ٹیگ کے محفوظات: بنی

جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں

فکر کیا کرتا ہے تو آئند کی؟
جب حیاتِ رفتنی تیری نہیں
خود کو ننگا حرصِ شہرت میں کیا
بھر بھی حالت دیدنی تیری نہیں
جا اتار اب جسم کی یہ کینچلی!
روح کی یہ اوڑھنی تیری نہیں
دوسروں سے کیا نبھا پائے گا تو
اپنی تک خود سے بنی تیری نہیں
تیر بھی تیرا کماں بھی ہے تری
تیر پر لیکن انی! تیری نہیں
تو بھی سرقہ باز نکلا! ہائے ہائے
چاند تیری روشنی تیری نہیں
غصے میں یاؔور نہ کر تو شاعری
لہجے کی یہ سنسنی تیری نہیں
یاور ماجد

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں

گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں
جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں
تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں
کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں
جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں
اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں
بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں
اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں
میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں
نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ زندگی تو ہے مگر مرے مزاج کی نہیں
ترا سلوک مجھ کو یہ بتا رہا ہے آج کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں
کوئی تو شعر ہو وفور و کیفیت میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں
تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں
قبائے رنگ سے اُدھر بلا کا اک طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں
تمام زاویوں سے بات کر چکا، تو پھر کھُلا
یہ عشق وارداتِ قلب ہے جو گفتنی نہیں
کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ التفات جھیلنے کی تاب ہی نہیں
ہجومِ بد کلام جا رہا ہے دوسری طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں
مری غزل پہ داد دے رہے ہو، تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں
مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں
سنو بغور یہ غزل، کہ پھر بہت سکوت ہے
اگرچہ لگ رہا ہے یہ غزل بھی آخری نہیں
عرفان ستار

سہل اُس نے ہی کی مری مشکل

آزمانے کو جس نے دی مشکل
سہل اُس نے ہی کی مری مشکل
زندگی تو اِسی طرح سے ہے
کبھی آسان اور کبھی مشکل
میرے معمول کے ملاقاتی
کوئی چھوٹی کوئی بڑی مشکل
جو تمہارے لیے سہولت ہے
وہ ہمارے لیے بنی مشکل
چھوڑ آیا تھا میں جسے پیچھے
سامنے ہے مرے وہی مشکل
یوں تو آرام ہر طرح کا ہے
رات سونے میں کچھ ہوئی مشکل
باصر کاظمی

ورنہ ہونی تھی کہاں مجھ سے یہ خارا شکنی

شعر کہلاتی ہے مجھ سے تِری شیریں سخنی
ورنہ ہونی تھی کہاں مجھ سے یہ خارا شکنی
تُو نے جس طرح بھی دیکھا مجھے یہ کیا کم ہے
میری تصویر تری آنکھ کے پردے پہ بنی
خوش ہوئے ایک ادا پر تو کیا دِل اِنعام
ہم تہی دست حقیقت میں ہیں کِس درجہ غنی
دھیان رہتا ہے سدا غم کدہء خلوت کا
راس کِس طرح سے آئے ہمیں خوش انجمنی
لاکھ آسائشیں پردیس مہیّا کر دے
ہے غریب الوطنی پھر بھی غریب الوطنی
باصر کاظمی

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 99
اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی
دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی
ستم گر حشر میں وہ بھی قیامت کی گھڑی ہو گی
ترے دامن پہ ہو گا ہاتھ دنیا دیکھتی ہو گی
مجھے شکوے بھی آتے ہیں مجھے نالے بھی آتے ہیں
مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کی رسوا عاشقی ہو گی
تو ہی انصاف کر جلوہ ترا دیکھا نہیں جاتا
نظر کا جب یہ عالم ہے تو دل پر کیا بنی ہو گی
اگر آ جائے پہلو میں قمر وہ ماہِ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہو گی
قمر جلالوی

قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے

دیوان اول غزل 515
مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے
قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے
عریانی آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ
کشتہ ہے ترا اور یہی بے کفنی ہے
سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھامے ہے زباں شمع
وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زدنی ہے
لیتا ہی نکلتا ہے مرا لخت جگر اشک
آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے
بلبل کی کف خاک بھی اب ہو گی پریشاں
جامے کا ترے رنگ ستمگر چمنی ہے
کچھ تو ابھر اے صورت شیریں کہ دکھائوں
فرہاد کے ذمے بھی عجب کوہ کنی ہے
ہوں گرم سفر شام غریباں سے خوشی ہوں
اے صبح وطن تو تو مجھے بے وطنی ہے
ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن
ان بوالہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے
ہر اشک مرا ہے در شہوار سے بہتر
ہر لخت جگر رشک عقیق یمنی ہے
بگڑی ہے نپٹ میر طپش اور جگر میں
شاید کہ مرے جی ہی پر اب آن بنی ہے
میر تقی میر

ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 628
یہ کیا چراغِ تمنا کی روشنی ہوئی ہے
ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے
تُو چشمِ ہجر کی رنگت پہ تبصرہ مت کر
یہ انتظار کے جاڑے میں جامنی ہوئی ہے
نہ پوچھ مجھ سے طوالت اک ایک لکنت کی
یہ گفتگو کئی برسوں میں گفتنی ہوئی ہے
چمکتی ہے کبھی بجلی تو لگتا ہے شاید
یہیں کہیں کوئی تصویر سی بنی ہوئی ہے
ابھی سے کس لیے رکھتے ہو بام پر آنکھیں
ابھی تو رات کی مہتاب سے ٹھنی ہوئی ہے
ابھی نکال نہ کچھ انگلیوں کی پوروں سے
ابھی یہ تارِ رگ جاں ذرا تنی ہوئی ہے
شراب خانے سے کھلنے لگے ہیں آنکھوں میں
شعاعِ شام سیہ، ابر سے چھنی ہوئی ہے
نظر کے ساتھ سنبھلتا ہوا گرا پلو
مری نگاہ سے بے باک اوڑھنی ہوئی ہے
کچھ اور درد کے بادل اٹھے ترے در سے
کچھ اور بھادوں بھری تیرگی گھنی ہوئی ہے
کلی کلی کی پلک پر ہیں رات کے آنسو
یہ میرے باغ میں کیسی شگفتنی ہوئی ہے
اک ایک انگ میں برقِ رواں دکھائی دے
کسی کے قرب سے پیدا وہ سنسنی ہوئی ہے
جنوں نواز بہت دشتِ غم سہی لیکن
مرے علاوہ کہاں چاک دامنی ہوئی ہے
میں رنگ رنگ ہوا ہوں دیارِ خوشبو میں
لٹاتی پھرتی ہے کیا کیا، ہوا غنی ہوئی ہے
سکوتِ دل میں عجب ارتعاش ہے منصور
یہ لگ رہا ہے دوبارہ نقب زنی ہوئی ہے
منصور آفاق