اگر میں دشتِ خواب سے نکل گیا
سمجھ لو اضطراب سے نکل گیا
بری خبر سناؤں؟ سن سکو گے تم؟
میں حلقۂ جناب سے نکل گیا
رموزیں چھانٹنے لگا فضول میں
ارے میں کیوں حجاب سے نکل گیا!
نکل گیا وہ سایۂ امان سے
جو عشقِ بوتراب سے نکل گیا
شکست ہو گئی مرے رقیب کو
کہ پاؤں جب رکاب سے نکل گیا
خوشی منا!گلے لگا کہ آج میں
حجابِ خاک و آب سے نکل گیا
افتخار فلک