ٹیگ کے محفوظات: بھلا

چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں

گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات یے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے
یہاں آہی گیا ہے اب، تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں
کہیں سبحان اللہ جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں
عرفان ستار

ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے

ہر طرح یاد آ رہا ہے مجھے
ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے
حالِ دل روز پوچھنے والو
کوئی اندر سے کھا رہا ہے مجھے
اُس سے ملنے کو جا رہا ہوں میں
طُور پر کیا بُلا رہا ہے مجھے
ڈُوب کر رہ گئی مری آواز
جو ہے اپنی سُنا رہا ہے مجھے
ظلم اتنا نہ رکھ روا خود پر
جانے کب سے بُھلا رہا ہے مجھے
جان میں جان آ گئی ضامنؔ
جب سُنا وہ بُلا رہا ہے مجھے
ضامن جعفری

جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو

کیا ضروری ہے کہ مٹّی میں مِلا دیں مجھ کو
جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو
میرے پندارِ جنوں کا بھی بھرم رکھ لیجے
لذتِ درد بڑھے ایسی دوا دیں مجھ کو
ترک کر دیجئے من من کے بگڑنے کی ادا
آپ کے بس کا نہیں ہے کہ بھلا دیں مجھ کو
دردِ دل مجھ سے ہے اور میں ہی دوائے دل ہوں
’’اختیار آپ کا رکھیں کہ گنوادیں مجھ کو‘‘
جان لے لیتا ہے بے وجہ تغافل دیکھیں !
کم سے کم کوئی خطا ہے تو بتا دیں مجھ کو
میں خود اپنے کو مٹانے پہ تُلا ہوں ضامنؔ
چاہنے والے مرے لاکھ دعا دیں مجھ کو
ضامن جعفری

ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ کیا چاہئے مجھے
ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے
اپنے سکونِ دل کا پتا چاہئے مجھے
اِک دردِ لا دوا کی دوا چاہئے مجھے
وہ حبسِ التفات ہے گھٹنے لگا ہے دم
سانس آ سکے بس اتنی ہَوا چاہئے مجھے
اب چشم و گوش پر ہے فقط انحصارِ زیست
چہرہ وہی، اُسی کی صدا چاہئے مجھے
شایانِ شان ہو مرے جرم حسین کی
ایسی کوئی حسین سزا چاہئے مجھے
زاہد! ترے خدا کی ضرورت نہیں مجھے
جو میرے دل میں ہے وہ خدا چاہئے مجھے
کچھ کا خیال ہے کہ شہیدِ وفا ہوں میں
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں سزا چاہئے مجھے
تشخیص ہو چکی ہے تو اب جا چکیں طبیب
جا کر اُسے بتائیں کہ کیا چاہئے مجھے
ضامنؔ! مرے خلوص و وفا کو تَرَس نہ جائے
میرا تو کیا ہے؟ اُس کا بھلا چاہئے مجھے
ضامن جعفری

تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دُوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
مجال ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دُوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دُوں گا
مری خموش نگاہوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دُوں گا
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اِک دِن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دُوں گا
بہ پاسِ صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دُعا دُوں گا
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دُوں گا
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دُوں گا
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دُوں گا
ناصر کاظمی

زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
میری نوائیں الگ، میری دُعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے
نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے
سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس
فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے
باغ ترا باغباں ، تو ہے عبث بدگماں
مجھ کو تو اے مہرباں ، تھوڑی سی جا چاہیے
خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر
صِحنِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے
ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دُکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیے
بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے
شاعرِو، صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے
مانو مری کاظمی تم ہو بھلے آدمی
پھر وُہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے
ناصر کاظمی

ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں

کیا جو اغیار برا سوچتے ہیں
ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں
سوچتے ہیں کہ نہ سوچیں گے کچھ
سوچتے بھی ہیں تو کیا سوچتے ہیں
سوچتا ہوں کہ مرے بارے میں
وہ نہیں سوچتے یا سوچتے ہیں
زندگی گزری بنا کچھ سوچے
ہے یہ اب اس کی سزا سوچتے ہیں
میں دعا دیتا ہوں اُن کو باصِرؔ
جو مرے دکھ کی دوا سوچتے ہیں
باصر کاظمی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
درِ ہجراں وہ دل پر آ کھُلا ہے
کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے
جدھر ہے زندگی اور موت بھی ہے
پرندہ پھر اُسی جانب اُڑا ہے
اُدھر مہتاب سا چہرہ ہے اُس کا
اِدھر بے چین ساگر شوق کا ہے
جلائے جسم و جاں کو دمبدم جو
پسِ خواہش وہ پیکر آگ سا ہے
گیا ہے اَب کے یُوں وہ داغ دے کر
کہ جیسے پیڑ سے پتا گرا ہے
یہ وہ جانیں جنہیں نسبت ہے اُس سے
ہمیں کیا وہ بُرا ہے یا بھلا ہے
زباں پر نام ہے اُس کا کہ ماجدؔ
سرِ مژگاں کوئی آنسو رُکا ہے
ماجد صدیقی

نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
جو سو چکے تھے وُہ جذبے جگا دئیے تُو نے
نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے
شگفتِ تن سے، طلوعِ نگاہِ روشن سے
تمام رنگ رُتوں کے بھلا دئیے تُو نے
تھا پور پور میں دیپک چھُپا کہ لمس ترا
چراغ سے رگ و پے میں جلا دئیے تُو نے
لباسِ ابر بھی اُترا مِہ بدن سے ترے
حجاب جو بھی تھے حائل اُٹھا دئیے تُو نے
ذرا سے ایک اشارے سے یخ بدن کو مرے
روانیوں کے چلن سب سِکھا دئیے تُو نے
کسی بھی پل پہ گماں اب فراق کا نہ رہا
خیال و خواب میں وہ گُل کھلا دئیے تُو نے
جنم جنم کے تھے سُرتال جن میں خوابیدہ
کُچھ ایسے تار بھی اب کے ہلا دئیے تُو نے
سخن میں لُطفِ حقائق سمو کے اے ماجدؔ
یہ کس طرح کے تہلکے مچا دئیے تُو نے
ماجد صدیقی

کہیں‌زخم بیچ میں‌ آ گئے کہیں‌شعر کوئی سنا دیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 26
وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں‌زخم بیچ میں‌ آ گئے کہیں‌شعر کوئی سنا دیا
وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی درِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں‌ زرِ داغِ دل بھی لٹا دیا
کبھی یوں‌بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں‌تھے تو دکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رلا دیا
کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں‌نہ تھے
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے بلا دیا
کوئی نامہ دلبرِ شہر کا کہ غزل گری کا بہانہ ہو
وہی حرف دل جسے مدتوں سے ہم اہلِ دل نے بھلا دیا
احمد فراز

اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 9
برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر، نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا
تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا
احمد فراز

چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 33
گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات یے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے
یہاں آہی گیا ہے اب، تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں
کہیں سبحان اللہ جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں
عرفان ستار

تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 56
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو
تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو
غنچے کے چٹکنے پہ نہ گلشن میں خفا ہو
ممکن ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہو
کھا اس کی قسم جو نہ تجھے دیکھ چکا ہو
تیرے تو فرشتوں سے بھی وعدہ نہ وفا ہو
انسان کسی فطرت پہ تو قائم ہو کم از کم
اچھا ہو تو اچھا ہو برا ہو تو برا ہو
اس حشر میں کچھ داد نہ فریاد کسی کی
جو حشر کے ظالم ترے کوچے سے اٹھا ہو
اترا کہ یہ رفتارِ جوانی نہیں اچھی
چال ایسی چلا کرتے ہیں جیسے کہ ہوا ہو
میخانے میں جب ہم سے فقیروں کو نہ پوچھا
یہ کہتے ہوئے چل دیئے ساقی کا بھلا ہو
اللہ رے او دشمنِ اظہارِ محبت
وہ درد دیا ہے جو کسی سے نہ دوا ہو
تنہا وہ مری قبر پہ ہیں چاکِ گریباں
جیسے کسی صحرا میں کوئی پھول کھلا ہو
منصور سے کہتی ہے یہی دارِ محبت
اس کی یہ سزا ہے جو گنہگارِ وفا ہو
جب لطف ہو اللہ ستم والوں سے پوچھے
تو یاس کی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہو
فرماتے ہیں وہ سن کے شبِ غم کی شکایت
کس نے یہ کہا تھا کہ قمر تم ہمیں چا ہو
قمر جلالوی

دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 45
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دلِ بے مُدّعا دیا تو نے
بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا، دیا تو نے
کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے
مٹ گئے دل سے نقشِ باطل سب
نقش اپنا جما دیا تو نے
مجھ گناہگار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
اے خدا ! جو دیا، دیا تو نے
داغ دہلوی

جانے یہ کون آ رہا مجھ میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 114
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جون مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اس کو رہی تلاشِ امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت، سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کر گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
جون ایلیا

صبح کا دکھ بڑھا دیا، شام کا دکھ بڑھا دیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 38
ہم تھے نیاز مندِ شوق، شوق نے ہم کو کیا دیا
صبح کا دکھ بڑھا دیا، شام کا دکھ بڑھا دیا
دن میں عذابِ ذات کے، تُو مرا ساتھ بھی تو دے
نیند تھی میری زندگی، تُو نے مجھے جگا دیا
واعظ و زاہد و فقیہہ، تم کو بتائے بھی تو کون
وہ بھی عجیب شخص تھا، جس نے ہمیں خدا دیا
تُو نے بھی اپنے خدّ و خال، جانے کہاں گنوا دیئے
میں نے بھی اپنے خواب کو، جانے کہاں گنوا دیا
جانے وہ کاروانِ جاں، کیوں نہ گزر سکا جسے
تُو نے بھی راستہ دیا، میں نے بھی راستہ دیا
تُو مرا حوصلہ تو دیکھ، میں ہی کب اپنے ساتھ ہوں
تُو مرا کربِ جاں تو دیکھ، میں نے تجھے بھلا دیا
ہم جو گلہ گزار ہیں، کیوں نہ گلہ گزار ہوں
میں نے بھی اس کو کیا دیا، اس نے بھی مجھ کو کیا دیا
قید کے کھل رہے تھے در، وقت تھا دل نواز تر
رنگ کی موج آئی تھی، ہم نے اسے گنوا دیا
ہم بھی خدا سے کم نہیں، جو اسے ماننے لگے
وہ بھی خدا سے کم نہ تھا، جس نے ہمیں خدا دیا
جون ایلیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 109
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا
کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
مرزا اسد اللہ خان غالب

میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 75
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب ،”کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا”
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں@ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں” روانہ ہوا
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا!
@ نسخۂ مہر، نسخۂ علامہ آسی میں ‘یوں’ کے بجا ئے "یہ” آیا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بہ خدا با خدا رہا ہوں میں

دیوان ششم غزل 1857
گو کہ بت خانے جا رہا ہوں میں
بہ خدا با خدا رہا ہوں میں
سب گئے دل دماغ تاب و تواں
میں رہا ہوں سو کیا رہا ہوں میں
برق تو میں نہ تھا کہ جل بجھتا
ابر تر ہوں کہ چھا رہا ہوں میں
اس کی بیگانہ وضعی ہے معلوم
برسوں تک آشنا رہا ہوں میں
دیکھو کب تیغ اس کی آبیٹھے
دیر سے سر اٹھا رہا ہوں میں
اس کی گرد سمند کا مشتاق
آنکھیں ہر سو لگا رہا ہوں میں
دور کے لوگ جن نے مارے قریب
اس کے ہمسائے آرہا ہوں میں
مجھ کو بدحال رہنے دیں اے کاش
بے دوا کچھ بھلا رہا ہوں میں
دل جلوں کو خدا جہاں میں رکھے
یا شقائق ہے یا رہا ہوں میں
کچھ رہا ہی نہیں ہے مجھ میں میر
جب سے ان سے جدا رہا ہوں میں
میر تقی میر

وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں

دیوان ششم غزل 1853
طرفہ خوش رو دم خوں ریز ادا کرتے ہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
عشق کرنا نہیں آسان بہت مشکل ہے
چھاتی پتھر کی ہے ان کی جو وفا کرتے ہیں
شوخ چشمی تری پردے میں ہے جب تک تب تک
ہم نظر باز بھی آنکھوں کی حیا کرتے ہیں
نفع بیماری عشقی کو کرے سو معلوم
یار مقدور تلک اپنی دوا کرتے ہیں
آگ کا لائحہ ظاہر نہیں کچھ لیکن ہم
شمع تصویر سے دن رات جلا کرتے ہیں
اس کے قربانیوں کی سب سے جدا ہے رہ و رسم
اول وعدہ دل و جان فدا کرتے ہیں
رشک ایک آدھ کا جی مارتا ہے عاشق کا
ہر طرف اس کو تو دو چار دعا کرتے ہیں
بندبند ان کے جدا دیکھوں الٰہی میں بھی
میرے صاحب کو جو بندے سے جدا کرتے ہیں
دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ
روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں
واں سے یک حرف و حکایت بھی نہیں لایا کوئی
یاں سے طومار کے طومار چلا کرتے ہیں
بودو باش ایسے زمانے میں کوئی کیونکے کرے
اپنی بدخواہی جو کرتے ہیں بھلا کرتے ہیں
حوصلہ چاہیے جو عشق کے آزار کھنچیں
ہر ستم ظلم پہ ہم صبر کیا کرتے ہیں
میر کیا جانے کسے کہتے ہیں واشد وے تو
غنچہ خاطر ہی گلستاں میں رہا کرتے ہیں
میر تقی میر

دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں

دیوان ششم غزل 1845
اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آجاتا ہوں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
سعی دشمن کو نہیں دخل مری ایذا میں
رنج سے عشق کے میں آپھی کھپا جاتا ہوں
گرچہ کھویا سا گیا ہوں پہ تہ حرف و سخن
اس فریبندۂ عشاق کی پا جاتا ہوں
خشم کیوں بے مزگی کاہے کو بے لطفی کیا
بدبر اتنا بھی نہ ہو مجھ سے بھلا جاتا ہوں
استقامت سے ہوں جوں کوہ قوی دل لیکن
ضعف سے عشق کے ڈھہتا ہوں گرا جاتا ہوں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
در و دیوار کو احوال سنا جاتا ہوں
گاہ باشد کہ سمجھ جائے مجھے رفتۂ عشق
دور سے رنگ شکستہ کو دکھا جاتا ہوں
یک بیاباں ہے مری بیکسی و بیتابی
مثل آواز جرس سب سے جدا جاتا ہوں
تنگ آوے گا کہاں تک نہ مرا قلب سلیم
بگڑی صحبت کے تئیں روز بنا جاتا ہوں
گرمی عشق ہے ہلکی ابھی ہمدم دل میں
روز و شب شام و سحر میں تو جلا جاتا ہوں
میر تقی میر

ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا

دیوان ششم غزل 1788
سوز دروں سے مجھ پہ ستم برملا ہوا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
بدحال ہوکے چاہ میں مرنے کا لطف کیا
دل لگتے جو موا کوئی عاشق بھلا ہوا
نکلا گیا نہ دام سے پرپیچ زلف کے
اے وائے یہ بلا زدہ دل مبتلا ہوا
کیا اور لکھیے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا
رہتا نہیں تڑپنے سے ٹک ہاتھ کے تلے
کیا جانوں میر دل کو مرے کیا بلا ہوا
میر تقی میر

کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1783
یہی عشق ہے جی کھپا جانتا ہے
کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے
بدی میں بھی کچھ خوبی ہووے گی تب تو
برا کرنے کو وہ بھلا جانتا ہے
مرا شعر اچھا بھی دانستہ ضد سے
کسو اور ہی کا کہا جانتا ہے
زمانے کے اکثر ستم گار دیکھے
وہی خوب طرز جفا جانتا ہے
نہیں جانتا حرف خط کیا ہیں لکھے
لکھے کو ہمارے مٹا جانتا ہے
نہ جانے جو بیگانہ تو بات پوچھے
سو مغرور کب آشنا جانتا ہے
نہیں اتحاد تن و جاں سے واقف
ہمیں یار سے جو جدا جانتا ہے
میر تقی میر

اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان پنجم غزل 1767
ننوشتہ نامہ آیا یہ کچھ ہمیں لکھا ہے
اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے
کافر کا بھی رویہ ہوتا نہیں ہے ایسا
ٹھوکر لگا کے چلنا کس دین میں روا ہے
دنیا میں دیر رہنا ہوتا نہیں کسو کا
یہ تو سراے فانی اک کارواں سرا ہے
بندے کا دل بجا ہے جاتا ہوں شاد ہر جا
جب سے سنا ہے میں نے کیا غم ہے جو خدا ہے
پاے ثبات کس کا ٹھہرا ہے اس کے دیکھے
ہے ناز اک قیامت انداز اک بلا ہے
ہرجا بدن میں اس کے افراط سے ہے دلکش
میں کیا دل ملک بھی اٹکے اگر بجا ہے
مرنا تو ایک دم ہے عاشق مرے ہے ہر دم
وہ جانتا ہے جس کو پاس دل وفا ہے
خط اس کو لکھ کے غم سے بے خود ہوا ہوں یعنی
قاصد کے بدلے یاں سے جی ہی مرا چلا ہے
شوخی سے اس کی درہم برہم جہاں ہے سارا
ہنگامۂ قیامت اس کی کوئی ادا ہے
عمر عزیز گذری سب سے برائی کرتے
اب کر چلو بھلا کچھ شاید یہی بھلا ہے
جو ہے سو میر اس کو میرا خدا کہے ہے
کیا خاص نسبت اس سے ہر فرد کو جدا ہے
میر تقی میر

تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا

دیوان پنجم غزل 1570
آیا سو آب تیغ ہی مجھ کو چٹا گیا
تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا
کیا شہر خوش عمارت دل سے ہے گفتگو
لشکر نے غم کے آن کے مارا چلا گیا
موقوف یار غیر جلانا مرا نہیں
جو کوئی اس کے کان لگا کچھ لگا گیا
تنہائی بیکسی مری یک دست تھی کہ میں
جیسے جرس کا نالہ جرس سے جدا گیا
کیا تم سے اپنے دل کی پریشانی میں کہوں
دریاے گریہ جوش زناں تھا بہا گیا
روزانہ اب تو اپنے تئیں سوجھتا نہیں
آخر کو رونا راتوں کا ہی دن دکھا گیا
سررفتگی بدی مری ننوشتنی ہے میر
قاصد جو لے کے نامہ گیا سو بھلا گیا
میر تقی میر

پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ

دیوان چہارم غزل 1482
گرمی سے عاشقی کی آخر کو ہو رہا کچھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
آزردہ دل ہزاروں مرتے ہی ہم سنے ہیں
بیماری دلی کی شاید نہیں دوا کچھ
وارفتہ ہے گلستاں اس روے چمپئی کا
ہے فصل گل پہ گل کا اب وہ نہیں مزہ کچھ
وہ آرسی کے آگے پہروں ہے بے تکلف
منھ سے ہمارے اس کو آتی نہیں حیا کچھ
دل ہی کے غم میں گذرے دس دن جو عمر کے تھے
اچرج ہے اس نگر سے جاتا نہیں دہا کچھ
منھ کر بھی میری جانب سوتا نہیں کبھو وہ
کیا جانوں اس کے جی میں ہے اس طرف سے کیا کچھ
دل لے فقیر کا بھی ہاتھوں میں دل دہی کر
آجائے ہے جہاں میں آگے لیا دیا کچھ
یاروں کی آہ و زاری ہووے قبول کیوں کر
ان کی زباں میں کچھ ہے دل میں ہے کچھ دعا کچھ
ساری وہی حقیقت ملحوظ سب میں رکھیے
کہیے نمود ہووے جو اس کے ماسوا کچھ
حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ
کب تک یہ بدشرابی پیری تو میر آئی
جانے کے ہو مہیا اب کر چلو بھلا کچھ
میر تقی میر

اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا

دیوان چہارم غزل 1320
یہ دل نے کیا کیا کہ اسیر بلا کیا
اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا
گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا
میں جوں چراغ گور اکیلا جلا کیا
آیا نہ اس طرف سے جواب ایک حرف کا
ہر روز خط شوق ادھر سے چلا کیا
ڈرتا ہی میں رہا کہ پلک کوئی گڑ نہ جائے
آنکھوں سے اس کے رات جو تلوے ملا کیا
بدحال ٹھنڈی سانسیں بھرا کب تلک کرے
سرگرم مرگ میر ہوا تو بھلا کیا
میر تقی میر

دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

دیوان دوم غزل 1030
کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے
ان چار دن سے ہوں میں افسردہ کچھ وگرنہ
پھوڑا سا دل بغل میں برسوں جلا کیا ہے
اس گل کی اور اپنا تب منھ کیا ہے میں نے
جب آشنا لبوں سے صلِّ علیٰ کیا ہے
دل داغ کب نہ دیکھا جی بار کب نہ پایا
کیا کیا نہال خواہش پھولا پھلا کیا ہے
تڑپا ہے ایسا ایسا جو غش رہا ہے مجھ کو
دل اک بغل میں جی کا دشمن پلا کیا ہے
کیا خاک میں ہمیں کو ان نے نیا ملایا
ٹیڑھی ہی چال گردوں اکثر چلا کیا ہے
چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ
عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے
ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہو گا
تونے بدی تو کی ہے ظالم بھلا کیا ہے
ہے منھ پہ میر کے کیا گرد ملال تازہ
یہ خاک میں ہمیشہ یوں ہی رلا کیا ہے
میر تقی میر

جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے

دیوان دوم غزل 1002
دوری میں اس کی گور کنارے ہم آرہے
جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے
اس آفتاب حسن کے ہم داغ شرم ہیں
ایسے ظہور پر بھی وہ منھ کو چھپا رہے
اب جس کے حسن خلق پہ بھولے پھریں ہیں لوگ
اس بے وفا سے ہم بھی بہت آشنا رہے
مجروح ہم ہوئے تو نمک پاشیاں رہیں
ایسی معاش ہووے جہاں کیا مزہ رہے
مرغان باغ سے نہ ہوئی میری دم کشی
نالے کو سن کے وقت سحر دم ہی کھا رہے
چھاتی رکی رہے ہے جو کرتے نہیں ہیں آہ
یاں لطف تب تلک ہی ہے جب تک ہوا رہے
کشتے ہیں ہم تو ذوق شہیدان عشق کے
تیغ ستم کو دیر گلے سے لگا رہے
گاہے کراہتا ہے گہے چپ ہے گاہ سست
ممکن نہیں مریض محبت بھلا رہے
آتے کبھو جو واں سے تو یاں رہتے تھے اداس
آخر کو میر اس کی گلی ہی میں جا رہے
میر تقی میر

الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے

دیوان دوم غزل 996
بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے
الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے
دل دھڑکے ہے جاتے کچھ بت خانے سے کعبے کو
اس راہ میں پیش آوے کیا ہم کو خدا جانے
ہے محو رخ اپنا تو آئینے میں ہر ساعت
صورت ہے جو کچھ دل کی سو تیری بلا جانے
کچھ اس کی بندھی مٹھی اس باغ میں گذرے ہے
جو زخم جگر اپنے جوں غنچہ چھپا جانے
کیا سینے کے جلنے کو ہنس ہنس کے اڑاتا ہوں
جب آگ کوئی گھر کو اس طور لگا جانے
میں مٹی بھی لے جائوں دروازے کی اس کے تو
اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
اپنے تئیں بھی کھانا خالی نہیں لذت سے
کیا جانے ہوس پیشہ چکھے تو مزہ جانے
یوں شہر میں بہتیرے آزاردہندے ہیں
تب جانیے جب کوئی اس ڈھب سے ستا جانے
کیا جانوں رکھو روزے یا دارو پیو شب کو
کردار وہی اچھا تو جس کو بھلا جانے
آگاہ نہیں انساں اے میر نوشتے سے
کیا چاہیے ہے پھر جو طالع کا لکھا جانے
میر تقی میر

کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے

دیوان دوم غزل 990
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے
کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے
حرص و ہوس سے باز رہے دل تو خوب ہے
ہے قہر اس کلی کے تئیں گر ہوا لگے
تلخ اب تو اپنے جی کو بھی لگتی ہے اس نمط
جیسے کسو کے زخم پہ تیر اک دو آ لگے
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جا لگے
ایسے لگے پھرے ہیں بہت سائے کی روش
جانے دے ایسی حور پری سے بلا لگے
وہ بھی چمن فروز تو بلبل ہے سامنے
گل ایسے منھ کے آگے بھلا کیا بھلا لگے
پس جائیں یار آنکھ تری سرمگیں پڑے
دل خوں ہو تیرے پائوں میں بھر کر حنا لگے
بن ہڈیوں ہماری ہما کچھ نہ کھائے گا
ٹک چاشنی عشق کا اس کو مزہ لگے
خط مت رکھو کہ اس میں بہت ہیں قباحتیں
رکھیے تمھارے منھ پہ تو تم کو برا لگے
مقصود کے خیال میں بہتوں نے چھانی خاک
عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے
سب چاہتے ہیں دیر رہے میر دل زدہ
یارب کسو تو دوست کی اس کو دعا لگے
میر تقی میر

پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو

دیوان دوم غزل 926
لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو
پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو
چپکے رہے بھی چین نہیں تب کہے ہے یوں
لب بستہ بیٹھے رہتے جو ہو مدعا کہو
پیغام بر تو یارو تمھیں میں کروں ولے
کیا جانوں جاکے حق میں مرے اس سے کیا کہو
اب نیک و بد پہ عشق میں مجھ کو نظر نہیں
اس میں مجھے برا کہو کوئی بھلا کہو
سر خاک آستاں پہ تمھاری رہا مدام
اس پر بھی یا نصیب جو تم بے وفا کہو
برسوں تلک تو گھر میں بلا گالیاں دیاں
اب در پہ سن کے کہنے لگے ہیں دعا کہو
صحبت ہماری اس کی جو ہے گفتنی نہیں
کیا کہیے گر کہے کوئی یہ ماجرا کہو
یارو خصوصیت تو رہے اپنی اس کے ساتھ
میرا کہو جو حال تو اس سے جدا کہو
آشفتہ مو حواس پریشاں خراب حال
دیکھو مجھے تو خبطی دوانہ سڑا کہو
کب شرح شوق ہوسکے پر تو بھی میرجی
خط تم نے جو لکھا اسے کیا کیا لکھا کہو
میر تقی میر

بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو

دیوان دوم غزل 922
ظالم ہو میری جان پہ ناآشنا نہ ہو
بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو
کرتی ہے عشق بازی کو بے مائگی وبال
کیا کھیلے وہ جوا جسے کچھ آسرا نہ ہو
ہجر بتاں میں طبع پراگندہ ہی رہی
کافر بھی اپنے یار سے یارب جدا نہ ہو
آزار کھینچنے کے مزے عاشقوں سے پوچھ
کیا جانے وہ کہ جس کا کہیں دل لگا نہ ہو
کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو
اس پردے میں خیال تو کر ٹک خدا نہ ہو
رک جائے دم گر آہ نہ کریے جہاں کے بیچ
اس تنگناے میں کریں کیا جو ہوا نہ ہو
طرزسخن تو دیکھ ٹک اس بدمعاش کی
دل داغ کس طرح سے ہمارا بھلا نہ ہو
شکوہ سیاہ چشمی کا سن ہم سے یہ کہا
سرمہ نہیں لگانے کا میں تم خفا نہ ہو
جی میں تو ہے کہ دیکھیے آوارہ میر کو
لیکن خدا ہی جانے وہ گھر میں ہو یا نہ ہو
میر تقی میر

ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں

دیوان دوم غزل 895
اتفاق ایسا ہے کڑھتے ہی سدا رہتے ہیں
ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں
برسے تلوار کہ حائل ہو کوئی سیل بلا
پیش کچھ آئو ہم اس کوچے میں جا رہتے ہیں
کام آتا ہے میسر کسے ان ہونٹوں سے
بابت بوسہ ہیں پر سب کو چما رہتے ہیں
دشت میں گرد رہ اس کی اٹھے ہے جیدھر سے
وحش و طیر آنکھیں ادھر ہی کو لگا رہتے ہیں
کیا تری گرمی بازار کہیں خوبی کی
سینکڑوں آن کے یوسف سے بکا رہتے ہیں
بسترا خاک رہ اس کی تو ہے اپنا لیکن
گریۂ خونیں سے لوہو میں نہا رہتے ہیں
کیوں اڑاتے ہو بلایا ہمیں کب کب ہم آپ
جیسے گردان کبوتر یہیں آ رہتے ہیں
حق تلف کن ہیں بتاں یاد دلائوں کب تک
ہر سحر صحبت دوشیں کو بھلا رہتے ہیں
یاد میں اس کے قد و قامت دلکش کی میر
اپنے سر ایک قیامت نئی لا رہتے ہیں
میر تقی میر

چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں

دیوان دوم غزل 864
مدعی مجھ کو کھڑے صاف برا کہتے ہیں
چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں
دیکھے خوباں کے بجا دل نہیں رہتا ہرگز
لوگ جو کچھ انھیں کہتے ہیں بجا کہتے ہیں
عشق کے شہر کی بھی رسم کے ہیں کشتے ہم
درد جانکاہ جو ہو اس کو دوا کہتے ہیں
جی اگر زلفوں کے سودے میں ترے دوں تو نہ بول
پہلی قیمت کے تئیں مشک بہا کہتے ہیں
حسن تو ہے ہی کرو لطف زباں بھی پیدا
میر کو دیکھو کہ سب لوگ بھلا کہتے ہیں
میر تقی میر

کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل

دیوان دوم غزل 853
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل
کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل
ٹک اس بے رنگ کے نیرنگ تو دیکھ
ہوا ہر رنگ میں جوں آب شامل
نہیں بھاتا ترا مجلس کا ملنا
ملے تو ہم سے تو سب سے جدا مل
غنیمت جان فرصت آج کے دن
سحر کیا جانے کیا ہو شب ہے حامل
اگرچہ ہم نہیں ملنے کے لائق
کسو تو طرح ہم سے بھی بھلا مل
لیا زاہد نے جام بادہ کف پر
بحمد اللہ کھلا عقد انامل
وہی پہنچے تو پہنچے آپ ہم تک
نہ یاں طالع رسا نے جذب کامل
ہوا دل عشق کی سختی سے ویراں
ملائم چاہیے تھا یاں کا عامل
پس از مدت سفر سے آئے ہیں میر
گئیں وہ اگلی باتیں تو ہی جا مل
میر تقی میر

جان کا روگ ہے بلا ہے عشق

دیوان دوم غزل 837
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
گر پرستش خدا کی ثابت کی
کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق
دلکش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
توکہے جنس ناروا ہے عشق
میرجی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
میر تقی میر

ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

دیوان دوم غزل 775
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم
اب تو ہیں حرف آشنا صاحب
نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں
کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب
بندگی ایک اپنی کیا کم ہے
اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب
مہرافزا ہے منھ تمھارا ہی
کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب
خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ
اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب
پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے
دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب
شوق رخ یاد لب غم دیدار
جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب
بھول جانا نہیں غلام کا خوب
یاد خاطر رہے مرا صاحب
کن نے سن شعر میر یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب
میر تقی میر

کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا

دیوان دوم غزل 736
کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا
کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا
کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو ملا کرتا
تو تیرے جی میں مخالف نہ اتنی جا کرتا
چمن میں پھول گل اب کے ہزار رنگ کھلے
دماغ کاش کہ اپنا بھی ٹک وفا کرتا
فقیر بستی میں تھا تو ترا زیاں کیا تھا
کبھو جو آن نکلتا کوئی صدا کرتا
علاج عشق نے ایسا کیا نہ تھا اس کا
جو کوئی اور بھی مجنوں کی کچھ دوا کرتا
قدم کے چھونے سے استادگی مجھی سے ہوئی
کبھو وہ یوں تو مرے ہاتھ بھی لگا کرتا
بدی نتیجہ ہے نیکی کا اس زمانے میں
بھلا کسو سے جو کرتا تو تو برا کرتا
تلاطم آنکھ کے صد رنگ رہتے تھے تجھ بن
کبھو کبھو جو یہ دریاے خوں چڑھا کرتا
کہاں سے نکلی یہ آتش نہ مانتا تھا میں
شروع ربط میں اس کے جو دل جلا کرتا
گلی سے یار کی ہم لے گئے سر پر شور
وگرنہ شام سے ہنگامہ ہی رہا کرتا
خراب مجھ کو کیا دل کی لاگ نے ورنہ
فقیر تکیے سے کاہے کو یوں اٹھا کرتا
گئے پہ تیرے نہ تھا ہم نفس کوئی اے گل
کبھو نسیم سے میں درد دل کہا کرتا
کہیں کی خاک کوئی منھ پہ کب تلک ملتا
خراب و خوار کہاں تک بھلا پھرا کرتا
موئی ہی رہتی تھی عزت مری محبت میں
ہلاک آپ کو کرتا نہ میں تو کیا کرتا
ترے مزاج میں تاب تعب تھی میر کہاں
کسو سے عشق نہ کرتا تو تو بھلا کرتا
میر تقی میر

دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا

دیوان دوم غزل 712
یاں اپنی آنکھیں پھر گئیں پر وہ نہ آ پھرا
دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا
آیا نہ پھر وہ آئینہ رو ٹک نظر مجھے
میں منھ پر اپنے خاک ملے جا بہ جا پھرا
کیا اور جی رندھے کسو کا تیرے ہجر میں
سو بار اپنے منھ سے جگر تو گیا پھرا
اللہ رے دلکشی کہیں دیکھا جو گرم ناز
جوں سایہ اس کے ساتھ ملک پھر لگا پھرا
سن لیجو ایک بار مسافر ہی ہو گیا
بیمار عشق گور سے گو بارہا پھرا
کہہ وہ شکستہ پا ہمہ حسرت نہ کیونکے جائے
جو ایک دن نہ تیری گلی میں چلا پھرا
طالع پھرے سپہر پھرا قلب پھر گئے
چندے وہ رشک ماہ جو ہم سے جدا پھرا
پر بے نمک ہے ملنے کی اس وقت میں تلاش
بارے وہ ربط و دوستی سب کا مزہ پھرا
آنسو گرا نہ راز محبت کا پاس کر
میں جیسے ابر برسوں تئیں دل بھرا پھرا
بے صرفہ رونے لگ گئے ہم بھی اگر کبھو
تو دیکھیو کہ بادیہ سارا بہا پھرا
بندہ ہے پھر کہاں کا جو صاحب ہو بے دماغ
اس سے خدائی پھرتی ہے جس سے خدا پھرا
خانہ خراب میر بھی کتنا غیور تھا
مرتے موا پر اس کے کبھو گھر نہ جا پھرا
میر تقی میر

پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا

دیوان دوم غزل 707
دل عشق میں خوں دیکھا آنکھوں کو گیا دیکھا
پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا
مجروح ہے سب سینہ تس پر ہے نمک پاشی
آنکھوں کے لڑانے کا ہم خوب مزہ دیکھا
یک بار بھی آنکھ اپنی اس پر نہ پڑی مرتے
سو مرتبہ بالیں سے ہم سر کو اٹھا دیکھا
کاہش کا مری اب یہ کیا تجھ کو تعجب ہے
بیماری دل والا کوئی بھی بھلا دیکھا
آنکھیں گئیں پھر تجھ بن کیا کیا نہ عزیزوں کی
پر تونے مروت سے ٹک ان کو نہ جا دیکھا
جی دیتے ہیں مرنے پر سب شہر محبت میں
کچھ ساری خدائی سے یہ طور نیا دیکھا
کہہ دل کو گنوایا ہے یا رنج اٹھایا ہے
اے میر تجھے ہم نے کچھ آج خفا دیکھا
میر تقی میر

دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا

دیوان دوم غزل 692
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش
رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا
کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات
کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین
آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا
اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر
جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا
جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا
کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا
خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا
میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا
ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار
ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا
جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ
پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا
جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں
وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا
پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ
دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا
بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر
دیکھا تھا ہم نے میر کو کچھ تو بھلا ہوا
میر تقی میر

اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا

دیوان دوم غزل 687
وہ شوخ ہم کو پائوں تلے ہے ملا کیا
اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا
چھاتی کبھو نہ ٹھنڈی کی لگ کر گلے سے آہ
دل اس سے دور سینے میں اکثر جلا کیا
کس وقت شرح حال سے فرصت ہمیں ہوئی
کس دن نیا نہ قاصد ادھر سے چلا کیا
ہم تو گمان دوستی رکھتے تھے پر یہ دل
دشمن عجب طرح کا بغل میں پلا کیا
کیا لطف ہے جیے جو برے حال کوئی میر
جینے سے تونے ہاتھ اٹھایا بھلا کیا
میر تقی میر

کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا

دیوان دوم غزل 676
رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا
کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا
غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے
گر لائحہ اس آگ کا ٹک دل کو جا لگا
دیکھا ہمیں جہاں وہ تہاں آگ ہو گیا
بھڑکا رکھا ہے لوگوں نے اس کو لگا لگا
مہلت تنک بھی ہو تو سخن کچھ اثر کرے
میں اٹھ گیا کہ غیر ترے کانوں آ لگا
اب آب چشم ہی ہے ہمارا محیط خلق
دریا کو ہم نے کب کا کنارے رکھا لگا
ہر چند اس کی تیغ ستم تھی بلند لیک
وہ طور بد ہمیں تو قیامت بھلا لگا
مجلس میں اس کی بار نہ مجھ کو ملی کبھو
دروازے ہی سے گرچہ بہت میں رہا لگا
بوسہ لبوں کا مانگتے ہی منھ بگڑ گیا
کیا اتنی میری بات کا تم کو برا لگا
عالم کی سیر میر کی صحبت میں ہو گئی
طالع سے میرے ہاتھ یہ بے دست و پا لگا
میر تقی میر

شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

دیوان دوم غزل 670
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا
قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا
وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا
حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا
عالم کی بے فضائی سے تنگ آگئے تھے ہم
جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا
درپے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا
اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا
بدتر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا
کہتا تھا میر حال تو جب تک تو تھا بھلا
کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا
میر تقی میر

کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے

دیوان اول غزل 581
انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے
کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے
واں آرسی ہے وہ ہے یاں سنگ ہے چھاتی ہے
گذرے ہے جو کچھ ہم پر سو اس کی بلا جانے
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی
ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے
میں خط جبیں اپنا یارو کسے دکھلائوں
قسمت کے لکھے کے تیں یاں کون مٹا جانے
بے طاقتی دل نے ہم کو نہ کیا رسوا
ہے عشق سزا اس کو جو کوئی چھپا جانے
اس مرتبہ ناسازی نبھتی ہے دلا کوئی
کچھ خُلق بھی پیدا کر تا خلق بھلا جانے
لے جایئے میر اس کے دروازے کی مٹی بھی
اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
میر تقی میر

کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو

دیوان اول غزل 379
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تو
کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو
گر اپنی روش راہ چلا یار تو اے کبک
رہ جائے گا دیوار گلستاں سے لگا تو
بے گل نہیں بلبل تجھے بھی چین پہ دیکھیں
مر رہتے ہیں ہم ایک طرف باغ میں یا تو
خوش رو ہے بہت اے گل تر تو بھی ولیکن
انصاف ہے منھ تیرے ہی ویسا ہے بھلا تو
کیا جانیے اے گوہر مقصد تو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن نہ ملا تو
اس جینے سے اب دل کو اٹھا بیٹھیں گے ہم بھی
ہے تجھ کو قسم ظلم سے مت ہاتھ اٹھا تو
منظر میں بدن کے بھی یہ اک طرفہ مکاں تھا
افسوس کہ ٹک دل میں ہمارے نہ رہا تو
تھے چاک گریبان گلستاں میں گلوں کے
نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بند قبا تو
بے ہوشی سی آتی ہے تجھے اس کی گلی میں
گر ہوسکے اے میر تو اس راہ نہ جا تو
میر تقی میر

اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں

دیوان اول غزل 347
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں
بات میں غیروں کو چپ کردوں ولیکن کیا کروں
وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں
روز بدتر جیسے بیمار اجل ہے دل کا حال
یہ سمجھ کر ہم نشیں اب میں دوا کرتا نہیں
گوئیا باب اجابت ہجر میں تیغا ہوا
ورنہ کس شب آپ کو میں بددعا کرتا نہیں
بیکسان عشق اس کے آہ کس کے پاس جائیں
گور بن کوئی صلا میں لب کو وا کرتا نہیں
چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں
چرخ کی بھی کج ادائی ہم ہی پر جاتی ہے پیش
ناز کو اس سے تو اک دم بھی جدا کرتا نہیں
دیکھ اسے بے دید ہو آنکھوں نے کیا دیکھا بھلا
دل بھی بد کرتا ہے مجھ سے تو بھلا کرتا نہیں
کیونکے دیکھی جائے یہ بیگانہ وضعی مجھ سے شوخ
تو تو ایدھر یک نگاہ آشنا کرتا نہیں
کیا کہوں پہنچا کہاں تک میر اپنا کارشوق
یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں
میر تقی میر

پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں

دیوان اول غزل 326
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں
پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا کرے
گر بزم میں یہ اپنا ترا ماجرا کہوں
مت کر خرام سر پہ اٹھالے گا خلق کو
بیٹھا اگر گلی میں ترا نقش پا کہوں
دل اور دیدہ باعث ایذا و نور عین
کس کے تئیں برا کہوں کس کو بھلا کہوں
آوے سموم جاے صبا باغ سے سدا
گرشمہ اپنے سوز جگر کا میں جا کہوں
جاتا ہوں میر دشت جنوں کو میں اب یہ کہہ
مجنوں کہیں ملے تو تری بھی دعا کہوں
میر تقی میر

جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں

دیوان اول غزل 292
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمع تصویر ہیں خاموش جلا کرتے ہیں
جائے ہی نہ مرض دل تو نہیں اس کا علاج
اپنے مقدور تلک ہم تو دوا کرتے ہیں
اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر
شیخ یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصت جنبش لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گذریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعوی مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
تجھ سے لگ جاکے یہ یوں جاتے رہیں مجھ سے حیف
دیدہ و دل نے نہ جانا کہ دغا کرتے ہیں
فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
مجلس حال میں موزوں حرکت شیخ کی دیکھ
حیز شرعی بھی دم رقص مزہ کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو برا اپنا بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں
تجھ بن اس جان مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کریں ہیں لوہو پیا کرتے ہیں
میر تقی میر

آخرکار کیا کہا قاصد

دیوان اول غزل 199
نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد
آخرکار کیا کہا قاصد
کوئی پہنچا نہ خط مرا اس تک
میرے طالع ہیں نارسا قاصد
سر نوشت زبوں سے زر ہو خاک
راہ کھوٹی نہ کر تو جا قاصد
گر پڑا خط تو تجھ پہ حرف نہیں
یہ بھی میرا ہی تھا لکھا قاصد
یہ تو رونا ہمیشہ ہے تجھ کو
پھر کبھو پھر کبھو بھلا قاصد
اب غرض خامشی ہی بہتر ہے
کیا کہوں تجھ سے ماجرا قاصد
شب کتابت کے وقت گریے میں
جو لکھا تھا سو بہ گیا قاصد
کہنہ قصہ لکھا کروں تاکے
بھیجا کب تک کروں نیا قاصد
ہے طلسمات اس کا کوچہ تو
جو گیا سو وہیں رہا قاصد
باد پر ہے برات جس کا جواب
اس کو گذرے ہیں سالہا قاصد
نامۂ میر کو اڑاتا ہے
کاغذ باد گر گیا قاصد
میر تقی میر

اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

دیوان اول غزل 144
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بائو نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ باد صبح کہ آکر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما ومن کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
میر تقی میر

مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا

دیوان اول غزل 135
صحرا میں سیل اشک مرا جابجا پھرا
مجنوں بھی اس کی موج میں مدت بہا پھرا
طالع جو خوب تھے نہ ہوا جاہ کچھ نصیب
سر پر مرے کڑوڑ برس تک ہما پھرا
آنکھیں برنگ نقش قدم ہو گئیں سفید
نامے کے انتظار میں قاصد بھلا پھرا
ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تونے کی نگاہ
اک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا
دیر و حرم میں کیونکے قدم رکھ سکے گا میر
ایدھر تو اس سے بت پھرے اودھر خدا پھرا
میر تقی میر

مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا

دیوان اول غزل 89
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا
تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہو گا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہو گا
کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہو گا
قلم ہاتھ آگئی ہو گی تو سو سو خط لکھا ہو گا
دکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی
جو تو بازار میں ہو گا تو یوسف کب بکا ہو گا
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا
خیال اس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سے آشنا ہو گا
قیامت کرکے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت
وہ اس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہو گا
عجب کیا ہے ہلاک عشق میں فرہاد و مجنوں کے
محبت روگ ہے کوئی کہ کم اس سے جیا ہو گا
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا
بہت ہمسائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہو گا
نہیں جز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اس کے
قفس سے تن کے مرغ روح میرا جب رہا ہو گا
کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہو گا
میر تقی میر

جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا

دیوان اول غزل 79
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا
یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت
زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا
تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا
میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی
آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے جا رہے گا
غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے
بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا
مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی
گو سر کو کھورہے گا پر اس کو پا رہے گا
عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گذری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر
بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا
کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قید حیات میں ہے تو میر آرہے گا
میر تقی میر

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 30
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
فیض احمد فیض

اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 313
نرم جھونکے سے یہ اِک زَخم سا کیا لگتا ہے
اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے
ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی
سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے
وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامانِ دُعا لگتا ہے
اَے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اَپنے منظر ہی میں ہر رَنگ بھلا لگتا ہے
ایسی بے رَنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دُنیا
پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے
دیکھنے والو! مجھے اُس سے الگ مت جانو
یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے
زَرد دَھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی
جیسے اک خیمہ سرِ دشت بلا لگتا ہے
عرفان صدیقی

منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 157
کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد
منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد
رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا
آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد
یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا
کوزہ گر چاک پہ کیا تو نے رکھا میرے بعد
"کون پھر ہو گا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟”
کون دنیا کے لیے قبلہ نما میرے بعد
لڑکھڑاتی ہوئی گلیوں میں پھرے گی تقویم
وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد
میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر
کم نہیں میرا کیا اس نے گلہ میرے بعد
میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں
اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد
دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھا لائی ہے
اب نہیں ہو گا کوئی آبلہ پا میرے بعد
تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید
سالہا سال تلک شام سیہ میرے بعد
گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر
ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد
بعد از میر تھا میں میرِ سخن اے تشبیب
’کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد‘
رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا
اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد
رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر
کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد
بزم سجتی ہی نہیں اب کہیں اہلِ دل کی
صاحبِ حال ہوئے اہل جفا میرے بعد
پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی
سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد
پہلے تو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس کئی مجنوں تھے
خاک ہو جائے گا یہ دشتِ وفا میرے بعد
بس یہی درد لیے جاتا ہوں دل میں اپنے
وہ دکھائے گی کسے ناز و ادا میرے بعد
جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے
جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد
زندگی کرنے کا بس اتنا صلہ کافی ہے
جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد
اس کو صحرا سے نہیں میرے جنون سے کد تھی
دشت میں جا کے برستی ہے گھٹا میرے بعد
میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہو گی
شکریہ ! کرنا یہی بات ذرا میرے بعد
میں ہی موجود ہوا کرتا تھا اُس جانب بھی
وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد
میرا بھی سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر
کیسا سجدہ تھا… ہوا پھر نہ ادا میرے بعد
کاٹنے والے کہاں ہو گی یہ تیری مسند
یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد
پہلے تو ہوتی تھی مجھ پر یہ مری بزم تمام
کون اب ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد
میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن
کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد
میں بھی کر لوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے
زخم تیرا بھی نہیں ہو گا ہرا میرے بعد
تیری راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو
کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد
شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے
کیسی ہے محفلِ آشفتہ سرا میرے بعد
میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے
اس نے پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد
عشق رکھ آیا تھا کیا دار و رسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد
منصور آفاق

عظمت عشق بڑھا دی ہم نے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 219
رسم سجدہ بھی اٹھا دی ہم نے
عظمت عشق بڑھا دی ہم نے
جب کوئی تازہ شگوفہ پھوٹا
کی گلستاں میں منادی ہم نے
آنچ صیاد کے گھر تک پہنچی
اتنی شعلوں کو ہوا دی ہم نے
جب چمن میں نہ کہیں چین ملا
در زنداں پہ صدا دی ہم نے
دل کو آنے لگا بسنے کا خیال
آگ جب گھر کو لگا دی ہم نے
اس قدر تلخ تھی روداد حیات
یاد آتے ہی بھلا دی ہم نے
حال جب پوچھا کسی نے باقیؔ
اک غزل اپنی سنا دی ہم نے
باقی صدیقی

دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 143
وقف رستے میں کھڑا ہے کہ نہیں
دل سے اب پوچھ خدا ہے کہ نہیں
صحبت شیشہ گراں سے انکار
سنگ آئنہ بنا ہے کہ نہیں
ہر کرن وقت سحر کہتی ہے
روزن دل کوئی وا ہے کہ نہیں
رنگ ہر بات میں بھرنے والو
قصہ کچھ آگے بڑھا ہے کہ نہیں
زندگی جرم بنی جاتی ہے
جرم کی کوئی سزا ہے کہ نہیں
دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
زخم دل منزل جاں تک آئے
سنگ رہ ساتھ چلا ہے کہ نہیں
کھو گئے راہ کے سناٹے میں
اب کوئی دل کی صدا ہے کہ نہیں
ہم ترسنے لگے بوئے گل کو
کہیں گلشن میں صبا ہے کہ نہیں
حکم حاکم ہے کہ خاموش رہو
بولو اب کوئی گلہ ہے کہ نہیں
چپ تو ہو جاتے ہیں لیکن باقیؔ
اس میں بھی اپنا بھلا ہے کہ نہیں
باقی صدیقی

انے نقش کف پا کیا دیکھیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 119
زندگی دل کا سکوں چاہتی ہے
رونق شہر سبا کیا دیکھیں
کھوکھلے قہقہے پھیکی باتیں
زیست کو زیست نما کیا دیکھیں
زخم آواز ہی آئینہ ہے
صورت نغمہ سرا کیا دیکھیں
قہر دریا کا تقاضا معلوم
ہم حبابوں کے سوا کیا دیکھیں
سانس کلیوں کا رکا جاتا ہے
شوخی موج صبا کیا دیکھیں
دل ہے دیوار، نظر ہے پردہ
دیکھنے والے بھلا کیا دیکھیں
ایک عالم ہے غبار آلودہ
جانے والے کی ادا کیا دیکھیں
زندگی بھاگ رہی ہے باقیؔ
شوق کو آبلہ پا کیا دیکھیں
باقی صدیقی