ٹیگ کے محفوظات: بٹھا

میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں

جنونِ خفتہ جگا رہے ہیں وہ سامنے کھل کے آ رہے ہیں
میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں
مرے بھی ہمدرد، مُنہ پہ ہیں ، اُن کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں
خدا ہی جانے جنابِ ناصح یہ اونٹ کس کل بٹھا رہے ہیں
علامتِ عشق ہے یہ دن میں نظر جو تارے سے آ رہے ہیں
جھکے ہیں سر عاشقوں کے اُور وہ جو مُنہ میں آئے سنا رہے ہیں
حیاتِ دو روزہ تم سے مل کر ذرا سی رنگین ہو گئی تھی
گرانیِ طبع دُور کر لو، ہم اپنی دنیا میں جا رہے ہیں
سُنانا چاہی جو ایک تازہ غزل اُنہیں تَو وہ بولے ضامنؔ
ہمیں پتہ ہے جو اس میں ہو گا، یہ آپ پھر دل جَلا رہے ہیں
ضامن جعفری

جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 3
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
رایوں کے راج چھینے شاہونکے تاج چھینے
گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا
فرہاد کوہکن کی لی تو نے جان شیریں
اور قیس عامری کو مجنوں بنا کے چھوڑا
یعقوب سے بشر کو دی تو نے ناصبوری
یوسف سے پارسا پر بہتان لگا کے چھوڑا
عقل و خرد نے تجھ سے کچھ چپقلش جہاں کی
عقل و خرد کا تو نے خاکہ اڑا کے چھوڑا
افسانہ تیرا رنگین، روداد تیری دلکش
شعر و سخن کا تو نے جادو بنا کے چھوڑا
اک دسترس سے تیری حالیؔ بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا
الطاف حسین حالی

اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 32
دل جُدا، مال جدا، جان جدا لیتے ہیں
اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں
مجلسِ وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم مے کش
دخترِ رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں
دھیان میں لا کے ترا سلسلۂ زلف دراز
ہم شبِ ہجر کو کچھ اور بڑھا لیتے ہیں؟
ایک بوسے کے عوض مانگتے ہیں دل کیا خوب
جی میں سوچیں تو وہ کیا دیتے ہیں کیا لیتے ہیں؟
اپنی محفل سے اُٹھاتے ہیں عبث ہم کو حضور
چُپ کے بیٹھے ہیں الگ، آپ کا کیا لیتے ہیں؟
امیر مینائی