سونے پر ہے بھاری مٹی اگست 4, 2018ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر،غزلہماری،کھاری،بھاری،باری،ساریadmin پیارے دیس کی پیاری مٹی سونے پر ہے بھاری مٹی کیسے کیسے بوٹے نکلے لال ہوئی جب ساری مٹی دُکھ کے آنسو سکھ کی یادیں کھارا پانی کھاری مٹی تیرے وعدے میرے دعوے ہو گئے باری باری مٹی گلیوں میں اُڑتی پھرتی ہے تیرے ساتھ ہماری مٹی ناصر کاظمی Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے فروری 27, 2017ماجد صدیقی،سخناب،غزللاچاری،آزاری،بھاری،تمہاری،طاری،غدّاریadmin ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 151 اُن لوگوں سے اب کے سانجھ ہماری ہے جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے جو بولے در کھولے خود پر پھندوں کا کچھ کہنے میں ایک یہی لاچاری ہے اپنا اک اک سانس بھنور ہے دریا کا اپنا اک اک پل صدیوں پر بھاری ہے اوّل اوّل شور دھماکے پر تھا بہت دشت میں اُس کے بعد خموشی طاری ہے طوفاں سے ٹکرانا بِن اندازے کے یہ تو اپنے آپ سے بھی غدّاری ہے ہر مشکل کے آگے ہو فرہاد تمہی ماجِدؔ صدّیقی کیا بات تمہاری ہے ماجد صدیقی Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے اکتوبر 23, 2015Jaun Elia،جون ایلیا،شعراء،غزلکزاری،گزاری،بھاری،تمہاری،خواری،روزگاری،سواری،طاریadmin جون ایلیا ۔ غزل نمبر 227 عجب حالت ہماری ہو گئی ہے یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے سخن میرا اداسی ہے سرِ شام جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا مری آواز بھاری ہو گئی ہے دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے یقیں معزور ہے اب اور گماں بھی بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے مرے پاس آکے خنجر بھونک دے تُو بہت نیزہ کزاری ہو گئی ہے جون ایلیا Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی نومبر 16, 2013آفتاب اقبال شمیمہاری،یاری،کاری،بھاری،داری،دشواری،سرشاریadmin آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 51 شہر کے شہر میں بیداری تھی اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی دستِ قاتل کو ملے دادِ کمال ضرب ہلکی تھی مگر کاری تھی میں جو سمجھا وُہ نہیں تھا شاید لفظ میں حکمتِ تہ داری تھی میں پگھلتا ہی، پگھلتا ہی گیا عشق کی اوّلین سرشاری تھی نصف افلاک سے میں لوٹ آیا اپنی مٹی سے مری یاری تھی یاس کیسی کہ یہ بازی ہم نے کبھی جیتی تھی کبھی ہاری تھی مر گئے ہوتے اگر مر سکتے ایک اقرار کی دشواری تھی آفتاب اقبال شمیم Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔