ٹیگ کے محفوظات: بھرتا

گونگا بہرا خالی کمرا

خالی گھر کا خالی کمرا
گونگا بہرا خالی کمرا
زندانوں سے بھی بدتر ہے
تیرا میرا خالی کمرا
ایک عزیز بچا ہے میرا
وہ بھی تنہا خالی کمرا
تیری یاد نے چوما مجھ کو
جب بھی کھولا خالی کمرا
تم کو اکثر یاد آئے گا
باتیں کرتا خالی کمرا
مجھ سے لپٹا روہا گھنٹوں
آہیں بھرتا خالی کمرا
دونوں اک جیسے لگتے ہیں
میں اور میرا خالی کمرا
یار فلک! اک بات کہیں میں
خوب ہے تیرا خالی کمرا
افتخار فلک

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

میرا اک زخم شام کرتا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 204
رنگ بادِ صبا میں بھرتا ہے
میرا اک زخم شام کرتا ہے
سب یہی پوچھتے ہیں مجھ سے کہ تو
کیوں سدھارے نہیں سدھرتا ہے
روز شام و سحر کی راہوں سے
ایک انبوہ کیوں گزرتا ہے ؟
آئینے تیرے سامنے وہ شخص
اب بھلا کیوں نہیں سنورتا ہے
ایلیا جون کچھ نہیں کرتا
صرف خوشبو میں رنگ بھرتا ہے
جون ایلیا

چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے

دیوان پنجم غزل 1770
عشق ہمارا در پئے جاں ہے کیسی خصومت کرتا ہے
چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے
شاید لمبے بال اس مہ کے بکھر گئے تھے بائو چلے
دل تو پریشاں تھا ہی میرا رات سے جی بھی بکھرتا ہے
صورت اس کی دیدئہ تر میں پھرتی ہے ہر روز و شب
ہے نہ اچنبھا یہ بھی کہیں پانی میں نقش ابھرتا ہے
کیا دشوار گذر ہے طریق عشق مسافر کش یارو
جی سے اپنے گذر جاتا ہے جو اس راہ گذرتا ہے
حال کسو بے تہ کا یاں مانا ہے حباب دریا سے
ٹک جو ہوا دنیا کی لگی تو یہ کم ظرف اپھرتا ہے
یاد خدا کو کرکے کہو ٹک پاس ہمارے ہوجاوے
صد سالہ غم دیکھے اس خوش چشم و رو کے بسرتا ہے
دامن دیدئہ تر کی وسعت دیکھے ہی بن آوے گی
ابر سیاہ و سفید جو ہو سو پانی ان کا بھرتا ہے
دل کی لاگ نہیں چھپتی ہے کوئی چھپاوے بہتیرا
زردی عشق سے بے الفت یہ رنگ کسو کا نکھرتا ہے
کھینچ کے تیغہ اپنا ہر دم کیا لوگوں کو ڈراتے ہو
میر جگر دار آدمی ہے وہ کب مرنے سے ڈرتا ہے
میر تقی میر

سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اُترتا نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 193
جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں
سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اُترتا نہیں
بس اب اپنے پیاروں کو اپنے دلاروں کو رخصت کرو
کہ اس امتحاں سے فرشتوں کا لشکر گزرتا نہیں
کبھی زرد ریتی کبھی خشک شاخوں پہ ہنستا ہوا
ہمارا لہو کس قدر سخت جاں ہے کہ مرتا نہیں
تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے
یہ بازو نہ کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں
MERGED جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں
سو وہ سربریدہ بھی پشتِ فرس سے اترتا نہیں
کبھی زرد ریتی، کبھی سرد شاخوں پہ ہنستا ہوا
ہمارا لہو کس قدر سخت جاں ہے کہ مرتا نہیں
بس اب اپنے پیاروں کو، اپنے دُلاروں کو یکجا کرو
سنو، اس طرف سے فرشتوں کا لشکر گزرتا نہیں
سماعت کہ جنگل کا انعام تھا اک سزا بن گئی
اگر میں وہ انجان چیخیں نہ سنتا تو ڈرتا نہیں
عرفان صدیقی