ٹیگ کے محفوظات: بکھرا

وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا

کیسے اپنے کو سَمیٹا ہو گا
وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا
ایک رَٹ دل نے لگا رکّھی ہے
"چاند کس شہر میں اُترا ہو گا”
نئی دولت جو یہ ہاتھ آئی ہے
میرے دل کا کوئی ٹکڑا ہو گا!
چاند تاروں کو ہَٹا دے کوئی
یہ مری آہ کا رَستا ہو گا
دولتِ غم ہے تمہارے دم سے
تم نہیں ہو گے تو پھر کیا ہو گا
اب ہیں اہداف خلوص اور وفا
اب ہر اِک زخم ہمارا ہو گا
زندگی رہنِ گماں ہے ضامنؔ
وہ مجھے دیکھنے آتا ہو گا
ضامن جعفری

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا
اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا
تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا
کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا
جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا
تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا
یوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
ناصر کاظمی

ہے لاج تمہیں اے ابرِ کرم دو بوندیں تو برسا جانا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 44
کچھ پھول کھلانا خوشبو کے، کچھ نورکے رنگ گرا جانا
ہے لاج تمہیں اے ابرِ کرم دو بوندیں تو برسا جانا
باطل کی یہ وحشت سامانی مرعوب کرے حق بازوں کو
یہ رسم نہیں پروانوں کی یوں شعلوں سے گھبرا جانا
منجدھار ہے اور طوفانِ بلا،ساحل کا تصور ڈوب چلا
بس آس تمہاری ہے آقا اب نیا پار لگا جانا
ہر بے بس کی فریاد رسی ہر بے کس دل کی چارہ گری
تائیدِ محمد صل علیٰ وہ ریت ذرا دھرا جانا
مقصود نہیں ہے عیش و طرب ہلکا سا تموج کافی ہے
ہے شوق یہی دیوانوں کو کچھ پی کے ذرا لہرا جانا
جب شہرِ مدنیہ آجائے جب گنبدِ خضرا سامنے ہو
اے خوابِ تخیل رک جانا اے چشمِ طلب پتھرا جانا
منصور مدنیہ کے سپنے پلکوں پہ اٹھائے پھرتا ہے
خوشبو کی طرح اے بادصبا ہر سمت اسے بکھرا جانا
منصور آفاق