ٹیگ کے محفوظات: بھر

درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسی سے ہو نہ سکا جو، وہ کر کے دیکھتے ہیں
درونِ گردشِ دوراں ٹھہر کے دیکھتے ہیں
پرندے میرے گلستاں کو ڈر کے دیکھتے ہیں
بُریدہ بازو وہ جب ہر شجر کے دیکھتے ہیں
یہ مدّ و جذر مرے دل کا تیری دید سے ہے
قمر کو جیسے سمندر بپھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایک جہاں رفتگاں کی منزل ہے
وہ چل بسا، تو اسے آؤ مر کے دیکھتے ہیں
حیات کیا ہے؟ پہر دو پہر کا میلہ ہے
تماشے آؤ پہر دو پہر کے دیکھتے ہیں
بسر کیا ہے ہمیں جس حیات نے اب تک
اسی حیات کو اب ہم بسر کے دیکھتے ہیں
نہ آسمان ملا ہم کو آنکھ بھر یاؔور
اسی لیے ہم اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
یاور ماجد

ایک ہی نظم عمر بھر لکھی

خود قلم بن کے، ٹوٹ کر لکھی
ایک ہی نظم عمر بھر لکھی
اس نے قسمت میں کب سحر لکھی
لکھ بھی دی گر، تو مختصر لکھی
لکھی تقدیر میری بے اعراب
اور نقطے بھی چھوڑ کر لکھی
میرے قرطاسِ عمر پر اُس نے
ہر کٹھن رَہ، سفر سفر لکھی
کیا وہ مانیں گے داستاں تیری؟
دوسرے رُخ سے میَں نے گر لکھی
دیکھنا تو کرن نے سورج کی
بہتے پانی پہ کیا خبر لکھی
مُصحفِ شب پہ ایک دن یاؔور
پڑھ ہی لوں گا کبھی سحر لکھی
یاور ماجد

وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا

مرے خلوص کی شدّت سے کوئی ڈر بھی گیا
وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا
یہ دیکھنا تھا: بچانے بھی کوئی آتا ہے!
اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود اُبھر بھی گیا
اے راستے کے درختو! سمیٹ لو سایہ
تمھارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا
کسی طرح سے تمھاری جبیں چمک تو گئی
یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا
اِسی پہاڑ نے پُھونکے تھے کیا کئی جنگل
جو خاک ہوکے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا
یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے
وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا
وہ شاخ جُھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے
شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا
شکیب جلالی

رات تو کٹ گئی‘ درد کی سیج پر

اب یہ ویران دن‘ کیسے ہو گا بسر
رات تو کٹ گئی‘ درد کی سیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہ گزر
دوست! اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہُوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں
کتنے ارزاں ہوئے آنسوؤں کے گُہر
یہ شکستہ قدم بھی ترے ساتھ تھے
اے زمانے ٹھہر! اے زمانے ٹھہر!
اپنے غم پر تبسّم کا پردہ نہ ڈال
دوست! ہم ہیں سوار ایک ہی ناؤ پر
شکیب جلالی

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے
جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے
مُرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مرمر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے
کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے
آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھم تھا جو بھی نقش، اجاگر لگا مجھے
یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی
سورج اگر ہے ، کرنوں کی جھالر لگا مجھے
صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے
میں نے ا سے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے
شکیب جلالی

صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھیے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کے ساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
شکیب جلالی

چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے
چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن
مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے
بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں
حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی
جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا
یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے
زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں
یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے
عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں
آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے
عرفان ستار

آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
آشوبِ آگہی میں گماں کی بساط کیا
وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے
میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا
کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے
اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا
سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے
جشنِ بہارِ نو کا ہُوا اہتمام جب
ہم ایسے چند لوگ بہ مژگانِ تر گئے
دل سا مکان چھوڑ کے دنیا کی سمت ہم
اچھا تو تھا یہی کہ نہ جاتے، مگر گئے
تنہا ہی کر گئی یہ بدلتی ہوئی سرشت
سب دل میں رہنے والے ہی دل سے اتر گئے
اب کچھ نہیں کریں گے خلافِ مزاج ہم
اکثر یہ خود سے وعدہ کیا، پھر مُکر گئے
اچھے دنوں کے میرے رفیقانِخوش دلی
اس بے دلی کے دور میں جانے کدھر گئے
اس عہد_ بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
عرفان اب سناؤ گے جا کر کسے غزل
وہ صاحبانِ ذوق، وہ اہلِ نظر گئے
عرفان ستار

کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں

کتنی زندہ یادیں لے کر، رات کو بستر پر جاتے ہیں
کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں
کوی رنج نہیں ہوتا ہے، کوی آہ نہیں اٹھتی ہے
اب دل سے یادوں کے لشکر یوں چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جتنے بھی ہیں کام ضروری، سارے عجلت میں نمٹا لو
اوروں کے دکھ سہنے والے، اکثر جلدی مر جاتے ہیں
بھاگم بھاگ یہ ساری خلقت، جانے کس جانب جاتی ہے
میں بس پوچھتا رہ جاتا ہوں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
ایسے حال میں ناممکن ہے، کوءی چیز ٹھکانے سے ہو
آنکھ میں خون اتر آتا ہے، دل میں آنسو بھر جاتے ہیں
اور بتاو اس کے علاوہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے
تم بھی اپنے گھر جاتے ہو، ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
دنیا میں ساری بربادی، اہلِ خرد نے پھیلای ہے
لیکن سب الزام ہمیشہ، اہلِ جنوں کے سر جاتے ہیں
کبھی کبھار جو یاد آجاءے، اپنا یوں بے مصرف ہونا
کچھ دن بے چینی رہتی ہے، پھر کچھ سال گزر جاتے ہیں
تار و پود بکھر جاتے ہیں، ٹکڑے چننے کے چکر میں
ٹکڑے چننے کے چکر میں، تار و پود بکھر جاتے ہیں
ہجر کی ساعت آخری دم تک، عمر کے ساتھ سفر کرتی ہے
وصل کے لمحے آناً فاناً، وقت کے پار اتر جاتے ہیں
تم عرفان کی فکر نہ کرنا، اس کی بات بنی رہتی ہے
آتی آفت ٹل جاتی ہے، بگڑے کام سنور جاتے ہیں
عرفان ستار

ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

جس دن سے اُس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں
ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں
بکھرا ہوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر
اب تیری جستجو کو میسر نہیں ہوں میں
یہ عمر اک سراب ہے صحرائے ذات کا
موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں
گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی
تُو مجھ پہ رکھ نظر کہ مکرر نہیں ہوں میں
ہوں اُس کی بزمِ ناز میں مانندِ ذکرِ غیر
وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں
تُو جب طلب کرے گا مجھے بہرِ التفات
اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں
ہے بامِ اوج پر یہ مری تمکنت مگر
تیرے تصرفات سے باہر نہیں ہوں میں
میں ہوں ترے تصورِ تخلیق کا جواز
اپنے کسی خیال کا پیکر نہیں ہوں میں
کر دے سلوکِ جاں سے معطر مشامِ جاں
چُھو لے مجھے کہ خواب کا منظر نہیں ہوں میں
عرفانؔ خوش عقیدگی اپنی جگہ مگر
غالبؔ کی خاکِ پا کے برابر نہیں ہوں میں
عرفان ستار

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو
یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو
ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے
جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو
میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو
ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو
میں بھی دکھاؤں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو
اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا

گو دِل شکستگی کا اثر تَو نہیں گیا
میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا
تا حَشر دیکھ بھال کی ایک ایک زَخم کی
دَھڑکا لگا رَہا کہیِں بَھر تَو نہیں گیا
وحشَت کی لاج رَکّھی ہے میں نے تمام عُمر
کیا کیا نَہ خاک اُڑائی پَہ گھر تَو نہیں گیا
رَستے میں کوئی چاک گریباں نہیں مِلا
لینا خَبَر کہیِں وہ سُدَھر تَو نہیں گیا
حُسنِ بُتاں ! یہ واقفِ خُوئے بُتاں بھی ہے
دِل پُوچھتا رَہا میں اُدَھر تَو نہیں گیا
آواز کس طرح کی یہ سینے سے آئی ہے
ضامنؔ! دِلِ شکستہ بِکھر تَو نہیں گیا
ضامن جعفری

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ

دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ
سنگِ منزل سے کیوں نہ سر پھوڑوں
حاصلِ زحمتِ سفر ہے یہ
رنجِ غربت کے ناز اُٹھاتا ہوں
میں ہوں اب اور دردِ سر ہے یہ
ابھی رستوں کی دُھوپ چھاؤں نہ دیکھ
ہمسفر دُور کا سفر ہے یہ
دِن نکلنے میں کوئی دیر نہیں
ہم نہ سو جائیں اب تو ڈر ہے یہ
کچھ نئے لوگ آنے والے ہیں
گرم اب شہر میں خبر ہے یہ
اب کوئی کام بھی کریں ناصر
رونا دھونا تو عمر بھر ہے یہ
ناصر کاظمی

یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر

کہیں اُجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنھیں زِندگی کا شعور تھا اُنہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینہِ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو
تمھیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اُسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا کہ آج اندھیر ہے ذرا رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بر
ناصر کاظمی

سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تری یادیں

چھپ جاتی ہیں آئینہ دِکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تری یادیں
تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تری یادیں
میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں
پھرتی ہیں تصوّر میں کھلے سر تری یادیں
جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تری یادیں
ناصر کاظمی

نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو

دل بھی عجب عالم ہے نظر بھر کے تو دیکھو
نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو
اے دیدہ ور و دیدئہ پرنم کی طرف بھی
مشتاق ہو لعل و زر و گوہر کے تو دیکھو
بے زادِ سفر جیب تہی شہر نوردی
یوں میری طرح عمر کے دِن بھر کے تو دیکھو
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو
ناصر کاظمی

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اُداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اُتر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی

گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستان میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اُتر کے مجھے
پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
ناصر کاظمی

اِس میں لگ جائے گا جگر پورا

چاہتے ہو اگر ہنر پورا
اِس میں لگ جائے گا جگر پورا
یا تو ہو جائیں اِس میں پورے غرق
یا کریں عشق سے حذر پورا
جانتا ہوں کہ خیر خواہ ترے
تجھ کو رکھتے ہیں باخبر پورا
مشورہ اُس مشیر سے مت کر
ہو جو آدھا اِدھر اُدھر پورا
پھول خوشبو سے بھر گئے باصِرؔ
چاند چمکا ہے رات بھر پورا
باصر کاظمی

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب

کرتے نہ ہم جو اہلِ وطن اپنا گھر خراب
ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب
اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے
اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب
اک بار جو اتر گیا پٹٹری سے دوستو
دیکھا یہی کہ پھر وہ ہوا عمر بھر خراب
منزل تو اک طرف رہی اتنا ضرور ہے
اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب
ہوتی نہیں وہ پوری طرح پھر کبھی بھی ٹھیک
ہو جائے ایک بار کوئی چیز گر خراب
اے دل مجھے پتہ ہے کہ لایا ہے تو کہاں
چل خود بھی اب خراب ہو مجھ کو بھی کر خراب
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب
اک دن بھی آشیاں میں نہ گزرا سکون سے
کرتے رہے ہیں مجھ کو مرے بال و پر خراب
رہ رہ کے یاد آتی ہے استاد کی یہ بات
کرتی ہے آرزوئے کمالِ ہنر خراب
اِس تیرہ خاکداں کے لیے کیا بِلا سبب
صدیوں سے ہو رہے ہیں یہ شمس و قمر خراب
لگتا ہے اِن کو زنگ کسی اور رنگ کا
کس نے کہا کہ ہوتے نہیں سیم و زر خراب
اک قدر داں ملا تو یہ سوچا کہ آج تک
ہوتے رہے کہاں مرے لعل و گہر خراب
خاموش اور اداس ہو باصرؔ جو صبح سے
آئی ہے آج پھر کوئی گھرسے خبر خراب
باصر کاظمی

کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا

ہم جیسے تیغِ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سَر بھی گئے تو کیا
اُٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عُمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا
ہیں کونسا بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا
ہم تو اِسی طرح سے پھریں گے خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اُتر بھی گئے تو کیا
باصِرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو پڑے رہو مَر بھی گئے تو کیا
باصر کاظمی

ایک اک لمحے کی خبر رکھو

وقت کی راہ پر نظر رکھو
ایک اک لمحے کی خبر رکھو
یہ کہیں اور کام آئیں گے
آنسوؤں کو سنبھال کر رکھو
آج تو وہ ضرور آئے گا
یہ پیالے ابھی سے بھر رکھو
ہم بھی آہوں کو روک لیں اپنی
تم بھی دل میں کسی کا ڈر رکھو
ساتھ ہم بھی چلیں اگر باصرِؔ
چاندنی رات میں سفر رکھو
باصر کاظمی

وُہ کہ اوروں کو میّسرہے،مجھے کیونکر نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
اب خُدا سے بھی مجھے کہنے میں یہ، کُچھ ڈر نہیں
وُہ کہ اوروں کو میّسرہے،مجھے کیونکر نہیں
نیّتیں بھی جب نہیں ہیں صاف، نظریں بھی علیل
کب یہ مانیں ہم کہ خرمن میں کوئی اخگر نہیں
جانے کیا ہے جو بھی رُت بدلے رہے رنگ ایک سا
حال جو پہلے تھا،اُس سے اب بھی کُچھ بہتر نہیں
بس فقط اُلٹا ہے تختہ اور کُچھ جانیں گئیں
بہرِ غاصب،فرق یُوں ہونے میں ذرّہ بھر نہیں
بچپنے سے رگ بہ رگ تھا جو رچاؤ لُطف کا
دیس کے اندر بہت ہے،دیس سے باہر نہیں
آخرش ایسا ہی ماجِد ہر کہیں ہو گا رقم
تُم نے اپنا نام کب لکّھا بہ آبِ زر نہیں
ماجد صدیقی

قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
ہُوا ہے درپئے جاں اَب تو ہر سفر جیسے
قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے
سُجھا رہی ہیں یہی نامرادیاں اپنی
رہیں گے آنکھ میں کنکر یہ عمر بھر جیسے
سفر میں ہُوں پہ وُہ خدشات ہیں کہ لگتا ہے
جھُلس رہا ہو سرِ راہ ہر نگر جیسے
کہیں تو بات بھلا دل کی جا کے کس سے کہیں
بچھڑ کے رہ گئے سارے ہی ہم نظر جیسے
لپک رہا ہوں مسلسل مگر نہ ہاتھ آئے
کٹی پتنگ ہو اُمید کی سحر جیسے
دہن دہن سے زباں جھڑ گئی ہے یُوں ماجدؔ
خزاں کے دور میں بے برگ ہوں شجر جیسے
ماجد صدیقی

کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
راحتوں کی صورت بھی بس یہی نظر آئے
کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے
ہے یہی بساط اپنی نام پر خداؤں کے
معبدوں میں جا نکلے، جا کے آہ بھر آئے
یہ بھی دن دکھا ڈالے حُسن کی اداؤں نے
پھوُل تک سے وحشت ہو چاند تک سے ڈر آئے
ہم سے بھی کوئی پوچھے کُچھ دلوں کی ویرانی
گھوم پھر کے ہم بھی تو ہیں نگر نگر آئے
یوں تو آٹھ پہروں میں نت ہی دن چڑھے ماجدؔ
جس طرح کی ہم چاہیں جانے کب سحر آئے
ماجد صدیقی

سسکنے لگے پھر شجر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 106
جھڑے مثلِ خس، برگ و بر دیکھنا
سسکنے لگے پھر شجر دیکھنا
فضائے مقاصد کی وسعت اُدھر
اِدھر مُشت بھر بال و پر دیکھنا
خراشوں پہ اِس کی بھی کرنا نظر
یہ دل بھی مرے شیشہ گر دیکھنا
یہی آج کا جام جمشید ہے
ذرا جانبِ چشمِ تر دیکھنا
اُبھرنا وہ اس چاند کا اور وہ
بسوئے اُفق رات بھر دیکھنا
شگفتِ نظر جس کا آغاز ہے
یہ موسم کبھی اَوج پر دیکھنا
کہو کیوں جنوں ہے یہ ماجدؔ تمہیں
جِسے دیکھنا باہُنر دیکھنا
ماجد صدیقی

تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قفس دیکھئے بال و پر دیکھئے
تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے
ذرا میری صورت تو پہچانیۓ
ذرا میرے دیوار و در دیکھئے
اُدھر دیکھئے اُن کے جور و ستم
اِدھر آپ میرا جگر دیکھئے
جو مدّت سے ماجدؔ مرے دل میں ہے
وہی خامشی در بہ در دیکھئے
ماجد صدیقی

پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کوئی بستی نہ دیوار و در سامنے
پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے
اپنی جانب لپکتے قدم دیکھ کر
مُسکراتے ہیں گل شاخ پر سامنے
یاد میں تھیں صبا کی سی اٹکھیلیاں
جانے کیا کچھ رہا رات بھر سامنے
زندگی ہے کہ آلام کی گرد سے
ہانپتی ہے کوئی راہگزر سامنے
رات تھی جیسے جنگل کا تنہا سفر
چونک اُٹھے جو دیکھی سحر سامنے
آئنے ہیں مقابل جِدھر دیکھیے
اپنی صورت ہے با چشمِ ترا سامنے
ہم ہیں ماجدؔ سُلگتے دئیے رات کے
بُجھ گئے بھی تو ہو گی سحر سامنے
ماجد صدیقی

وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 114
اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مرے دل کو بھی پتھّر کر دے
صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے
مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے
شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
احمد فراز

تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 75
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
احمد فراز

جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول

احمد فراز ۔ غزل نمبر 40
آنسو نہ روک دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے کمر نہ کھول
عیسیٰ نہ بن کہ اس کا مقدر صلیب ہے
انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول
امکاں میں ہے تو بند و سلاسل پہن کے چل
یہ حوصلہ نہیں ہے تو زنداں کے در نہ کھول
میری یہی بساط کہ فریاد ہی کروں
تو چاہتا نہیں ہے تو بابِ اثر نہ کھول
تُو آئینہ فروش و خریدار کور چشم
اس شہر میں فراز دکانِ ہنر نہ کھول
احمد فراز

مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 20
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا
کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
احمد فراز

یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 14
جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا
یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا
میں برف برف رُتوں میں چلا تو اس نے کہا
پلٹ کے آنا تو کشتی میں دھوپ بھر لانا
بھلی لگی ہمیں خوش قامتی کسی کی مگر
نصیب میں کہاں اس سرو کا ثمر لانا
پیام کیسا مگر ہو سکے تو اے قاصد
کبھی کوئی خبر یارِ بے خبر لانا
فراز اب کے جب آؤ دیارِ جاناں میں
بجائے تحفۂ دل ارمغانِ سر لانا
احمد فراز

چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 102
خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے
چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن
مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے
بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں
حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی
جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا
یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے
زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں
یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے
عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں
آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے
عرفان ستار

ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 39
جس دن سے اُس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں
ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں
بکھرا ہوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر
اب تیری جستجو کو میسر نہیں ہوں میں
یہ عمر اک سراب ہے صحرائے ذات کا
موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں
گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی
تُو مجھ پہ رکھ نظر کہ مکرر نہیں ہوں میں
ہوں اُس کی بزمِ ناز میں مانندِ ذکرِ غیر
وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں
تُو جب طلب کرے گا مجھے بہرِ التفات
اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں
ہے بامِ اوج پر یہ مری تمکنت مگر
تیرے تصرفات سے باہر نہیں ہوں میں
میں ہوں ترے تصورِ تخلیق کا جواز
اپنے کسی خیال کا پیکر نہیں ہوں میں
کر دے سلوکِ جاں سے معطر مشامِ جاں
چُھو لے مجھے کہ خواب کا منظر نہیں ہوں میں
عرفانؔ خوش عقیدگی اپنی جگہ مگر
غالبؔ کی خاکِ پا کے برابر نہیں ہوں میں
عرفان ستار

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 24
اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو
یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو
ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے
جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو
میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو
ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو
میں بھی دکھائوں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو
اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 3
پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 91
خوشبو ہے وہ تو چُھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے
خود پُھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا
چوری تمام رنگ کی ، تتلی کے سر نہ جائے
ایسا نہ ہو کہ لمس بدن کی سزا بنے
جی پُھول کا ، ہَوا کی محبت سے بھر نہ جائے
اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے،یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے
شدّت کی نفرتوں میں سدا جس نے سانس لی
شدّت کا پیار پاکے خلا میں بکھر نہ جائے
اُس وقت تک کناروں سے ندّی چڑھی رہے
جب تک سمندر کے بدن میں اُتر نہ جائے
پلکوں کو اُس کی ، اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر کی گردِ سفر نہ جائے
میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دُعا
قاصد، ہوا،ستارہ کوئی اُس کے گھر نہ جائے
پروین شاکر

خود کو خوشبو میں سمو کر دیکھوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 52
حلقہ ءِ رنگ سے باہر نکلوں
خود کو خوشبو میں سمو کر دیکھوں
اُس کو بینائی کے اندر دیکھوں
عمر بھر دیکھوں کہ پل بھر دیکھوں
کس کی نیندوں کے چُرا لائی رنگ
موجہ ءِ زُلف کو چُھو کر دیکھوں
زرد برگد کے اکیلے پن میں
اپنی تنہائی کے منظر دیکھوں
موت کا ذائقہ لکھنے کے لیے
چند لمحوں کو ذرا مَر دیکھوں
پروین شاکر

میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 18
آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا
رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا
صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا
اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہو گے
مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا
خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا
تُونے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کُچھ تو کہہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا
پروین شاکر

سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 144
ان کے جاتے ہی وحشت کا اثر دیکھا کیے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے
دل کو وہ کیا دیکھتے سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
ان کی محفل میں انھیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لیئے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کیے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کیے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کیے اور ہم ادھر دیکھا کیے
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھئے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کیے
رات بھر تڑپا کیا ہے دردِ فرقت سے قمر
پوچھ تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کیے
قمر جلالوی

کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 123
یوں تمھارے ناتوان منزل بھر چلے
کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے
چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے
دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے
ہو گیا صیاد برہم ہے اے اسیرانِ قفس
بند اب یہ نالہ و فریاد، ورنہ پر چلے
کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ
تھک گئے جب پاؤں ترا نام لے لے کر چلے
آ رہے ہیں اشک آنکھوں میں اب اے ساقی نہ چھیڑ
بس چھلکنے کی کسر باقی ہے ساغر بھر چلے
جب بھی خالی ہاتھ تھے اور اب بھی خالی ہاتھ ہیں
لے کے کیا آئے تھے اور لے کر کیا چلے
حسن کو غم گین دیکھے عشق یہ ممکن نہیں
روک لے اے شمع آنسو اب پتنگے مر چلے
اس طرف بھی اک نظر ہم بھی کھڑے ہیں دیر سے
مانگنے والے تمھارے در سے جھولی بھر چلے
اے قمر شب ختم ہونے کو ہے انتظار
ساحلِ شب سے ستارے بھی کنارہ کر چلے
قمر جلالوی

کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 67
دل کو خبر نہیں ہے اور درد ہے جگر میں
ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں
اتنا سبک نہ کیجئے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
رسوائیوں کا ڈر بھی میری قضا کا غم ہے
میت سے کچھ الگ ہیں آنسو ہیں چشمِ تر میں
حالانکہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن
اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں
دیکھا جو صبح فرقت اترا سا منہ قمر کا
بولے کہ ہو گیا ہے کیا حال رات بھر میں
قمر جلالوی

جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 31
آنسو کسی کا دیکھ کہ بیمار مر گیا
جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا
چھوڑو وفا کا نام وفادار مر گیا
تم جس ہوا میں ہو وہ زمانہ بدل گیا
صیاد دیکھ لی کششِ موش بہار کی
اڑ اڑ کے باغ میں مرا ایک ایک پر گیا
دیکھا نہ تم نے آنک اٹھا کر بزم میں
آنسو تو میں نے تھا نظر سے اتر گیا
وقت آگیا ہے یار کے وعدے کا اے قمر
دیکھو وہ آسمان ستاروں سے بھر گیا
قمر جلالوی

کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 12
کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا
ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی
اکھٹا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا
یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دمِ آخر علاجِ سوزِ غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشاناتِ جبیں جوشِ عقیدت خود بتائیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگِ در اپنا
جوابِ خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتہ میری بجائے نامہ بر اپنا
مجھ اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیر نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
قمر ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہو نے تک
شبِ وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
قمر جلالوی

طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 72
مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
تزئین میری گور کی لازم ہے خوب سی
تقریبِ سیر ہی سے وہ شاید گزر کریں
اب ایک اشک ہے دُرِ نایاب، وہ کہاں
تارِ نظر جو گریہ سے سلکِ گہر کریں
وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا
نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر کریں
آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج
مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں
ہے جی میں سونگھیں نکہتِ گل جا کے باغ میں
بس کب تک التجائے نسیمِ سحر کریں
اب کے ارادہ ملکِ عدم کا ہے شیفتہ
گھبرا گئے کہ ایک جگہ کیا بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
مصطفٰی خان شیفتہ

رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 58
کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ
کیا لطفِ آہ، صبحِ شبِ ہجرِ مہروش
کیا فائدہ جو کیجئے روشن سحر چراغ
پروانہ گر نہ جائے تو بے جا ہے لافِ عشق
روشن ہے میرے نالوں سے افلاک پر چراغ
حربا کرے طریقۂ پروانہ اختیار
اُس تابِ رخ سے کیجئے روشن اگر چراغ
پروانہ ہو گیا ہے رقیبِ کتاں کہ ہے
اُس مہر وش کے جلوے کے آگے قمر چراغ
گستاخیوں کی تاب کسے اس کی بزم میں
بے باکیِ نسیم سے ہرگز نہ ڈر چراغ
ہے شمعِ انجمن وہ مہِ آتشیں عذار
گھی کے جلیں گے آج تو دشمن کے گھر چراغ
کرتا ہوں فکرِ شعر جو میں شب کو شیفتہ
رہتا ہے خواب گہ میں مری رات بھر چراغ
مصطفٰی خان شیفتہ

وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 27
قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
وعدہ کس شخص کا اور وہ بھی نہایت کچا
ہم بھی کیا خوب ہیں، سچ مچ ہمیں باور آیا
مجھ سے وہ صلح کو اس شان سے آئے گویا
جنگ کے واسطے دارا سے سکندر آیا
جذبۂ شوق کی تاثیر اسے کہتے ہیں
سن کے قاصد کی خبر آپ وہ در پر آیا
خاک ہونے کا مرے ذکر نہ آیا ہو کہیں
آج اس بزم سے کچھ غیر مکدر آیا
اڑ گئے ہوش کہ پیغامِ اجل ہے یہ جواب
کوچۂ یار سے زخمی جو کبوتر آیا
دلِ صد چاک میں ہے کاکلِ مشکیں کا خیال
کہ مجھے گریہ جو آیا تو معطر آیا
اے اجل نیم نگہ کی تو مجھے مہلت دے
اہلِ ماتم میں یہ چرچا ہے کہ دلبر آیا
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا
یہ دیا ہائے مجھے لذتِ آزار نے چین
دل ہوا رنج سے خالی بھی تو جی بھر آیا
آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئے گی
شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستم گر آیا
مصطفٰی خان شیفتہ

وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 23
خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا
وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا
مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کی توبہ
لے لیا دوڑ کے جب سامنے ساغر آیا
غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا
سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک
ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا
داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے لیا عشق میں جو ہم کو میسر آیا
عشق تاثیر ہی کرتا ہے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہی جی بھر آیا
اس قدر شاد ہوں گویا کہ ملی ہفت اقلیم
آئینہ ہاتھ میں آیا کہ سکندر آیا
وصل میں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک دیکھ تو یہ کون مرے گھر آیا
راہ میں وعدہ کریں جاؤں میں گھر پر تو کہیں
کون ہے، کس نے بلایا اسے، کیونکر آیا
داغ کے نام سے نفرت ہے، وہ جل جاتے ہیں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آیا
داغ دہلوی

میں نے خود سے نباہ کر لی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 229
آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زُلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزاروگے
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا
میں نے بس ہاتھ میں سِپر لی ہے
جو بھی مانگو اُدھار دوں گا میں
اُس گلی میں دکان کر لی ہے
میرا کشکول کب سے خالی تھا
میں نے اُس میں شراب بھر لی ہے
اور تو کچھ نہیں کیا میں نے
اپنی حالت تباہ کر لی ہے
شیخ آیا تھا محتسب کو لئے
میں نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے
جون ایلیا

وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 180
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
جدائی نے اُسے دیکھا سرِبام
دریچے پر شفق کے رنگ برسے
میںِاس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اُتارے کون اب دیوار پر سے
گلہ ہے ایک گلی سے شہرِدل کی
میں لڑتاِپھر رہا ہوں شہر بھر سے
اسے دیکھے زمانے بھر کا یہ چاند
ہماری چاندنی سائے کو ترسے
میرے مانند گذرا کر میری جان
کبھی تو خود بھی اپنی رہگزر سے
جون ایلیا

کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 159
حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے
کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے
عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز
بہ سوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے
کبھی گئے تھے میاں جو خبر کو صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے
کوئی جنوں نہیں سودائیانِ صحرا کو
کہ جو عزاب بھی آئے وہ شہر پر آئے
بتاؤ دام گرو چاہیے تمہیں اب کیا
پرندگانِ ہوا خاک پر اُتر آئے
عجب خلوص سے رخصت کیا گیا ہم کو
خیالِ خام کا ناوان تھا سو بھر آئے
جون ایلیا

تجھ زبانی تری خبر چاہوں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 94
خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں
تجھ زبانی تری خبر چاہوں
میں تجھے اور تو ہے کیا کیا کچھ
ہوں اکیلا پہ رات بھر چاہوں
مجھ سے میرا سراغ کیوں کہ یہ کام
میں ترے نقشِ پا کہ سر چاہوں
خونِ گرم اپنا پارچے اپنے
میں خود اپنی ہی میز پر چاہوں
ہیں بیاباں مری درازوں میں
کیوں بگولے برہنہ سر چاہوں
مجھ کو گہرائی میں اترنا ہے
پر میں گہرائی سطح پر چاہوں
اک نظر ڈالنی ہے منظر پر
کہکشائیں کمر کمر چاہوں
ضد ہے زخموں میں بیر جذبوں میں
میں کئی دل کئی جگر چاہوں
اب تو اس سوچ میں ہوں سرگرداں
کیا میں چاہوں بھلا اگر چاہوں
جون ایلیا

تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 79
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بستر نہ رہیو
ہر ایک حالت کے بیری میں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھہرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
جون ایلیا

سارا نشہ اُتر گیا جانم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 55
دل تمنا سے ڈر گیا جانم
سارا نشہ اُتر گیا جانم
اک پلک بیچ رشتہء جاں سے
ہر زمانہ گزر گیا جانم
تھا غضب فیصلے کا اِک لمحہ
کون پھر اپنے گھرگیا جانم
جانے کیسی ہوا چلی اک بار
دل کا دفتر بِکھر گیا جانم
اپنی خواب و خیال دنیا کو
کون برباد کر گیا جانم
تھی ستم ہجر کی مسیحائی
آخرش زخم بھر گیا جانم
اب بَھلا کیا رہا ہے کہنے کو
یعنی میں بے اثر گیا جانم
نہ رہا دل نہ داستاں دل کی
اب تو سب کچھ بسر گیا جانم
زہر تھا اپنے طور سے جینا
کوئی اِک تھا جو مر گیا جانم
جون ایلیا

اور چاروں طرف ہے گھر درپیش

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 53
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش
دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
میں رہا خود کو عمر بھر درپیش
اب میں کوئے عبث شتاب چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش
اس کے دیدار کی امید کہاں
جبکہ ہے دید کو نظر درپیش
اب مری جاں بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش
کس طرح کوچ پر کمر باندھوں
ایک رہزن کی ہے کمر درپیش
خلوتِ ناز اور آئینہ
خود نگر کو ہے ،خود نگر درپیش
جون ایلیا

وقت پہلے گزر گیا ہو گا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 22
آدمی وقت پر گیا ہو گا
وقت پہلے گزر گیا ہو گا
خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہو گا
شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہو گا
مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہو گا
جون ایلیا

کوئی صورت نظر نہیں آتی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 191
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ھے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا اسد اللہ خان غالب

میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے

دیوان ششم غزل 1908
کیا عشق بے محابا ستھرائو کر رہا ہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
غیرت سے دلبری کی ڈر چاندنی نہ دیکھی
مہتابی ہی رخ اس کا پیش نظر رہا ہے
خوں ریز ناتواں میں اتنا نہ کوئی بولا
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
پائیز کب کرے ہے افسردہ خستہ اتنا
تو بھی جدا کسو سے اے گل مگر رہا ہے
خجلت سے آج کل کیا ان نے کیا کنارہ
دریا ہمیشہ میرے گریے سے تر رہا ہے
میں اک نگاہ گاہے خوش رو کوئی نہ دیکھا
الفت رہی ہے جس سے اس ہی کا ڈر رہا ہے
رہتا نہیں ہے رکھے تھمتا نہیں تھمائے
دل اب تڑپ تڑپ کر اک ظلم کر رہا ہے
یہ کارواں سرا تو رہنے کی گوں نہ نکلی
ہر صبح یاں سے ہم کو عزم سفر رہا ہے
بعد از نماز سجدہ اس شکر کا کروں ہوں
روزوں کا چاند پیدا سب بے خبر رہا ہے
کیا پھر نظر چڑھا ہے اے میر کوئی خوش رو
یہ زرد زرد چہرہ تیرا اتر رہا ہے
میر تقی میر

ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا

دیوان ششم غزل 1800
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظارکشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کرآیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میر کے اشکوں کا تا کمر آیا
میر تقی میر

شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا

دیوان پنجم غزل 1556
جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا
شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا
بجلی سا وہ چمک گیا آنکھوں سے پھوئیں پڑنے لگیں
ابر نمط خفگی سے اس بن جی بھی رندھا دل بھر آیا
گل تھے سو سو رنگ پر ایسا شورطیور بلند نہ تھا
اس کے رنگ چمن میں کوئی شاید پھول نظر آیا
سیل بلا جوشاں تھا لیکن پانی پانی شرم سے تھا
ساحل دریا خشک لبی دیکھے سے میری تر آیا
کیا ہی خوش پرکار ہے دلبر نوچہ کشتی گیر اپنا
کوئی زبردست اس سے لڑ کر عہدے سے کب بر آیا
صنعت گریاں بہتیری کیں لیک دریغ ہزار دریغ
جس سے یار بھی ملتا ہم سے ایسا وہ نہ ہنر آیا
میر پریشاں خاطر آکر رات رہا بت خانے میں
راہ رہی کعبے کی اودھر یہ سودائی کدھر آیا
میر تقی میر

تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے

دیوان چہارم غزل 1505
ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گئے
تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے
نظر اک سپاہی پسر سے لڑی
قریب اس کے تلوار کر کر گئے
بہم مہر ورزی کے سرگرم تھے
خدا جانے وہ لوگ کیدھر گئے
لہو میری آنکھوں میں آتا نہیں
جگر کے مگر زخم سب بھر گئے
رباط کہن میں نہیں میرجی
ہوا جو لگی وے بھی باہر گئے
میر تقی میر

عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا

دیوان چہارم غزل 1330
صورت شیریں کے آگے کام اپنا کر گیا
عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا
خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے آرزو
جیسے جلوے سے ترے گھر آرسی کا بھر گیا
میر سختی کش تھا غافل پر خدا نے خیر کی
حادثے کا کیسا اس کے سر پہ سے پتھر گیا
میر تقی میر

سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے

دیوان سوم غزل 1311
دست بستہ کام ناخن کر گئے
سب خراشوں ہی سے جبہے بھر گئے
بت کدے سے تو چلے کعبے ولے
دس قدم ہم دل کو کر پتھر گئے
کیا جو اڑتی سی سنی آئے ہیں گل
ہم اسیروں کے تو بال و پر گئے
مجلسوں کی مجلسیں برہم ہوئیں
لوگ وے پل مارتے کیدھر گئے
تھے لب جو پر جو گرم دید یار
سبزے کے سے رنگ مژگاں تر گئے
خانوادے ہو گئے کیا کیا خراب
خانہ ساز دین کیسے مر گئے
دست افشاں پاے کوباں شوق میں
صومعے سے میر بھی باہر گئے
میر تقی میر

بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے

دیوان سوم غزل 1303
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے
بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے
تاچند یہ خمیازہ کشی تنگ ہوں یارب
آغوش مری ایک شب اس شوخ سے بھر جائے
بے طاقتی دل سے مری جان ہے لب پر
تم ٹھہرو کوئی دم تو مرا جی بھی ٹھہر جائے
پڑتے نگہ یار مرا حال ہے ویسا
بجلی کے تڑپنے سے کوئی جیسے کہ ڈر جائے
اس آئینہ رو شوخ مفتن سے کہیں کیا
عاشق کو برا کہہ کے منھ ہی منھ میں مکر جائے
ناکس کی تلافی ستم کون کرے ہے
ڈرتا ہوں کہ وہ اور بھی آزردہ نہ کر جائے
جاتا ہے جدھر منزل مقصود نہیں وہ
آوارہ جو ہو عشق کا بے چارہ کدھر جائے
رونے میں مرے سر نہ چڑھو صبر کرو ٹک
یہ سیل جو اک زور سے آتا ہے اتر جائے
کیا ذکر مرا میں تو کہیں اس سے ملوں ہوں
ان خانہ خرابوں کی کہو جن کے وہ گھر جائے
اس زلف کا ہر بال رگ جان ہے اپنی
یاں جی ہی بکھرتا ہے صبا وہ جو بکھر جائے
گردش میں جو وے آنکھ نشے کی بھری دیکھیں
ہشیار سروں کے تئیں سدھ اپنی بسر جائے
آنکھیں ہی لگی جاتی ہیں اس جاذبہ کو میر
آتی ہے بہت دیر جو اس منھ پہ نظر جائے
میر تقی میر

بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم

دیوان سوم غزل 1169
گئے عشق کی راہ سر کر قدم
بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم
عجب راہ پرخوف و مشکل گذر
اٹھایا گیا ہم سے مر مر قدم
بہت مستی عشق پالغز تھی
خدا جانے پڑتا تھا کیدھر قدم
ہوا ہو گا خالی بدن جاں سے جب
چلے ہوں گے یہ راہ جو بھر قدم
وہ عیار یوں چشم تر سے گیا
کہ ہرگز نہ اس کا ہوا تر قدم
جگر کو ہے ان سر سے گذروں کے عشق
گئے جو ہمارے قدم بر قدم
جو کچھ آوے سالک کے آگے ہے خیر
رکھا ہم نے اب گھر سے باہر قدم
ہمیں سرکشی سربلندی سے کیا
رہے ضعف میں ہم تو سر در قدم
کہیں کیا کف پا میں میر آبلے
چلیں ہم سروں پر مگر دھر قدم
میر تقی میر

پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا

دیوان سوم غزل 1084
میر کل صحبت میں اس کی حرف سرکر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
خوبی اپنے طالع بد کی کہ شب وہ رشک ماہ
گھر مرے آنے کو تھا سو منھ ادھر کر رہ گیا
طنز و تعریض بتان بے وفا کے در جواب
میں بھی کچھ کہتا خدا سے اپنے ڈر کر رہ گیا
سرگذشت اپنی سبب ہے حیرت احباب کی
جس سے دل خالی کیا وہ آہ بھر کر رہ گیا
میر کو کتنے دنوں سے رہتی تھی بے طاقتی
رات دل تڑپا بہت شاید کہ مر کر رہ گیا
میر تقی میر

آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے

دیوان دوم غزل 1003
یک عمر دیدہ ہاے ستم دیدہ تر رہے
آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے
ہم نے بھی نذر کی ہے پھریں گے چمن کے گرد
آنے تئیں بہار کے گر بال و پر رہے
کیا کہیے تیرے واسطے اے مایۂ حیات
کیا کیا عزیز اپنے تئیں مار مر رہے
مرتے بھی اپنے ہائے وہ حاضر نہ ہوسکا
ہم اشتیاق کش تو بہت محتضر رہے
مرغان باغ رہتے ہیں اب گھیرے یوں مجھے
ماتم زدوں کے حلقے میں جوں نوحہ گر رہے
آغوش اس سے خالی رہی شب تو تا سحر
جیب و کنار گریۂ خونیں سے بھر رہے
نقش قدم کے طور ترے ہم ہیں پائمال
غالب ہے یہ کہ دیر ہمارا اثر رہے
اب صبر و ہوش و عقل کی میرے یہ ہے معاش
جوں قافلہ لٹا کہیں آکر اتر رہے
لاکھوں ہمارے دیکھتے گھر بار سے گئے
کس خانماں خراب کے وے جا کے گھر رہے
آتا کبھو تو ناز سے دکھلائی دے بھی جا
دروازے ہی کی اور کہاں تک نظر رہے
رکھنا تمھارے پائوں کا کھوتا ہے سر سے ہوش
یہ چال ہے تو اپنی کسے پھر خبر رہے
کیا بدبلا ہے لاگ بھی دل کی کہ میر جی
دامن سوار لڑکوں کے ہو کر نفر رہے
میر تقی میر

چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے

دیوان دوم غزل 993
سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے
چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے
مارگیری سے زمانے کی نہ دل کو جمع رکھ
چال دھیمی اس کی ایسی ہے کہ جوں اجگر چلے
کیونکے ان کا کوئی وارفتہ بھلا ٹھہرا رہے
جنبش ان پلکوں کو ہوتی ہے کہ جوں خنجر چلے
اب جو وہ سرمایۂ جاں یاں تلک آیا تو کیا
راہ تکتے تکتے اس کی ہم تو آخر مر چلے
میں نہ کہتا تھا دم بسمل مرے مت آئیو
لوٹتے دامن کی اپنے زہ لہو میں بھر چلے
چھوڑ جانا جاں بہ لب ہم کو کہاں کا ہے سلوک
گھر کے گھر یاں بیٹھے جاتے ہیں تم اٹھ کر گھر چلے
صاف سارا شہر اس انبوہ خط میں لٹ گیا
کچھ نہیں رہتا ہے واں جس راہ ہو لشکر چلے
پائوں میں مارا ہے تیشہ میں نے راہ عشق میں
ہو سو ہو اب گوکہ آرا بھی مرے سر پر چلے
لائے تھے جاکر ابھی تو اس گلی میں سے پکار
چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے
میر تقی میر

ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں

دیوان دوم غزل 891
گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں
ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں
کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق کو تصور
ہر لحظہ اس کے جلوے پیش نظر رہے ہیں
نکلے ہوس جو اب بھی ہو وارہی قفس سے
شائستۂ پریدن دوچار پر رہے ہیں
کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر
اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں
کیا آج ڈبڈبائی دیکھو ہو تم یہ آنکھیں
جوں چشمہ یوں ہی برسوں ہم چشم تر رہے ہیں
نے غم ہے ہم کو یاں کا نے فکر کچھ ہے واں کا
صدقے جنوں کے کیا ہم بے درد سر رہے ہیں
پاس ایک دن بھی اپنا ان نے نہیں کیا ہے
ہم دور اس سے بے دم دو دو پہر رہے ہیں
کیا یہ سراے فانی ہے جاے باش اپنی
ہم یاں مسافرانہ آکر اتر رہے ہیں
ایسا نہ ہو کہ چھیڑے یک بار پھوٹ بہیے
ہم پکے پھوڑے کے اب مانند بھر رہے ہیں
اس میکدے میں جس جا ہشیار چاہیے تھے
رحمت ہے ہم کو ہم بھی کیا بے خبر رہے ہیں
گو راہ عشق میں ہو شمشیر کے دم اوپر
وسواس کیا ہے ہم تو جی سے گذر رہے ہیں
چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنیے
کہتے ہیں بعد مدت میر اپنے گھر رہے ہیں
میر تقی میر

بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید

دیوان دوم غزل 800
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید
سب پریشاں دلی میں شب گذری
بال اس کے بکھر گئے شاید
کچھ خبر ہوتی تو نہ ہوتی خبر
صوفیاں بے خبر گئے شاید
ہیں مکان و سرا و جا خالی
یار سب کوچ کر گئے شاید
آنکھ آئینہ رو چھپاتے ہیں
دل کو لے کر مکر گئے شاید
لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا
زخم اب دل کے بھر گئے شاید
اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں
حضرت خضر مر گئے شاید
بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار
کام سے بال و پر گئے شاید
شور بازار سے نہیں اٹھتا
رات کو میر گھر گئے شاید
میر تقی میر

ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا

دیوان دوم غزل 751
بے طاقتی میں تو تو اے میر مر رہے گا
ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا
کیا ہے جو راہ دل کی طے کرتے مر گئے ہم
جوں نقش پا ہمارا تا دیر اثر رہے گا
مت کر لڑکپن اتنا خونریزی میں ہماری
اس طور لوہو میں تو دامن کو بھر رہے گا
آگاہ پائے ہم نے کھوئے گئے سے یعنی
پہنچی خبر ادھر کی دل بے خبر رہے گا
فردا کا سوچ تجھ کو کیا آج ہی پڑا ہے
کل کی سمجھیو کل ہی کل تو اگر رہے گا
لوگوں کا پاس ہم کو مارے رکھے ہے ورنہ
ماتم میں دل کے شیون دو دوپہر رہے گا
پایان کار دیکھیں کیا ہووے دل کی صورت
ایسا ہی جو وہ چہرہ پیش نظر رہے گا
اب رفتگی رویہ اپنا کیا ہے میں نے
میرا یہ ڈھب دلوں میں کچھ راہ کر رہے گا
ہم کوئی بیت جاکر اس ہی کے منھ سنیں گے
وحشت زدہ کسو دن گر میر گھر رہے گا
میر تقی میر

زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا

دیوان دوم غزل 701
تیغ لے کر کیوں تو عاشق پر گیا
زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا
تڑپے زیر تیغ ہم بے ڈول آہ
دامن پاک اس کا خوں میں بھر گیا
خاک ہے پکڑے اگر سونا بھی پھر
ہاتھ سے جس کے وہ سیمیں بر گیا
کیا بندھا ہے اس کے کوچے میں طلسم
پھر نہ آیا جو کوئی اودھر گیا
خانداں اس بن ہوئے کیا کیا خراب
آج تک وہ شوخ کس کے گھر گیا
ابرو و مژگاں ہی میں کاٹی ہے عمر
کیا سنان و تیغ سے میں ڈر گیا
کہتے ہیں ضائع کیا اپنے تئیں
میر تو دانا تھا یہ کیا کر گیا
میر تقی میر

یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا

دیوان دوم غزل 686
میں غش کیا جو خط لے ادھر نامہ بر چلا
یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا
سدھ لے گئی تری بھی کوئی زلف مشک بو
گیسوے پیچدار جو منھ پربکھر چلا
لڑکا ہی تھا نہ قاتل ناکردہ خوں ہنوز
کپڑے گلے کے سارے مرے خوں میں بھر چلا
اے مایۂ حیات گیا جس کنے سے تو
آفت رسیدہ پھر وہ کوئی دم میں مر چلا
تیاری آج رات کہیں رہنے کی سی ہے
کس خانماں خراب کے اے مہ تو گھر چلا
دیکھوگے کوئی گوشہ نشیں ہو چکا غریب
تیرمژہ اس ابرو کماں کا اگر چلا
بے مے رہا بہار میں ساری ہزار حیف
لطف ہوا سے شیخ بہت بے خبر چلا
ہم سے تکلف اس کا چلا جائے ہے وہی
کل راہ میں ملا تھا سو منھ ڈھانپ کر چلا
یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخ زرد پر مرے
کہتا ہے میر رنگ تو اب کچھ نکھر چلا
میر تقی میر

بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے

دیوان اول غزل 589
آتش کے شعلے سر سے ہمارے گذر گئے
بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے
منزل نہ کر جہاں کو کہ ہم نے سفر سے آہ
جن کا کیا سراغ سنا وے گذر گئے
مشت نمک سے بھی تو کبھو یاد کر ہمیں
اب داغ کھاتے کھاتے فلک جی تو بھر گئے
ناصح نہ روویں کیونکے محبت کے جی کو ہم
اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے
تلوار آپ کھینچیے حاضر ہے یاں بھی سر
بس عاشقی کی ہم نے جو مرنے سے ڈر گئے
کر دیں گے آسمان و زمیں ایک حشر کو
اس معرکے میں یارجی ہم بھی اگر گئے
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
جانے دے میر صاحب و قبلہ جدھر گئے
روز وداع اس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ
جب دردمند ہم کو وے معلوم کر گئے
کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا
پھر ہم ادھر کو آئے میاں وے ادھر گئے
میر تقی میر

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

دیوان اول غزل 552
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئینہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بتکدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منھ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گل برگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
میر تقی میر

پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

دیوان اول غزل 531
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے
پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گذرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے
میر تقی میر

ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے

دیوان اول غزل 486
شمع صفت جب کبھو مر جائیں گے
ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے
تند نہ ہو ہم تو موئے پھرتے ہیں
کیا تری ان باتوں سے ڈر جائیں گے
کھل گئے رخسار اگر یار کے
شمس و قمر جی سے اتر جائیں گے
خالی نہ چھوڑیں گے ہم اپنی جگہ
گر یہی رونا ہے تو بھر جائیں گے
راہ دم تیغ پہ ہو کیوں نہ میر
جی پہ رکھیں گے تو گذر جائیں گے
میر تقی میر

صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی

دیوان اول غزل 459
میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی
محو اس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب
اس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی
کتنے پیغام چمن کو ہیں سو دل میں ہیں گرہ
کسو دن ہم تئیں بھی باد سحر آوے گی
ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
میر میں جیتوں میں آئوں گا اسی دن جس دن
دل نہ تڑپے گا مرا چشم نہ بھر آوے گی
میر تقی میر

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 99
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا
بس ایک اشک پسِ چشم تم چھپائے رکھو
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
وگرنہ تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا افریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم

فرد فرد

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 2
آ یہیں ، عمر پسِ عمر گزاری جائے
جان سو بار اسی خاک پہ واری جائے
یہ جاہِ دنیا کروں گا کیا میں
تمہی سنبھالو اسے، چلا میں
انا کے اندر بھی اک انا ہے
وگرنہ کیوں خود سے ہوں خفا میں
تنہائی میں اک لمحے کو ٹھہرا کے امر کر لیتا ہوں
اور اپنے لہو کے رستے پر صدیوں کا سفر کر لیتا ہوں
احساس کی دو دنیاؤں میں جو دوری ہے، مجبوری ہے
تو جس پہ تبسم کرتا ہے میں آنکھیں تر کر لیتا ہوں
تو کیا ضرور ہے دل پر اثر لیا جائے
یہی طریقۂ دنیا ہے، کیا کیا جائے
پھر کیوں نہ دوسروں سے ہمیں اجتناب ہو
جب اپنے آپ سے ہی تعلق خراب ہو
ضبط کے گونگے سناٹے میں کوئی رہائی کب دے گا
وہ آنسو جو روک رکھا ہے اُس کو دہائی کب دے گا
کون تھا جو دور بھی رہ کر تمہارے اس تھا
وصل زار خواب میں شب بھر تمہارے پاس تھا
تم سے اے دنیا! یہ رشتہ تو ہمیشہ یہی رہا
سر ہمارے پاس تھا پتھر تمہارے پاس تھا
خدا تھا، کیا تھا مجھے بے شعور کر دیتا
تھکاوٹیں مرے جینے کی دور کر دیتا
کوئی مفاہمت بھی اُصولی نہ کر سکا
میں اپنے دل کی حکم عدولی نہ کر سکا
اک فاصلہ رہا مرا غم ناشناس سے
میں دادِ ناروا کی وصولی نہ کر سکا
آفتاب اقبال شمیم

اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 221
جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی
میں نے رات اک خواب دیکھا اور روشن ہو گیا
دیکھتا کیا ہوں کہ ہے میرے برابر روشنی
اور اے روشن قبا تجھ سے ہمیں کیا چاہیے
ایک دامن بھر ہوا اور اک دیا بھر روشنی
میں کوئی جگنو نہ تارا، میں کوئی سورج نہ چاند
اور تو دیکھے تو ہے مٹی کے اندر روشنی
اکثر اکثر اس کا چہرہ دھیان میں آتا بھی ہے
جیسے گم ہوجائے جنگل میں چمک کر روشنی
میرے مولا، ہجر کی تاریک راتوں کے طفیل
زندگی بھر چاہتیں اور زندگی بھر روشنی
عرفان صدیقی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 217
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمہارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی
جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی
ہز اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی
زرد پتوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر‘ یا اخی
عرفان صدیقی

لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 161
دیکھیے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں
لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں
خیر‘ اب میری فصیلِ شہر بھی کیا دور ہے
جنگلوں تک آچکا پیکِ سحر سنتا ہوں میں
اے پرندو‘ یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سرِ شاخِ شجر سنتا ہوں میں
کوئی نیزہ سرفرازی دے تو کچھ آئے یقیں
خشک ٹہنی پر بھی آتے ہیں ثمر سنتا ہوں میں
لاؤ، اس حرفِ دُعا کا بادباں لیتا چلوں
سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں
عرفان صدیقی

دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 149
دیکھ لے، خاک ہے کاسے میں کہ زر ہے سائیں
دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں
تو مجھے اس کے خم و پیچ بتاتا کیا ہے
کوئے قاتل تو مری راہ گزر ہے سائیں
یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحۂ بے نقش و نگار
اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے سائیں
شہر و صحرا تو ہیں انسانوں کے رکھے ہوئے نام
گھر وہیں ہے دلِ دیوانہ جدھر ہے سائیں
ہم نے پہلے بھی مآلِ شبِ غم دیکھا ہے
آنکھ اب کے جو کھلے گی تو سحر ہے سائیں
پاؤں کی فکر نہ کر بارِ کم و بیش اتار
اصل زنجیر تو سامانِ سفر ہے سائیں
آگے تقدیر پرندے کی جہاں لے جائے
حدِّ پرواز فقط حوصلہ بھر ہے سائیں
شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجے
درد ہے دل میں سو لفظوں میں اثر ہے سائیں
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیئے یہ بھی ہنر ہے سائیں
عرفان صدیقی

سو منتظر اسی لمس ہنر کا میں بھی ہوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 147
ہوں مشتِ خاک مگر کوزہ گر کا میں بھی ہوں
سو منتظر اسی لمس ہنر کا میں بھی ہوں
کبھی ہوائے سرِ شاخسار ادھر بھی دیکھ
کہ برگِ زرد ہوں لیکن شجر کا میں بھی ہوں
یہ تیز روشنیوں کا دیار ہے‘ ورنہ
چراغ تو کسی تاریک گھر کا میں بھی ہوں
تمہارے زخموں سے میرا بھی ایک رشتہ ہے
لہو نہیں ہوں مگر چشمِ تر کا میں بھی ہوں
مجھے کھنچی ہوئی تلوار سونپنے والے
میں کیا کروں کہ طرفدار سر کا میں بھی ہوں
اب آگئی ہے سحر اپنا گھر سنبھالنے کو
چلوں‘ کہ جاگا ہوا رات بھر کا میں بھی ہوں
عرفان صدیقی

اِتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 129
موجِ خوں بن کر کناروں سے گزر جائیں گے لوگ
اِتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ
قاتلوں کے شہر میں بھی زندگی کرتے رہے
لوگ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مر جائیں گے لوگ
اَن گنت منظر ہیں اور دِل میں لہو دو چار بوُند
رَنگ آخر کتنی تصوِیروں میں بھر جائیں گے لوگ
جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے
یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ
جانے کب سے ایک سنّاٹا بسا ہے ذہن میں
اَب کوئی اُن کو پکارے گا تو ڈر جائیں گے لوگ
بستیوں کی شکل و صوُرت مختلف کتنی بھی ہو
آسماں لیکن وہی ہو گا جدھر جائیں گے لوگ
سُرخ رو ہونے کو اِک سیلابِ خوُں دَرکار ہے
جب بھی یہ دَریا چڑھے گا پار اُترجائیں گے لوگ
عرفان صدیقی

آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ہو چکا کھیل بہت جی سے گزر جانے کا
آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا
ہم بھی زندہ تھے مسیحا نفسوں کے ہوتے
سچ تو یہ ہے کہ وہی وقت تھا مر جانے کا
بے سروکار فلک بے در و دیوار زمیں
سر میں سودا ہے مری جان کدھر جانے کا
ہم یہاں تک خس و خاشاک بدن کو لے آئے
آگے اب کوئی بھی موسم ہو بکھر جانے کا
کوئی دشوار نہیں شیوۂ شوریدہ سری
ہاں اگر ہے تو ذرا خوف ہے سر جانے کا
اب تلک بزم میں آنا ہی تھا اک کار ہنر
ہم نے آغاز کیا کار ہنر جانے کا
عرفان صدیقی

کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 598
کاسہ ء اجر کو امکان سے بھر دیتا ہے
کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے
خیر امکانِ تباہی سے تو انکار نہیں
عشق کی موج ہے آباد بھی کر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ یہ دکھ قابلِ برداشت نہیں
وہ جو تکلیف میں پتھر کا جگر دیتا ہے
وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا
وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے
میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا
ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ مجھے روشنی ای میل کرے
اپنے جلووں سے جو مہتاب کو بھر دیتا ہے
عمر سوجاتی ہے ساحل کی طلب میں منصور
کیا وہ قطرے میں سمندر کا سفر دیتا ہے
منصور آفاق

آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 585
بزمِ مے نوشاں کے ممبر تو کئی تھے
آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے
دل ہی کچھ کرنے پہ آمادہ نہیں تھا
ڈائری میں فون نمبر تو کئی تھے
میں نے بچپن میں کوئی وعدہ کیا تھا
ورنہ گاؤں میں حسیں بر تو کئی تھے
صبح تنہائی تھی اور خالی گلاس
ہم زباں ہم رقص شب بھر تو کئی تھے
تیرے آتش دان کی رُت ہی نہیں تھی
لمس کے دھکے دسمبر تو کئی تھے
ایک اک کمرے میں بستر موت کا تھا
آس کی بلڈنگ میں چیمبر تو کئی تھے
گیسوئوں کے آبشار آنکھوں کی جھیلیں
ہم پکھی واسوں کے امبر تو کئی تھے
خاک کا الہام تنہا ایک تُو تھا
آسمانوں کے پیمبر تو کئی تھے
شہر میں منصور بس کوئی نہیں تھا
رونقِ محراب و منبر تو کئی تھے
منصور آفاق

پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 569
اک سین دیکھتے ہیں زمیں پر پڑے پڑے
پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے
کیسا ہے کائنات کی تہذیبِ کُن کا آرٹ
شکلیں بدلتے رہتے ہیں پتھر پڑے پڑے
اے زلفِ سایہ دار تری دوپہر کی خیر
جلتا رہا ہوں چھاؤں میں دن بھر پڑے پڑے
ویراں کدے میں جھانکتے کیا ہو نگاہ کے
صحرا سا ہو گیا ہے سمندر پڑے پڑے
سوچا تھا منتظر ہے مرا کون شہر میں
دیکھا تو شام ہو گئی گھر پر، پڑے پڑے
شکنوں کے انتظار میں اے کھڑکیوں کی یار
بوسیدہ ہو گیا مرا بستر پڑے پڑے
منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے
میں مر رہا ہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے
منصور آفاق

کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 526
کہا جو ہوتا تو جاں سے گزر گئے ہوتے
کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے
کسی شراب کدے نکل کے پچھلی رات
یہ چاہئے تھا ہمیں اپنے گھر گئے ہوتے
اکیلگی نے ہمیں اپنی جوڑ رکھا ہے
سمیٹ لیتا کوئی تو بکھر گئے ہوتے
تُو ایک بار برس پڑتا میری روہی پر
تو سارے پیاس کے تالاب بھر گئے ہوتے
ہمیں زمین نے رکھا گرفت میں منصور
جو پاؤں اٹھتے تو افلاک پر گئے ہوتے
منصور آفاق

آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 419
اجلا ہے بہت شام کے منظر سے ستارہ
آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ
یک لخت نگاہوں میں کئی رنگ ہیں آئے
گزرا ہے ابھی میرے برابر سے ستارہ
قسمت کہیں یخ بستہ رویوں میں جمی ہے
نکلا ہی نہیں اپنا دسمبر سے ستارہ
ہر شام نکلتا تھا کسی شاخِ حسیں سے
رکھتا تھا تعلق وہ صنوبر سے ستارہ
تم اندھی جوانی کی کرامات نہ پوچھو
وہ توڑدیا کرتی تھی پتھر سے ستارہ
میں کس طرح لے جاؤں اسے اپنی گلی میں
منصور شناسا ہے جہاں بھر سے ستارہ
منصور آفاق

ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 401
خوف سا ہے بام و در میں اور تو کچھ بھی نہیں
ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں
کچھ نمک ہے زخم کا ، کچھ روشنی ہے یاد کی
چشمِ غم کی بوند بھر میں اور تو کچھ بھی نہیں
یاد کا ہے سائباں اور زندگی کی دھوپ ہے
اس ستم گر دوپہر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی رخشاں مسکراہٹ حاملِ صد مہر و مہ
ایک سورج ہے سحر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان سے رک سکتے ہیں کب دیوانگانِکوئے یار
کچھ بلائیں ہیں سفر میں اور تو کچھ بھی نہیں
ان کی چاہت کے سوا تاریک ہے فردِ عمل
داغ ہیں قلب و جگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
گنبدِ خضرا کا ہر ذرہ بہشت آباد ہے
دہر کے دوزخ نگر میں اور تو کچھ بھی نہیں
نازشِ تخلیق ہے آفاق میں بس ایک ذات
میری فکرِ معتبر میں اور تو کچھ بھی نہیں
منصور آفاق

پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 336
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں میں
رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ تُو نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
جانتا ہے تُو میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
منصور آفاق

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق