ٹیگ کے محفوظات: بندگی

چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے

یہ لُطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
نحیف ضَو کو عَجب طرح تقویت دی ہے
اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو روشنی کے لیے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تمھیں پآ کر
بھٹک رہا تھا مرا دل، خود آگہی کے لیے
جنھیں خود اپنی حقیقت پہ اعتماد نہ تھا
تمھارے دَر پہ چلے آئے بندگی کے لیے
چلے تو ایسے چلے جیسے بے نیازِ مقام
رُکے تو ایسے رُکے جیسے آپ ہی کے لیے
تمھاری سہل پسندی نے ہر قدم پہ ، شکیبؔ!
نئے اصُول تراشے ہیں رَہ رَوی کے لیے
شکیب جلالی

کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے

رُخسار آج دھو کر شبنم نے پنکھڑی کے
کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے
ایثار، خودشناسی، توحید اور صداقت
اے دل ستون ہیں یہ ایوانِ بندگی کے
رنج و اَلَم میں کچھ کچھ آمیزشِ مسرّت
ہیں نقش کیسے دلکش تصویرِ زندگی کے
فرضی خدا بنائے، سجدے کیے بُتوں کو
اللہ رے کرشمے احساسِ کمتری کے
قلب و جگر کے ٹکڑے یہ آنسوؤں کے قطرے
اللہ راس لائے، حاصل ہیں زندگی کے
صحرائیوں سے سیکھے کوئی، رُموزِ ہستی
آبادیوں میں اکثر دشمن ہیں آگہی کے
جانِ خلوص بن کر ہم، اے شکیبؔ، اب تک
تعلیم کر رہے ہیں آدابِ زندگی کے
شکیب جلالی

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوامِ وصال
جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہلِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجری سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
اٹھاوٗ رختِ سفر، آوٗ اب چلو عرفان
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
عرفان ستار

کیوں کہیَں اپنی جفا میری خوشی کہہ لیجیے

حسرت و رنج و اَلَم قسمت مری کہہ لیجیے
کیوں کہیَں اپنی جفا میری خوشی کہہ لیجیے
ہر قدم پر گھونٹتا ہُوں اِک تمنّا کا گَلا
زندگی کو ایک پیہم خودکشی کہہ لیجیے
زندگی نے کیا دیا جز داغِ ناکامی ہمیں
جی رہے ہیں پھر بھی، پاسِ بندگی کہہ لیجیے
کیوں پشیماں آپ ہیں اپنی جفائیں سوچ کر
گردشِ دواراں ، فلک کی کجرَوی کہہ لیجیے
نقشِ حیرت یہ، وہ اِک پرتَو نگاہِ حسن کا
نقشِ مانی کہیے، سحرِ سامری کہہ لیجیے
کاشفِ رازِ حقیقت کہیے ضامنؔ موت کو
اُور فریبِ سَر بَسَر کو زندگی کہہ لیجیے
ضامن جعفری

پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے
پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے
روشنی کے سفیروں نے کیا کیا نہ گُر آزمائے مگر
سینہ سینہ بسائے ہوئے گمرہی لوگ سوئے ملے
زمزمے چہچہے کوئی تریاق ان کے نہ کام آ سکا
سم کچھ ایسی تھی سانسوں میں اِن کے گھلی لوگ سوئے ملے
صبح، پرچم لپیٹے ہوا ہو گئی اپنے سندیس کا
پھول نے جو کہی رہ گئی ان کہی لوگ سوئے ملے
بادباں کھول کر کشتیوں کے، ہوا کو انہیں سونپ کر
اور تو اور آغوشِ دریا میں بھی لوگ سوئے ملے
جانے حلقۂ بگوشی میں تھا کیا شرف، جو انہیں بھا گیا
جاگتا تھا فقط جذبۂ بندگی لوگ سوئے ملے
کتنے تھوڑے صلے سے بہلنے لگیں ان کی نادانیاں
رسم ماجدؔ یہ کیا اکتفا کی چلی لوگ سوئے ملے
ماجد صدیقی

کوئی جھونکا، کوئی مژدہ خوشی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
نہ آنے دے یہ موسم بے دلی کا
کوئی جھونکا، کوئی مژدہ خوشی کا
عبادت اور کی، قبلہ کہیں اور
عجب انداز نکلا بندگی کا
قد و قامت پہ نازاں ہے جو شعلہ
لگے چربہ اُسی سرو سہی کا
جہاں کُھل کھیلنے آئے تھے ژالے
وہیں تھا اِک گھروندا بھی کسی کا
گراں مایہ ہے ربطِ بے غرض بھی
یہ چنبیلی نشاں ہے آشتی کا
نہ جانے کب چلن اپنا بدل لے
بھروسہ کیا ہے ماجد آدمی کا
ماجد صدیقی

کہ طوق ڈالا ہے میری گردن میں بندگی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
ملا ہے فیضان یہ خداؤں کی برتری کا
کہ طوق ڈالا ہے میری گردن میں بندگی کا
بدستِ انساں عَلَم جہاں امن کا گڑا ہے
لٹک رہا ہے وہیں پرندہ بھی آشتی کا
کُھلی فضاؤں کی راہ جو بھی کوئی سجھائے
اُسی پہ آنے لگا ہے الزام گمُرہی کا
پڑے نہ زد جس پہ بات ساری مفاد کی ہے
جواز سیدھا سا ایک ہی تو ہے دشمنی کا
دلوں کے اندر ہی پائے جاتے ہیں نقش ایسے
نشان ماتھوں پہ کب ملا ہے درندگی کا
نہ تا ابد غرقِ نیل ہو کر بھی باز آئے
ہُوا ہے لپکا جسے خدا سے برابری کا
نظر کا آشوب جب تلک ہے نہ جا سکے گا
ہمیں لگا ہے جو روگ ماجدؔ سخنوری کا
ماجد صدیقی

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 65
شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوامِ وصال
جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہلِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجری سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
اٹھاوٗ رختِ سفر، آوٗ اب چلو عرفان
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
عرفان ستار

جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی

دیوان ششم غزل 1880
دل غم سے خوں ہوا تو بس اب زندگی ہوئی
جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی
خدمت میں اس صنم کے گئی عمر پر ہمیں
گویا کہ روز اس سے نئی بندگی ہوئی
گریے کا میرے جوش جو دیکھا تو شرم سے
سیلاب کو بھی دیر سر افگندگی ہوئی
تھا دو دلا وصال میں بھی میں کہ ہجر میں
پانچوں حواس کی تو پراگندگی ہوئی
اب صبر میر ہو نہیں سکتا فراق میں
یک عمر جان و دل کی فریبندگی ہوئی
میر تقی میر