ٹیگ کے محفوظات: بھی

خود سے ہی اپنی ہم سری کب تک

اتنا احساسِ کمتری کب تک
خود سے ہی اپنی ہم سری کب تک
چپ خزاؤں میں ٹوٹے پتوں کی
مرتی آواز گونجتی کب تک
بے رخی کا نہیں ہے کوئی گلہ
پر یہ نظروں کی یک رخی کب تک
درد کا پل ہے یا ہے ایک صدی
اور گزرے گی یہ صدی کب تک
کوئی دریا تو آئے رستے میں
بہتی جائے گی یہ ندی کب تک
اب تو چند ایک سانس باقی ہیں
اور وہ چند ایک بھی کب تک
مدرسے میں سخن کے سب استاد
ایک یاؔور ہی مبتدی!! کب تک؟
یاور ماجد

ان سروں کی، دھیمے دھیمے خامہ فرسائی کرو

یہ صریرِ خامہ تو ہر ساز سے ہے ماورا
ان سروں کی، دھیمے دھیمے خامہ فرسائی کرو
شوق تھا آئینہ بننے کا اگر یاؔور تو پھر
سامنا۔۔ہر وقت اب بدصورتوں کا بھی کرو
یاور ماجد

مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی

سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
(۱ سے ۵ اشعار’روشنی اے روشنی، میں
شامل ہیں یہاں مکمل غزل قارئین کی نذر ہے)
شکیب جلالی

آرزو میں بھی سادگی نہ رہی

حُسن میں جب سے بے رُخی نہ رہی
آرزو میں بھی سادگی نہ رہی
ان کا غم جب سے راس آیا ہے
دل کی کوئی خوشی، خوشی نہ رہی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دلکشی نہ رہی
آپ سے ایک بات کہنی ہے
لیجیے مجھ کو یاد بھی نہ رہی
کہہ رہی ہے بہ چشمِ تر شبنم
مُسکرا کر کَلی، کَلی نہ رہی
جب کبھی وہ، شکیبؔ، یاد آئے
چاند تاروں میں روشنی نہ رہی
شکیب جلالی

مہکی ہوئی وہ چا درِ گُل بار کیا ہوئی!

شاخو! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چا درِ گُل بار کیا ہوئی!
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتّھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گُلِ تر جھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وُسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر سجائی گئی شاخِ دار بھی
شکیب جلالی

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں

گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں
جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں
تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں
کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں
جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں
اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں
بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں
اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں
میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں
نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ زندگی تو ہے مگر مرے مزاج کی نہیں
ترا سلوک مجھ کو یہ بتا رہا ہے آج کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں
کوئی تو شعر ہو وفور و کیفیت میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں
تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں
قبائے رنگ سے اُدھر بلا کا اک طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں
تمام زاویوں سے بات کر چکا، تو پھر کھُلا
یہ عشق وارداتِ قلب ہے جو گفتنی نہیں
کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ التفات جھیلنے کی تاب ہی نہیں
ہجومِ بد کلام جا رہا ہے دوسری طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں
مری غزل پہ داد دے رہے ہو، تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں
مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں
سنو بغور یہ غزل، کہ پھر بہت سکوت ہے
اگرچہ لگ رہا ہے یہ غزل بھی آخری نہیں
عرفان ستار

‎موت جہاں بھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو

‎خون کی پیاسی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎موت جہاں بھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎جہل کی اس کالی آندھی کو روکو مت
‎اچھی خاصی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎عقل سے خطرہ تھا وہ ساکت بیٹھی ہے
‎بھیڑ جنوں کی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎اس کے لیے کیا وقتِ عصر قضا کردیں؟
‎ظلم کی دیوی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎ہم پر "مشعل” گُل کرنا ہی واجب تھا
‎رات اندھیری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎تم ہو قوم کے رہبر، چوکیدار نہیں
‎دہشت گردی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎عورت کا پردے میں رہنا لازم ہے
‎وحشت ننگی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎وجدآور ہے تال بہت جلادی کی
‎ملت ساری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎عزت داروں کو کیا ایسی لعنت سے
‎کاروکاری ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎آدھی قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا
‎باقی آدھی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
‎تم آباد ہو، چین سے شعر کہو عرفان
‎جو بربادی ناچ رہی ہے، ناچنے دو
عرفان ستار

محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے

حضور اِس میں خَطا میری نہیں ہے
محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے
طبیعت اب کہیِں لگتی نہیں ہے
کوئی محفل وہ محفل ہی نہیں ہے
بُرا مَت ماننا باتوں کا میری
کوئی اِن میں لگی لپٹی نہیں ہے
گذارا کر رہا ہُوں اِس سے لیکن
زمانے سے مری بَنتی نہیں ہے
مجھے بھاتا نہیں آئینہ بالکل
مروّت تو ذرا سی بھی نہیں ہے
میں دِل کی بات کہہ دُوں اُن سے ضامنؔ
مگر وہ بات کہنے کی نہیں ہے
ضامن جعفری

میری زِندگی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زِندگی ہے تو
آفتوں کے دَور میں
چَین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصر اِس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی

اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی

سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی
کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی
مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی
میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے گی کبھی
میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جائے گا تو بھی
ایسی جلدی بھی کیا، چلے جانا
مجھے اِک بات پوچھنی ہے ابھی
آ بھی جا میرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی
ناصر کاظمی

چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں تھی پلٹ آئی
تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی پلٹ آئی
خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی
کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اِتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی
ناصر کاظمی

باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں

کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری
ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں
تو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد
مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں
جونہی تعلقات کسی سے ہوئے خراب
سارے جہاں کی اُس میں ملیں گی خرابیاں
سرکار کا ہے اپنا ہی معیارِ انتخاب
یارو کہاں کی خوبیاں کیسی خرابیاں
آدم خطا کا پُتلا ہے گر مان لیں یہ بات
نکلیں گی اِس خرابی سے کتنی خرابیاں
اُن ہستیوں کی راہ پہ دیکھیں گے چل کے ہم
جن میں نہ تھیں کسی بھی طرح کی خرابیاں
بوئیں گے اپنے باغ میں سب خوبیوں کے بیج
جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ساری خرابیاں
باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اُس میں ہیں
کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں
باصر کاظمی

بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی

زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی
بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی
یوں بے حال نہ ہو اے دل بس آتے ہی ہوں گے وہ
کل بھی دیر لگی تھی اُن کو آج بھی دیر لگے گی
سیکھ لیا ہے میں نے اپنے آپ سے باتیں کرنا
فکر نہیں اُن کو آنے میں کتنی دیر لگے گی
صاحب آج تو اپنا کام کرا کے جائیں گے ہم
ساری شرطیں پوری ہیں پھر کیسی دیر لگے گی
کون رکے اب اُس کے در پر شام ہوئی گھر جائیں
اتنا ضروری کام نہیں ہے جتنی دیر لگے گی
اِتنی دیر میں کچھ کے کچھ ہو جائیں گے حالات
خط لکھنے سے خط ملنے تک جتنی دیر لگے گی
مارگزیدہ کون بچا ہے باصرِؔ شکر کرو تم
ٹھیک بھی ہو جاؤ گے لیکن خاصی دیر لگے گی
باصر کاظمی

ہاں مگر حیراں نہ ہو اے دل یہی ہے زندگی

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گئی ہے زندگی
ہاں مگر حیراں نہ ہو اے دل یہی ہے زندگی
اپنا اپنا تجربہ ہے اپنی اپنی سوچ ہے
زندگی بھی موت ہے اور موت بھی ہے زندگی
تو عبث بیزار ہے یک رنگیِ ایام سے
دیکھ آنکھیں کھول کے ہر دم نئی ہے زندگی
کہہ رہا تھا کتنی حسرت سے کوئی کیا فائدہ
اب کہ آنکھیں بند ہوتی ہیں کھلی ہے زندگی
کام جتنے ہیں ترے ذمے سبھی ہو جائیں گے
اِتنی جلدی کیا پڑی باصرِؔ ابھی ہے زندگی
باصر کاظمی

پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے
پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے
روشنی کے سفیروں نے کیا کیا نہ گُر آزمائے مگر
سینہ سینہ بسائے ہوئے گمرہی لوگ سوئے ملے
زمزمے چہچہے کوئی تریاق ان کے نہ کام آ سکا
سم کچھ ایسی تھی سانسوں میں اِن کے گھلی لوگ سوئے ملے
صبح، پرچم لپیٹے ہوا ہو گئی اپنے سندیس کا
پھول نے جو کہی رہ گئی ان کہی لوگ سوئے ملے
بادباں کھول کر کشتیوں کے، ہوا کو انہیں سونپ کر
اور تو اور آغوشِ دریا میں بھی لوگ سوئے ملے
جانے حلقۂ بگوشی میں تھا کیا شرف، جو انہیں بھا گیا
جاگتا تھا فقط جذبۂ بندگی لوگ سوئے ملے
کتنے تھوڑے صلے سے بہلنے لگیں ان کی نادانیاں
رسم ماجدؔ یہ کیا اکتفا کی چلی لوگ سوئے ملے
ماجد صدیقی

کل کے اوراق میں لیجیے ہم نے بھی، فیصلہ لکھ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
دھونس، دھن، دھاندلی کا جو ٹھہرا، وُہی فیصلہ لکھ دیا
کل کے اوراق میں لیجیے ہم نے بھی، فیصلہ لکھ دیا
قصر محفوظ تھے، بے اماں جھونپڑے، راکھ کیونکر ہوئے
حق میں غفلت کے، تھی جو شہِ وقت کی، فیصلہ لکھ دیا
تھا اندھیروں پہ قابو نہ اپنا کبھی، پھر بھی اِتنا کیا
حبسِ بے جا میں دیکھی جہاں روشنی، فیصلہ لکھ دیا
جور کے جبر کے، جس قدر سلسلے تھے، وہ بڑھتے گئے
آنے پائی نہ جب، اُن میں کچھ بھی کمی، فیصلہ لکھ دیا
ہاتھ فریاد کے، اُٹھنے پائے نہ تھے اور لب سِل گئے
دیکھ کر ہم نے ماجدؔ، یہی بے بسی، فیصلہ لکھ دیا
ماجد صدیقی

کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 29
وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محروم التفات رہے
ترے کرم کو بہ انداز سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری، چراغ بھی نہ لیا
احمد فراز

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 60
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 87
بارش میں عہد توڑ کے گر مئے کشی ہوئی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی
پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی
اچھا تو دونوں وقت ملے کو سئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی
اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی
دیکھو چراغِ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شامِ ہجر مجھے پوچھتی ہوئی
قاصد انھیں کو جا کہ دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے، ان سے کوئی بات بھی ہوئی
جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردشِ دوراں رکی ہوئی
مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمر
کیسے وہ آسکیں گے اگر چاندنی ہوئی
قمر جلالوی

جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 167
اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے
اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے
اب کیا کہوں کے سارا محلہ ہے شرم سار
میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھی گئے
ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
تھا رن بھی زندگی کا عجب طرفہ معاملہ
یعنی اٹھے تو پاؤں مگر جون سر گئے
جون ایلیا

ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 156
وہ کہکشاں وہ رہِ رقصِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جزیں قدر کے وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنّع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی
قلمروِ غمِ جاناں ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاوں میں زندگی نہ رہی
نکال ڈالیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجیے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
جہاں فروز تھا یادش بخیر اپنا جنوں
پھر اُس کے بعد کسی شے میں دل کشی نہ رہی
دکھائیں کیا تمہیں داغوں کی لالہ انگیزی
گزر گئیں وہ بہاریں، وہ فصل ہی نہ رہی
وہ ڈھونڈتے ہیں سر جادہ امید کسے
وہاں تو قافلے والوں کی گرد بھی نہ رہی
جون ایلیا

اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 147
دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی
یار! دل تو بلا کا تھا عیاش
اس نے کس طرح خود کشی کر لی
نہیں آئیں گے اپنے بس میں ہم
ہم نے کوشش رہی سہی کر لی
اب تو مجھ کو پسند آ جاؤ
میں نے خود میں بہت کمی کر لی
یہ جو حالت ہے اپنی، حالتِ زار
ہم نے خود اپنے آپ ہی کر لی
اب کریں کس کی بات ہم آخر
ہم نے تو اپنی بات بھی کر لی
قافلہ کب چلے گا خوابوں کا
ہم نے اک اور نیند بھی کر لی
اس کو یکسر بھلا دیا پھر سے
ایک بات اور کی ہوئی کر لی
آج بھی رات بھر کی بےخوابی
دلِ بیدار نے گھری کر لی
کیا خدا اس سے دل لگی کرتا
ہم نے تو اس سے بات بھی کر لی
جون ایلیا

شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 144
حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جانِ جاں ، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تیری یہاں ، پھر تیری یاد بھی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے ، عمر گزار دی گئی
اس کے وصال کے لئے ، اپنے کمال کے لئے
حالتِ دل، کہ تھی خراب،اور خراب کی گئی
تیرا فراق جانِ جاں ، عیش تھا کیا میرے لئے
یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
جون ایلیا

رہے آخر تری کمی کب تک

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 81
میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک
میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک
خیمہ گاہِ شمال میں۔۔۔آخر
اس کی خوشبو رچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جس کی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک
نہیں معلوم میرے آنے پر
اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک
جون ایلیا

شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 68
شکل بھی اک رنگ کی ہو، رنگ کی شب، ہم نفسو
شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو
جب وہ دل و جانِ ادا ہو گا یہاں نشہ فزا
میری ادائیں بھی ذرا دیکھیو تب، ہم نفسو
تم سے ہو وہ عذر کناں، مجھ سے ہو وہ شکوہ کناں
اور میں خود مست رہوں، بات ہے جب، ہم نفسو
شعلہ بسی سے ہے سخن، معنیِ بالائے سخن
اور سخن سوز بھی ہے شعلہ لب، ہم نفسو
آج ہے سوچو تو ذرا، کس کی یہاں منتظری
رقصِ طرف ہم نفسو، شورِ طرف ہم نفسو
اس کی مری دید کا اک طور کہو، کچھ بھی کہو
کیا کہوں میں، کیسے کہوں، ہے وہ عجب، ہم نفسو
نیم شبی کی ہے فضا، ہم بھی ابھی ہوش میں ہیں
اس کو جو آنا ہے تو پھر آئے بھی، ہم نفسو
اپنے سے ہر پل ہیں پرے، ہم ہیں کہاں اپنے در پے
کیسی تمنا نفسی، کس کی طلب ہم نفسو
جون ایلیا

تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 41
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑ ے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو ، تو سوچتی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا؟
میرے سب طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا؟
دل میں اب سوزِ انتظار نہیں
شمعِ امید بجھ گئی ہو کیا؟
اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان، تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا
جون ایلیا

اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 285
تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے
رہا آباد عالم اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 202
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق گلچینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی
مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی
نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی نہ سہی
ایک ہنگامے پہ@ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی؟ نہ سہی
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالب اگر عمرِ طبیعی نہ سہی
@ نسخۂ مہر میں "پر”
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 74
دہر میں نقشِ وفا وجہِتسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا
کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا
وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے
مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت

دیوان سوم غزل 1118
کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے
سعی کی اے شیخ ہم نے بھی بہت
سب ترے محو دعاے جان ہیں
آرزو اپنی بھی ہے تو جی بہت
رک رہا ہے دیر سے تڑپا نہیں
عشق نے کیوں دل کو مہلت دی بہت
کیوں نہ ہوں دوری میں ہم نزدیک مرگ
دل کو اس کے ساتھ الفت تھی بہت
وہ نہ چاہے جب تئیں ہوتا ہے کیا
جہد کی ملنے میں اپنی سی بہت
کب سنا حرف شگون وصل یار
یوں تو فال گوش ہم نے لی بہت
تھا قوی آخر ملے ہم خاک میں
آسماں سے یوں رہی کشتی بہت
آج درہم کرتے تھے کچھ گفتگو
میر نے شاید کہ دارو پی بہت
میر تقی میر

یار کے تیر جان لے جا بھی

دیوان اول غزل 457
چھن گیا سینہ بھی کلیجا بھی
یار کے تیر جان لے جا بھی
کیوں تری موت آئی ہے گی عزیز
سامنے سے مرے ارے جا بھی
حال کہہ چپ رہا جو میں بولا
کس کا قصہ تھا ہاں کہے جا بھی
میں کہا میر جاں بلب ہے شوخ
تونے کوئی خبر کو بھیجا بھی
کہنے لاگا نہ واہی بک اتنا
کیوں ہوا ہے سڑی ابے جا بھی
میر تقی میر

تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 630
رات کی جھیل سے علت کوئی لگ سکتی ہے
تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے
میں کوئی میز پہ رکھی ہوئی تصویر نہیں
دیکھئے بات مجھے بھی بری لگ سکتی ہے
ایک ہی رات پہ منسوخ نہیں ہو سکتا
یہ تعلق ہے یہاں عمر بھی لگ سکتی ہے
انگلیاں پھیر کے بالوں میں دکھائیں جس نے
اس سے لگتا ہے مری دوستی لگ سکتی ہے
آپ کی سانس میں آباد ہوں سانسیں میری
یہ دعا صرف مجھے آپ کی لگ سکتی ہے
یہ خبرمیرے مسیحا نے سنائی ہے مجھے
شہرِ جاناں میں تری نوکری لگ سکتی ہے
یہ کوئی گزری ہوئی رت کی دراڑیں سی ہیں
اس جگہ پر کوئی تصویر سی لگ سکتی ہے
پارک میں چشمِ بلاخیز بہت پھرتی ہیں
تجھ کو گولی کوئی بھٹکی ہوئی لگ سکتی ہے
ہے یہی کار محبت۔۔۔۔ سو لگا دے منصور
داؤ پہ تیری اگر زندگی لگ سکتی ہے
منصور آفاق

کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 485
کھڑکیوں کے شیشوں سے دیکھتی سڑک پر تھی
کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی
قمقموں کی آنکھیں تھیں جھلملاتی کاروں میں
قہقہے تھے پیڑوں پر اک ہنسی سڑک پر تھی
سائرن بجاتی تھیں گاڑیاں قطاروں میں
فائروں کی گونجیں تھیں سنسنی سڑک پر تھی
آتے جاتے لوگوں پر موسمِ بہارا ں تھا
منتظر پرندوں کی ،ٹاہلی سڑک پر تھی
روڈ پر سپاہی بھی پھینکتے تھے آنسو گیس
احتجاجی ریلی بھی ناچتی سڑک پر تھی
سرخ سے اشارے پر چیختے سلنسر تھے
اور دھواں کے پہلو میں دھول بھی سڑک پر تھی
ہیرہ منڈی جانا تھا کچھ عرب سفیروں نے
کس قدر ٹریفک اُس اک رکی سڑک پر تھی
جمع ایک دنیا تھی دیکھتی تھی کیا منصور
ایک چھوٹی سی بچی گر پڑی سڑک پر تھی
منصور آفاق

شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 134
بہتی بہار سپنا، چلتی ندی ہے خواب
شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب
ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے
رکھ آؤ گھر سے باہر بہتر یہی ہے خواب
تُو نے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں
میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب
میں لکھ رہا ہوں جس کی کرنوں کے سبز گیت
وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب
ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ
لگتا ہے آسماں کی بارہ دری ہے خواب
اس کے لیے ہیں آنکھیں اس کے لیے ہے نیند
جس میں دکھائی دوں میں وہ روشنی ہے خواب
دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر
اْس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب
اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس
دیکھو زمانے والو! کیا دیدنی ہے خواب
تجھ سے جدائی کیسی ، تجھ سے کہاں فراق
تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب
سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں
لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب
امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں
چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب
رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے
تجھ میں کسی مکاں کی کھڑکی کھلی ہے، خواب
منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں
ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب
منصور آفاق

ڈھونڈ نے اس کو چلا ہوں جسے پا ہی نہ سکوں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 25
اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈ نے اس کو چلا ہوں جسے پا ہی نہ سکوں
وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال
کہ وہ روئے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں
کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف
وہ مجھے دل سے بہلا دے میں بہلا بھی نہ سکوں
ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کی مانگیں جو حسیں
دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں
ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بال کر دوں
کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں
امیر مینائی

صبر کا جام پی لیا ہم نے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 218
دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے
صبر کا جام پی لیا ہم نے
کیسے انسان، کیسی آزادی
سر پہ الزام ہی لیا ہم نے
لو بدل دو حیات کا نقشہ
اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے
حادثات جہاں نے راہ نہ دی
آپ کا نام بھی لیا ہم نے
اور کیا چاہتے ہیں وہ باقیؔ
خون دل تک تو پی لیا ہم نے
باقی صدیقی