدھانے لگا
جو تھا دل میں ملنے سے پہلے ترے
وہی ولولہ پھر ستانے لگا
چھنی ہے کچھ ایسی اندھیروں سے نم
کہ سایہ بھی اب تو جلانے لگا
دیا جھاڑ ہی شاخ سے جب مجھے
مری خاک بھی اب ٹھکانے لگا
وُہ انداز ہی جس کے تتلی سے تھے
تگ و دو سے کب ہاتھ آنے لگا
نہ پُوچھ اب یہ ماجدؔ! کہ منجدھار سے
کنارے پہ میں کس بہانے لگا
ماجد صدیقی

پھر یاد گئے زمانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 157
آنکھوں میں شرر سجانے آئے
پھر یاد گئے زمانے آئے
نخوت ہی بھلے جتانے آئے
آئے وہ کسی بہانے آئے
وہ لکّۂ ابر اِس بدن کی
کب پیاس بھلا بجھُانے آئے
احباب جتا کے عجز اپنا
دل اور مرا دکھانے آئے
تھا چارۂ درد جن کے بس میں
ڈھارس بھی نہ وہ بندھانے آئے
چھُوتے ہی سرِ شجر ثمر کو
ہر شخص ہمیں اُڑانے آئے
بالک سے، تمہارے دل کو ماجدؔ!
ہے کون جو تھپتھپانے آئے
ماجد صدیقی

کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
بہار ہے کہ خزاں، دَور کیا یہ آنے لگا
کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا
جڑیں تو کاٹ ہی دی ہیں بہ قحطِ آب مری
اب ایک ضرب بھی مجھ کو کسی بہانے لگا
لیا ہے نوچ بدن سے جو پیرہن میرا
ہوائے تُند مجھے بھی تو اب ٹھکانے لگا
کُھلا نہیں کہ تھا مقصود اِس سے کیا اُس کا
مجھے دکھا کے کبوتر وہ کیوں اُڑانے لگا
یہ کس ریاض کا فیضان ہے کہ اے ماجدؔ
قلم ترا ہے کرشمے نئے دکھانے لگا
ماجد صدیقی

دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 133
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے، لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
دل کسی حال پہ مانے ہی نہیں جانِ فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
احمد فراز

وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 89
قریہ ءِ جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر و بام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پُوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کُچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی،مرے مالک!خیر
غم کاسیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
پروین شاکر

بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 118
باز آگیا شاید اب فلک ستانے سے
بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے
خاک لے گئی بجلی میرے آشیانے سے
صرف چار چھ تنکے وہ بھی کچھ پرانے سے
کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے
ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے
حالِ باغ اے گلچیں فائدہ چھپانے سے
ہم تو ہاتھ دھو بیٹھے اپنے آشیانے سے
باغ ہو کہ صحرا ہو جی کہیں نہیں لگتا
آپ سے ملے کیا ہم چھٹ گئے زمانے سے
صبح سے یہ وقت آیا وہ ہیں بزمِ دشمن ہے
مٹ گئیں ہیں کیا یا رب گردشیں زمانے سے
یہ سوال پھر کا ہے کب قیامت آئی گی
پہلے بچ تو لے دنیا آپ کے زمانے سے
ان کے حسن پر تہمت رکھ نہ اپنے مرنے کی
وہ تو موت آنے تھی اک نہ اک بہانے سے
آگ لگ کے تنکوں میں کیا بہار آئی ہے
پھول سے برستے ہیں میرے آشیانے سے
جو جفائیں پہلی تھیں وہ جفائیں اب بھی ہیں
انقلاب کیا یا رب اٹھ گئے زمانے سے
مبتلا ہوئے ایسے آسماں کی گردش میں
اے قمر نہ بیٹھے ہم آج تک ٹھکانے سے
قمر جلالوی

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 193
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی
انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
لکد کوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
مرزا اسد اللہ خان غالب

اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے

دیوان پنجم غزل 1757
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے
اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے
دامن پر فانوس کے تھا کچھ یوں ہی نشاں خاکستر کا
شوق کی میں جو نہایت پوچھی جان جلے پروانے سے
ننگے سامنے آتے تھے تو کیا کیا زجر اٹھاتے تھے
ننگ لگا ہے لگنے انھیں اب بات ہماری مانے سے
پاس غیرت تم کو نہیں کچھ دریا پرسن غیر کو تم
گھر سے اٹھ کے چلے جاتے ہو نہانے کے بھی بہانے سے
تم نے کہا مر رہ بھی جاکر بندہ جاکر مر ہی رہا
کس دن میں نے عدول کیا ہے صاحب کے فرمانے سے
سوکھ کے ہوں لکڑی سے کیوں نہ زرد و زبوں ہم عاشق زار
کچھ نہیں رہتا انساں میں ہر لحظہ غم کے کھانے سے
جب دیکھو تب تربت عاشق جھکڑ سے ہے تزلزل میں
عشق ہے باد صرصر کو یاں ان کی خاک اڑانے سے
برسوں میں پہچان ہوئی تھی سو تم صورت بھول گئے
یہ بھی شرارت یاد رہے گی ہم کو نہ جانا جانے سے
سنی سنائی بات سے واں کی کب چیتے ہیں ہم غافل
دونوں کان بھرے ہیں اپنے بے تہ یاں کے فسانے سے
میر کی تیری کیا سلجھے گی حرف و سخن میں گنجلک ہے
کوئی بھی عاقل الجھ پڑے ہے ناصح ایسے دوانے سے
میر تقی میر

دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو

دیوان سوم غزل 1220
گردش میں وے مست آنکھیں ہیں جیسے بھرے پیمانے دو
دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو
خوب نہیں اے شمع کی غیرت ساتھ رہیں بیگانے دو
کب فرمان پہ تیرے ہوئے یہ بازو کے پروانے دو
ایسے بہانہ طلب سے ہم بھی روز گذاری کرتے ہیں
کب وعدے کی شب آئی جو ان نے کیے نہ بہانے دو
تیرستم اس دشمن جاں کا تا دو کماں پر ہو نہ کہیں
دل سے اور جگر سے اپنے ہم نے رکھیں ہیں نشانے دو
کس کو دماغ رہا ہے یاں اب ضدیں اس کی اٹھانے کا
چار پہر جب منت کریے تب وہ باتیں مانے دو
غم کھاویں یا غصہ کھاویں یوں اوقات گذرتی ہے
قسمت میں کیا خستہ دلوں کی یہ ہی لکھے تھے کھانے دو
خال سیاہ و خط سیاہ ایمان و دل کے رہزن تھے
اک مدت میں ہم نے بارے چوٹٹے یہ پہچانے دو
عشق کی صنعت مت پوچھو جوں نیچے بھوئوں کے چشم بتاں
دیکھیں جہاں محرابیں ان نے طرح کیے میخانے دو
رونے سے تو پھوٹیں آنکھیں دل کو غموں نے خراب کیا
دیکھنے قابل اس کے ہوئے ہیں اب تو یہ ویرانے دو
دشت و کوہ میں میر پھرو تم لیکن ایک ادب کے ساتھ
کوہکن و مجنوں بھی تھے اس ناحیے میں دیوانے دو
میر تقی میر

خوبرو کس کی بات مانے ہیں

دیوان دوم غزل 882
کرتے ہیں جوکہ جی میں ٹھانے ہیں
خوبرو کس کی بات مانے ہیں
میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں
پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں
جا ہمیں اس گلی میں گر رہنا
ضعف و بے طاقتی بہانے ہیں
پوچھ اہل طرب سے شوق اپنا
وے ہی جانیں جو خاک چھانے ہیں
اب تو افسردگی ہی ہے ہر آن
وے نہ ہم ہیں نہ وے زمانے ہیں
قیس و فرہاد کے وہ عشق کے شور
اب مرے عہد میں فسانے ہیں
دل پریشاں ہوں میں تو خوش وے لوگ
عشق میں جن کے جی ٹھکانے ہیں
مشک و سنبل کہاں وہ زلف کہاں
شاعروں کے یہ شاخسانے ہیں
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں
میر تقی میر

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

دیوان اول غزل 597
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے
پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور
پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے
مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت
اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے
ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری
شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے
ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے
لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت
رہتے ہیں ترے تیرستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھائوں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے
پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے
خاک اس کی سرراہ کی کوئی کب تئیں چھانے
کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے
آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے
مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے
کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے
آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار
ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے
میر تقی میر

ہائے رے ذوق دل لگانے کے

دیوان اول غزل 596
نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغئیر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے
چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمھارے آنے کے
کب تو سوتا تھا گھر مرے آکر
جاگے طالع غریب خانے کے
مژہ ابرو نگہ سے اس کی میر
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے
تیر و تلوار و سیل یک جا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے
میر تقی میر

ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا

دیوان اول غزل 94
فلک کا منھ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
ستم شریک ترا ناز ہے زمانے کا
ہمارے ضعف کی حالت سے دل قوی رکھیو
کہیں خیال نہیں یاں بحال آنے کا
تری ہی راہ میں مارے گئے سبھی آخر
سفر تو ہم کو ہے درپیش جی سے جانے کا
بسان شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تو نشان پانے کا
چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا
ٹک آ تو تا سر بالیں نہ کر تعلل کیا
تجھے بھی شوخ یہی وقت ہے بہانے کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ
یہ میر اب جو گدا ہے شراب خانے کا
میر تقی میر

دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 19
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے”
فیض احمد فیض

اے زمیں ! ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 271
روشنی کے، رنگ و بو کے آستانے سینکڑوں
اے زمیں ! ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں
اک ترے بالوں کی وہ دو چار میٹر لمبی لٹ
اک ترے شاداب جوبن کے فسانے سینکڑوں
صبح تازہ دودھ جیسی رات قہوے کی طرح
روٹی جیسے چاند پر گزرے زمانے سینکڑوں
چھین کے گل کر دیے بامِ خیال و خواب سے
تیری یادوں کے دیے پاگل ہوا نے سینکڑوں
صرف تیرے قرب کا پل دسترس سے دور ہے
زندگی میں آئے ہیں لمحے سہانے سینکڑوں
منصور آفاق

لوگ اپنے دئیے جلانے لگے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 231
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے کا
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی