ٹیگ کے محفوظات: بہائے

یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے

شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
اک طرف خونِ دل بھی تھا نایاب
اک طرف جشنِ جم منائے گئے
کیا کہوں کس طرح سرِبازار
عصمتوں کے دیے بجھائے گئے
آہ وہ خلوتوں کے سرمائے
مجمعِ عام میں لٹائے گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصرؔ
خار و خس کی طرح بہائے گئے
ناصر کاظمی

پھول چاہت کے کچھ ایسے بھی کھلائے جائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
وہ کہ اُجڑے ہوئے جُوڑوں میں سجائے جائیں
پھول چاہت کے کچھ ایسے بھی کھلائے جائیں
سیل کیا کیا نہ اُٹھائیں یہ کروڑوں آنکھیں
خشکیِ بخت پہ گر اشک بہائے جائیں
خشت سے چوب تلک قرض کی ہر چیز لئے
بیچ کٹیاؤں کے کچھ قصر اٹھائے جائیں
محض تائید ہی ہم نام نہ اِن کے لکھ دیں
احتجاجاً بھی کبھی ہاتھ اُٹھائے جائیں
ماجد صدیقی

پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 57
خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع
اس تیرہ روزگار میں مجھ سا جگر گداز
مشعل جلا کے ڈھونڈے اگر تو نہ پائے شمع
پروانے کیا خجل ہوئے دیکھا جو صبح کو
تھا شب کو اس کی بزم میں خورشید جائے شمع
اُس رشکِ شمع و گُل کی ہے کچھ آب و تاب اور
دیکھے ہیں جلوہ ہائے گل و شعلہ ہائے شمع
دیتی ہے اور گرمئ پروانہ داغِ اشک
شب ہائے ہجر میں کوئی کیونکر جلائے شمع
کیا حاجت آفتاب کے گھر میں چراغ کی
ہے حکم شب کو بزم میں کوئی نہ لائے شمع
اُس لعلِ بے بہا سے کہاں تابِ ہمسری
روشن ہے سب پہ قیمتِ گُل اور بہائے شمع
خورشید جس کے جلوہ سے ہو شمعِ صبح دم
کیا ٹھہرے اس کے سامنے نور و ضیائے شمع
اس تیرہ شب میں جائیں گے کیونکر عدو کے گھر
میرا رقیب وہ ہے جو ان کو دکھائے شمع
آتے ہیں وہ جو گور پہ میری تو بہرِ زیب
کوئی نہ پھول لائے نہ کوئی منگائے شمع
گُل پر لگا کے آپ سے پہنچیں گے بے طلب
آئے گی اپنے پاؤں سے یاں بن بلائے شمع
ڈر ہے اُٹھا نہ دے کہیں وہ بزمِ عیش سے
کیا تاب ہے کہ شیفتہ آنسو بہائے شمع
مصطفٰی خان شیفتہ

یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا

دیوان سوم غزل 1062
وہ دل نہیں رہا ہے تعب جو اٹھائے گا
یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا
اب یہ نظر پڑے ہے کہ برگشتہ وہ مژہ
کاوش کرے گی ٹک بھی تو سنبھلا نہ جائے گا
کھینچا جو میں وہ ساعد سیمیں تو کہہ اٹھا
بس بس کہیں ہمیں ابھی صاحب غش آئے گا
ریجھے تو اس کے طور پہ مجلس میں شیخ جی
پھر بھی ملا تو خوب سا ان کو رجھائے گا
جلوے سے اس کے جل کے ہوئے خاک سنگ و خشت
بیتاب دل بہت ہے یہ کیا تاب لائے گا
ہم رہ چکے جو ایسے ہی غم میں کھپا کیے
معلوم جی کی چال سے ہوتا ہے جائے گا
اڑ کر لگے ہے پائوں میں زلف اس کی پیچ دار
بازی نہیں یہ سانپ جو کوئی کھلائے گا
اڑتی رہے گی خاک جنوں کرتی دشت دشت
کچھ دست اگر یہ بے سر و ساماں بھی پائے گا
درپے ہے اب وہ سادہ قراول پسر بہت
دیکھیں تو میر کے تئیں کوئی بچائے گا
میر تقی میر

پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 17
کوئی تہمت لگا کر وہ تمہیں مجرم بنائے گا
پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
میاں ، اس اشتہاروں کی دکاں میں جو نہیں وہ ہے
یہ آنکھیں ہار جائیں گی، تماشا جیت جائے گا
برابر ہی چھڑا دے گی بالآخر مصلحت ہم کو
میں تجھ کو آزماؤں گا تو مجھ کو آزمائے گا
مگر رکھنی ہے اپنے حوصلے کی آبرو تو نے
مجھے معلوم ہے تو زخم کھا کر مسکرائے گا
زرِ گم نام کو پھر ڈھونڈھ کر آثارِ فردا میں
زمانہ دیر تک میرے لئے آنسو بہائے گا
آفتاب اقبال شمیم