ٹیگ کے محفوظات: بہاروں

مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں

سرو و سمن کی شوخ قطاروں کے سائے میں
مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں
چھوٹی سی اک خلوص کی دنیا بسائیں گے
آبادیوں سے دور چناروں کے سائے میں
تاریکیوں میں اور سیاہی نہ گھولیے
زلفیں بکھیریے نہ ستاروں کے سائے میں
جانے بھنور سے کھیلنے والے کہاں گئے
کشتی تو آ گئی ہے کناروں کے سائے میں
مانوس ہو گئی ہے خزاں سے مری بہار
اب لُطف کیا ملے گا بہاروں کے سائے میں
بلبل کی زندگی تو بہر حال کٹ گئی
پھولوں کی گود میں ، کبھی خاروں کے سائے میں
انگڑائی لی جنوں نے، خرد سو گئی، شکیبؔ
نغمات کی لطیف پھواروں کے سائے میں
شکیب جلالی

خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے

وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
جو لُطفِ شورشِ طوفاں تمھیں اٹھانا ہے
دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے
نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو
بجھے بجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے
نظر اٹھا کے جنوں دیکھ لے اگر اک بار
تجلیات کے دھاروں میں آگ لگ جائے
بہارساز ہے میری نظر کی ہر جُنبش
مری بلا سے بہاروں میں آگ لگ جائے
کسی کے عزمِ مکمل کی آبرو رہ جائے
اگر تمام سہاروں میں آگ لگ جائے
گلُوں کے رُخ سے شرارے ٹپک رہے ہیں ، شکیبؔ
عجب نہیں جو بہاروں میں آگ لگ جائے
شکیب جلالی

جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو

خردفریبِ نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوصِ دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو
گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انھی شریر ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ذکرِ حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سُکوں بدوش کناروں کی کوئی بات کرو
نہیں ہے حدِّ نظر تک، وجود ساحل کا
فضا مُہیب ہے، دھاروں کی کوئی بات کرو
سلامِ شوق لیے تھے کسی نے، جن سے، شکیبؔ
انھی لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو
شکیب جلالی

خزاں سے چھیِن کے لے آئیں گے بَہاروں کو

نَظَر اُٹھا کے وہ دیکھیں تَو جاں نِثاروں کو
خزاں سے چھیِن کے لے آئیں گے بَہاروں کو
بَلائیں ڈھُونڈتی پھِرتی ہیں بے سَہاروں کو
سُکونِ قَلب کہاں زِندَگی کے ماروں کو
بھَلا مَجال ہے اِک اَشکِ غَم بھی جھانک تَو لے
سَلام، چَشمِ نَم! اِن تیرے آبشاروں کو
خِزاں نے اہلِ چمن کو یہ دی ہے آزادی
بَسالیں چَشمِ تَصَوُّر میں بَس بَہارَوں کو
ہَمارے قَتل پہ جَب بھی اُداس ہَوں قاتل
نَویدِ جَشنِ طَرَب دینا، سوگواروں کو
سَفینہ ڈُوب چکا، جَشن کی ہو تیّاری
یہ ناخُدا کا نَیا حُکم ہے کناروں کو
نِگار خانۂ دِل خَستہ حال ہے، ضامنؔ
بہت سَنبھال کے رَکّھا ہے یادگاروں کو
ضامن جعفری

آئنہ جیسے ریگ زاروں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں
حُسن سارا وُہ اِک تجھی میں ہے
ڈھونڈتا ہُوں جسے ہزاروں میں
جب سے مہکا ہے تن بدن تیرا
کھلبلی سی ہے اِک بہاروں میں
عالمِ خواب ہے کہ قُرب تِرا
گھر گیا ہوں عجب شراروں میں
پھُوٹتی ہے جو کنجِ لب سے ترے
آگ ایسی کہاں چناروں میں
روز تفسیرِ لطفِ جاں دیکھوں
تیرے مبہم سے اِن اشاروں میں
لہلہاتا ہے مثلِ گلُ تُو ہی
فکرِ ماجدؔ کے کشت زاروں میں
ماجد صدیقی

باہر نکل کے سینہ فگاروں کا ساتھ دو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 66
مظلوم حسرتوں کے سہاروں کا ساتھ دو
باہر نکل کے سینہ فگاروں کا ساتھ دو
اک معرکہ بہار و خزاں میں ہے ان دنوں
سب کچھ نثار کر کے بہاروں کا ساتھ دو
تم کو حریمِ دیدہ و دل ہے اگر عزیز
شہروں کے ساتھ آؤ، دیاروں کا ساتھ دو
آبادیوں سے عرض ہے، شہروں سے التماس
اس وقت اپنے کارگزاروں کا ساتھ دو
زخموں سے جن کے پھوٹ رہی ہے شعاعِ رنگ
ان حسن پروروں کی قطاروں کا ساتھ دو
روشن گروں نے خوں سے جلائی ہیں مشعلیں
ان مشعلوں کے سرخ اشاروں کا ساتھ دو
بیدار رہ کے آخرِ شب کے حصار میں
خورشید کے جریدہ نگاروں کا ساتھ دو
یاروں کا اک ہجوم چلا ہے کفن بدوش
ہے آج روزِ واقعہ، یاروں کا ساتھ دو
جون ایلیا

ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 484
خموشی سے گلہ تھا اور قراروں سے شکایت تھی
ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی
کہاں بادِ خزاں کی بادشاہی جانے والی ہے
یونہی گلزاروں کو آتی بہاروں سے شکایت تھی
لہو برسا دیا ہے مسجدِ اقصیٰ کے سجدوں پر
جنہیں آزاد جیون کی پکاروں سے شکایت تھی
کوئی قاتل بلایاہے شبِ غم کے مغنی نے
اسے تیور سروں کی بجتی تاروں سے شکایت تھی
ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت ہے
ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت تھی
ابھی تک اشہبِ دوراں کی خالی پیٹھ ہے منصور
گذشتہ کو بھی مشرق کے سواروں سے شکایت تھی
منصور آفاق

قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 367
ہم چوک چوک سرخ اشاروں میں قید ہیں
قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں
جنگل میں لومڑی کی شہنشاہی ان دنوں
بیچارے شیر اپنے کچھاروں میں قید ہیں
یہ سبز میز پوش پہ بکھرے ہوئے خیال
دراصل چند فرضی بہاروں میں قید ہیں
بے حد و بے کراں کا تصور بجا مگر
سارے سمندر اپنے کناروں میں قید ہیں
منصور زر پرست ہیں فالج زدہ سے جسم
یہ لوگ زرق برق سی کاروں میں قید ہیں
منصور آفاق

امید اپنے سہاروں کو ساتھ لائے گی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 170
تری نظر کے اشاروں کو ساتھ لائے گی
امید اپنے سہاروں کو ساتھ لائے گی
وہی نظر مرے رستے میں بن گئی دیوار
گماں تھا جس پہ نظاروں کو ساتھ لائے گی
تری نظر ہی کا اب انتظار لازم ہے
تری نظر ہی بہاروں کو ساتھ لائے گی
بہت نحیف سہی موج زندگی پھر بھی
مچل گئی تو کناروں کو ساتھ لائے گی
تو آنے والے زمانے کا غم نہ کر باقیؔ
کہ رات اپنے ستاروں کو ساتھ لائے گی
باقی صدیقی

میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 50
ترے جہاں کے نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا
کچھ اس قدر تھا نمایاں خزاں میں رنگ حیات
میں تشنہ کام بہاروں کا ساتھ دے نہ سکا
کہاں تمہاری تمنا، کہاں سحر کی نمود
مریض ہجر ستاروں کا ساتھ دے نہ سکا
نظر نہ تھی تو نظاروں کی آرزو تھی، مگر
نظر ملی تو نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
گلوں کا رنگ تبسم بھی تھا گراں باقیؔ
یہی نہیں کہ میں خاروں کا ساتھ دے نہ سکا
باقی صدیقی