ٹیگ کے محفوظات: بلا

لگ جائے تجھ کو آگ بھی میری دعا کے ساتھ

ردِّ بلا بھی تجھ کو ملے ہر بلا کے ساتھ
لگ جائے تجھ کو آگ بھی میری دعا کے ساتھ
کوئی جہت جہت نہ کوئی سمت جس کی سمت
اس سمت میں بھی چلتا رہا ہوں خدا کے ساتھ
جتنی بہارِ سبز کی میں نے ہے کی طلب
اتنے ہی زرد پتے ہیں آئے ہوا کے ساتھ
اک خوابِ کرب، خوابِ بلا چھوڑتا نہیں
آئے کوئی پری بھی کبھی اس بلا کے ساتھ
ممکن ہی ہو نہ سکتا تھا اس کا کوئی دوام
ہوتی نہ گر فنا بھی ہماری بقا کے ساتھ
عجزِ نظر سے بڑھ کے اسے اور کیا کہوں؟
اک عالمِ وجود بھی دیکھوں خلا کے ساتھ
آئیں گی خوشبوئیں بھی، بہاریں بھی لوٹ کر
صر صر اگر نہ لوٹ کے أئی صبا کے ساتھ
یاؔور مرے ہی سر پہ ہے اڑتا رہا ہمیش
آیا مگر نہ سایہ کوئی اس ہما کے ساتھ
یاور ماجد

بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے

 
 
شعلہ جو ہے اس دل میں چھپا، تیز بہت ہے
بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے
اک تیری جھلک یاد کے در سے ہے در آئی
اک درد مرے دل میں اُٹھا تیز بہت ہے
چپکے سے بس اک سسکی ہی لی ہے مرے دل نے
کیوں گونجتی کانوں میں صدا تیز بہت ہے
اب راکھ تلک ڈھونڈے سی ملتی نہیں اس کی
اک جسم تری لو میں جلا تیز بہت ہے
پھر ٹوٹ گئے، گم ہوئے سب محور و مرکز
کیا کرتے کہ گردش کی بلا تیز بہت ہے
جس زہر نے کر ڈالا گگن نیلا سحر تک
وہ زہر مرے خوں میں گھُلا تیز بہت ہے
یاور ماجد
 

تری محفل میں اب میری بَلا جائے

یہیں گر موت آنی ہے تَو آ جائے
تری محفل میں اب میری بَلا جائے
بکھرتے جا رہے ہیں سارے پتّے
شجر ہے لا تعلّق کیا کِیا جائے
یہ سب یک حال بھی ہیں ہمزباں بھی
یہاں بہتر یہی ہے چُپ رہا جائے
تمہاری بزم کا یہ کیا ہے دستور
کہ جو خوش ہو کے آئے وہ خفا جائے
وہاں محفوظ ہَوں گے ہم زیادہ
چَلو گھر لے کے جنگل میں بَسا جائے
یہ بزمِ یار کی پابندیاں ہیں
یہاں سے کیسے اُٹھ کر چَل دِیا جائے
جدھر چاہے زمانہ جائے ضاؔمن
ہر اِک رستہ سُوئے کوئے فنا جائے
ضامن جعفری

ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے

ہر طرح یاد آ رہا ہے مجھے
ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے
حالِ دل روز پوچھنے والو
کوئی اندر سے کھا رہا ہے مجھے
اُس سے ملنے کو جا رہا ہوں میں
طُور پر کیا بُلا رہا ہے مجھے
ڈُوب کر رہ گئی مری آواز
جو ہے اپنی سُنا رہا ہے مجھے
ظلم اتنا نہ رکھ روا خود پر
جانے کب سے بُھلا رہا ہے مجھے
جان میں جان آ گئی ضامنؔ
جب سُنا وہ بُلا رہا ہے مجھے
ضامن جعفری

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا غور سے سن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
نو گرفتارِ بلا غور سے سن
دل تڑپ اُٹھتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سن
اِسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سن!
اِسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سن
موت اور زیست کے اَسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لے کو ذرا غور سے سن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سن
برگِ آوارہ بھی اک مطرِب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سن
عشق کو حسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سن
ناصر کاظمی

رُت اپنے نگر کی اور کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ہر جسم پہ گرد کی ردا ہے
رُت اپنے نگر کی اور کیا ہے
وُہ دوستی ہو کہ دُشمنی ہو
اِک کرب ہے دُوسری بلا ہے
دیتا ہے افق افق دکھائی
اک شخص کہ چاند سا ڈھلا ہے
کیا درس دِلا رہا ہے دیکھو!
پانی پہ جو بُلبُلہ اُٹھا ہے
بدلی نئی رُت نے اور کروٹ
پِھر شاخ پہ تازہ چہچہا ہے
پہچان کب اس کی جانے ہو گی
ماجِد کہ جو کُنج میں پڑا ہے
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
نظر میں ہے نظر سے ہے جُدا بھی
وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی
ہَوا جن پر بظاہر مہرباں ہے
اُنہی پتّوں سے رہتی ہے خفا بھی
گریزاں ہیں نجانے کیوں ہمِیں سے
زمانہ بھی، مقدر بھی،خدا بھی
ستم باقی رہا اب کون سا ہے
بہت کچھ ہو چکا اب لوٹ آ بھی
ترستی ہے جسے خوں کی روانی
سخن ایسا کوئی ہونٹوں پہ لا بھی
بہت نزدیک سے دیکھا ہے ماجدؔ!
نظر نے عرصۂ کرب و بلا بھی
ماجد صدیقی

بن کے ٹُوٹا وہی بلا ہم پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
حاسدوں کو جو طیش تھا ہم پر
بن کے ٹُوٹا وہی بلا ہم پر
بغض جو ہمرہوں کے دل میں تھا
دُور جا کر کہیں کھُلا ہم پر
جس سے رکھتے تھے آس شفقت کی
ہاتھ آخر وُہی اٹھا ہم پر
لے نہ لیں جاں بھی خاک زادے یہ
مہرباں گر نہ ہو خدا ہم پر
لائے کب خیر کی خبر ماجدؔ
کب یہ احساں کرے ہوا ہم پر
ماجد صدیقی

منہ پر ترے یہ قصّۂ کرب و بلا ہے کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 126
پھر اور سانحہ کوئی ماجدؔ ہُوا ہے کیا
منہ پر ترے یہ قصّۂ کرب و بلا ہے کیا
مرغانِ خوش نوا کی صدا کیوں بدل گئی
دیکھو تو در قفس کا کسی پر کھُلا ہے کیا
داغی تفنگ کس نے پرندوں کے درمیاں
شورش سی پھر یہ صحنِ چمن میں بپا ہے کیا
دیکھو تو سیلِ آب سے اُکھڑے درخت پر
رہ دیکھتا کسی کی کوئی گھونسلا ہے کیا
ملتا ہے اِس سے زخمِ دروں کو لباسِ حرف
تخلیق میں سخن کی وگرنہ دھرا ہے کیا
دھڑکن لہو کی بانگِ جرس ہو گئی ہے کیوں
پلکوں سے قافلہ کوئی ماجدؔ چلا ہے کیا
ماجد صدیقی

لوگ مر جائیں بلا سے تیری

احمد فراز ۔ غزل نمبر 90
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
کوئی نسبت کبھی اے جان سخن
کسی محروم نوا سے تیری
اے مرے ابر گریزاں کب تک
راہ تکتے ہی رہیں پیاسے تیری
تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد
ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری
تو بھی نادم ہے زمانے سے فراز
وہ بھی نا خوش ہیں وفا سے تیری
احمد فراز

کہیں‌زخم بیچ میں‌ آ گئے کہیں‌شعر کوئی سنا دیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 26
وہی عشق جو تھا کبھی جنوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں‌زخم بیچ میں‌ آ گئے کہیں‌شعر کوئی سنا دیا
وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی درِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں‌ زرِ داغِ دل بھی لٹا دیا
کبھی یوں‌بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں‌تھے تو دکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رلا دیا
کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں‌نہ تھے
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے بلا دیا
کوئی نامہ دلبرِ شہر کا کہ غزل گری کا بہانہ ہو
وہی حرف دل جسے مدتوں سے ہم اہلِ دل نے بھلا دیا
احمد فراز

کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 76
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی
کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی
ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقیں کس کو تھا ، بس یہ کہیے ، دوا لگ گئی
جُھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا ، سنگ اُٹھائے ہُوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خُدا لگ گئی
جنگلوں کے سفر میں توآسیب سے بچ گئی تھی ، مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی
نیم تاریک تنہائی میں سُرخ پُھولوں کا بن کِھل اُٹھا
ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی
وہ جو پہلے گئے تھے ، ہمیں اُن کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھی
جان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئی
دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اُٹھانے لگی
میرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئی
میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر ،
درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی
پروین شاکر

واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 68
بچتے ہیں اس قدر جو اُدھر کی ہوا سے ہم
واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم
افشائے رازِ عشق میں ضرب المثل ہے وہ
کیوں کر غبار دل میں نہ رکھیں صبا سے ہم
چلتے ہیں مے کدے کو کہاں یہ عزیز واں
رخصت تو ہو لیں کبر و نفاق و ریا سے ہم
اے جوشِ رشکِ قربِ عدو، اب تو مت اٹھا
بیٹھے ہیں دیکھ بزم میں کس التجا سے ہم
ہے جامہ پارہ پارہ، دل و سینہ چاک چاک
دیوانہ ہو گئے گلِ جیبِ قبا سے ہم
کیا جانتے تھے صبح وہ محشر قد آئے گا
شامِ شبِ فراق نہ مرتے بلا سے ہم
ہر بات پر نگاہ ہماری ہے اصل پر
لیتے ہیں مشکِ زخم کو زلفِ دوتا سے ہم
بے گانہ جب سے یار ہوا ہے، رقیب ہے
اُمید قطع کر چکے ہر آشنا سے ہم
بلبل یہ کہہ رہی ہے سرِ شاخسار پر
بدمست ہو رہے ہیں چمن کی ہوا سے ہم
کم التفات ہم سے سمجھتے ہیں اہلِ بزم
شرمندہ ہو گئے تری شرم و حیا سے ہم
ہاں شیفتہ پھر اس میں نصیحت ہی کیوں نہ ہو
سنتے ہیں حرفِ تلخ کو سمعِ رضا سے ہم
مصطفٰی خان شیفتہ

صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 56
ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ
کسی صنم نے مگر آپ کو جلایا ہے
نہیں تو حوروں کی کیوں اس قدر ثنا واعظ
تمہارے حسنِ جہاں سوز سے میں جلتا ہوں
کہ ہیں رقیب مرے شیخ و پارسا، واعظ
ملا کے دیکھیں کہ ہے خوب کون دونوں میں
ہم اس کو لاتے ہیں تو حور کو بلا واعظ
ترے فسونِ اثر ریز سے رسا تر ہے
فغانِ بے اثر و آہِ نارسا واعظ
کمی تھی حالتِ رندی میں اس کو کیا یارو
کوئی یہ پوچھے کہ کیوں شیفتہ ہوا واعظ
مصطفٰی خان شیفتہ

جان ہم کو وہاں بلا بھیجو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 65
اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اب کھلی ہیں وہاں
ان کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
دھول اڑتی ہے جو اس آنگن میں
اس کو بھیجو ، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اس گل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ شام ہجر کے ہاتھوں
اپنی اتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بد دعا بھیجو
جون ایلیا

داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 245
شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے
قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟
خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے
مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے
معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگرِان کردہ گناہوں کی سزا ہے
بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 117
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد
درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہلِ جنوں کے لئے آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکّرر لبِ ساقی میں صلا@ میرے بعد
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد
آئے ہے بے کسئ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
@نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔ @ نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ ‘پہ’ ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا

دیوان ششم غزل 1788
سوز دروں سے مجھ پہ ستم برملا ہوا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
بدحال ہوکے چاہ میں مرنے کا لطف کیا
دل لگتے جو موا کوئی عاشق بھلا ہوا
نکلا گیا نہ دام سے پرپیچ زلف کے
اے وائے یہ بلا زدہ دل مبتلا ہوا
کیا اور لکھیے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا
رہتا نہیں تڑپنے سے ٹک ہاتھ کے تلے
کیا جانوں میر دل کو مرے کیا بلا ہوا
میر تقی میر

خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے

دیوان پنجم غزل 1782
ترے بندے ہم ہیں خدا جانتا ہے
خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
جسے ذوق ہے وہ مزہ جانتا ہے
ہمیشہ دل اپنا جو بے جا ہے اس بن
مرے قتل کو وہ بجا جانتا ہے
گہے زیر برقع گہے گیسوئوں میں
غرض خوب وہ منھ چھپا جانتا ہے
مجھے جانے ہے آپ سا ہی فریبی
دعا کو بھی میری دغا جانتا ہے
جفا اس پہ کرتا ہے حد سے زیادہ
جنھیں یار اہل وفا جانتا ہے
لگا لے ہے جھمکے دکھاکر اسی کو
جسے مغ بچہ پارسا جانتا ہے
اسے جب نہ تب ہم نے بگڑا ہی پایا
یہی اچھے منھ کو بنا جانتا ہے
بلا شور انگیز ہے چال اس کی
اسی طرز کو خوش نما جانتا ہے
نہ گرمی جلاتی تھی ایسی نہ سردی
مجھے یار جیسا جلا جانتا ہے
یہی ہے سزا چاہنے کی ہمارے
ہمیں کشتہ خوں کے سزا جانتا ہے
مرے دل میں رہتا ہے تو ہی تبھی تو
جو کچھ دل کا ہے مدعا جانتا ہے
پری اس کے سائے کو بھی لگ سکے نہ
وہ اس جنس کو کیا بلا جانتا ہے
جہاں میر عاشق ہوا خوار ہی تھا
یہ سودائی کب دل لگا جانتا ہے
میر تقی میر

اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے

دیوان پنجم غزل 1767
ننوشتہ نامہ آیا یہ کچھ ہمیں لکھا ہے
اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے
کافر کا بھی رویہ ہوتا نہیں ہے ایسا
ٹھوکر لگا کے چلنا کس دین میں روا ہے
دنیا میں دیر رہنا ہوتا نہیں کسو کا
یہ تو سراے فانی اک کارواں سرا ہے
بندے کا دل بجا ہے جاتا ہوں شاد ہر جا
جب سے سنا ہے میں نے کیا غم ہے جو خدا ہے
پاے ثبات کس کا ٹھہرا ہے اس کے دیکھے
ہے ناز اک قیامت انداز اک بلا ہے
ہرجا بدن میں اس کے افراط سے ہے دلکش
میں کیا دل ملک بھی اٹکے اگر بجا ہے
مرنا تو ایک دم ہے عاشق مرے ہے ہر دم
وہ جانتا ہے جس کو پاس دل وفا ہے
خط اس کو لکھ کے غم سے بے خود ہوا ہوں یعنی
قاصد کے بدلے یاں سے جی ہی مرا چلا ہے
شوخی سے اس کی درہم برہم جہاں ہے سارا
ہنگامۂ قیامت اس کی کوئی ادا ہے
عمر عزیز گذری سب سے برائی کرتے
اب کر چلو بھلا کچھ شاید یہی بھلا ہے
جو ہے سو میر اس کو میرا خدا کہے ہے
کیا خاص نسبت اس سے ہر فرد کو جدا ہے
میر تقی میر

عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے

دیوان پنجم غزل 1739
بے اس کے تیرے حق میں کوئی کیا دعا کرے
عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے
اے سردمہر کوئی مرے رہ تو گرم ناز
پرسش کسو کے حال کی تیری بلا کرے
دامن بہت وسیع ہے آنکھوں کا اے سحاب
لازم ہے تجھ کو ان ہی کا پانی بھرا کرے
آکر بکھیرے پھول مری مشت خاک پر
مرغ چمن اگر حق صحبت ادا کرے
پتھر کی چھاتی چاہیے ہے میر عشق میں
جی جانتا ہے اس کا جو کوئی وفا کرے
میر تقی میر

دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ

دیوان پنجم غزل 1723
بندہ ہے یا خدا نہیں اس دلربا کے ساتھ
دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ
ملتا رہا کشادہ جبیں خوب و زشت سے
کیا آئینہ کرے ہے بسر یاں حیا کے ساتھ
گو دست لطف سر سے اٹھا لے کوئی شفیق
دل کا لگائو اپنا ہے دست دعا کے ساتھ
تدبیر دوستاں سے ہے بالعکس فائدہ
ہے درد عاشقی کو خصومت دوا کے ساتھ
کی کشتی اس کی پاک زبردست عشق نے
جن نے ملائے ہاتھ ٹک ایک اس بلا کے ساتھ
اوباش لڑکوں سے تو بہت کرچکے معاش
اب عمر کاٹیے گا کسو میرزا کے ساتھ
کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میر
آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ
میر تقی میر

برنگ برق سراپا وہ خودنما ہے شوخ

دیوان پنجم غزل 1599
جھمک سے اس کے بدن میں ہر ایک جا ہے شوخ
برنگ برق سراپا وہ خودنما ہے شوخ
پڑے ہے سینکڑوں جا راہ چلنے میں اس کی
کسو کی آنکھ تو دیکھے کوئی بلا ہے شوخ
نظر پڑی نہیں کیا اس کی شوخ چشمی میر
حضور یار کے چشم غزال کیا ہے شوخ
میر تقی میر

درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ

دیوان چہارم غزل 1486
چاہ میں دل پر ظلم و ستم ہے جور و جفا ہے کیا کیا کچھ
درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ
عاشق کے مر جانے کے اسباب بہت رسوائی میں
دل بھی لگا ہے شرم و حیا ہے مہر و وفا ہے کیا کیا کچھ
عشق نے دے کر آگ یکایک شہر تن کو پھونک دیا
دل تو جلا ہے دماغ جلا ہے اور جلا ہے کیا کیا کچھ
دل لینے کو فریفتہ کے بہتیرا کچھ ہے یار کنے
غمزہ عشوہ چشمک چتون ناز و ادا ہے کیا کیا کچھ
کیا کیا دیدہ درائی سی تم کرتے رہے اس عالم میں
تم سے آگے سنو ہو صاحب نہیں ہوا ہے کیا کیا کچھ
حسرت وصل اندوہ جدائی خواہش کاوش ذوق و شوق
یوں تو چلا ہوں اکیلا لیکن ساتھ چلا ہے کیا کیا کچھ
کیا کہیے جب میں نے کہا ہے میر ہے مغرور اس پر تو
اپنی زباں مت کھول تو ان نے اور کہا ہے کیا کیا کچھ
میر تقی میر

آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ

دیوان چہارم غزل 1481
یار صد حیف کہ بیگانہ رہا اپنے ساتھ
آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ
اتحاد اتنا ہے اس سے کہ ہمیشہ ہے وصال
اپنے مطلوب کو ہے ربط سدا اپنے ساتھ
عہد یہ تھا کہ نہ بے وصل بدن سے جاوے
سو جدا ہوتا ہے کی جی نے دغا اپنے ساتھ
رنج نے رنج بہت کھینچے پہنچ کر ہم تک
اک بلا میں ہے گرفتار بلا اپنے ساتھ
دس گنا دکھنے لگا زخم رکھے مرہم کے
درد کا کام رہی کرتی دوا اپنے ساتھ
وارد شہر ہیں یا دشت میں ہم شوق طلب
ہر زماں پھرتا ہے اے میر لگا اپنے ساتھ
میر تقی میر

کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق

دیوان چہارم غزل 1417
لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
عشق کی شان ارفع اکثر ہے لیکن شانیں عجائب ہیں
گہ ساری ہے دماغ و دل میں گاہے سب سے جدا ہے عشق
کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالوں سے
بوکش ہوکر سیب ذقن کا غش نہ کرے تو سزا ہے عشق
الفت سے پرہیز کیا کر کلفت اس میں قیامت ہے
یعنی درد و رنج و تعب ہے آفت جان بلا ہے عشق
میر خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے
یار موافق مل جاوے تو لطف ہے چاہ مزہ ہے عشق
میر تقی میر

سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا

دیوان چہارم غزل 1312
کرتا ہوں اللہ اللہ درویش ہوں سدا کا
سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی
زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا
یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد
جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا
کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن
ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا
ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی
ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا
ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں
مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا
آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو
جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا
یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا
کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے
مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا
زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی
میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے
آگے بھی میر سید کرتے گئے ہیں ساکا
میر تقی میر

لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں

دیوان سوم غزل 1208
اثر ہوتا ہماری گر دعا میں
لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں
نہ اٹکا ہائے ٹک یوسفؑ کا مالک
وگرنہ مصر سب ملتا بہا میں
قصور اپنے ہی طول عمر کا تھا
نہ کی تقصیر ان نے تو جفا میں
سخن مشتاق ہیں بندے کے سب لوگ
سر و دل کس کو ہے عشق خدا میں
کفن کیا عشق میں میں نے ہی پہنا
کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں
پیام اس گل کو اس کے ہاتھ دیتے
سبک پائی نہ ہوتی گر صبا میں
جیو خوش یا کوئی ناخوش ہمیں کیا
ہم اپنے محو ہیں ذوق فنا میں
ہمیں فرہاد و مجنوں جس سے چاہو
تم آکر پوچھ لو شہر وفا میں
سراپا ہی ادا و ناز ہے یار
قیامت آتی ہے اس کی ادا میں
بلا زلف سیاہ اس کی ہے پرپیچ
وطن دل نے کیا ہے کس بلا میں
ضعیف و زار تنگی سے ہیں ہرچند
ولیکن میر اڑتے ہیں ہوا میں
میر تقی میر

تھا میر بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ

دیوان سوم غزل 1156
صحبت کسو سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ
باتیں کرے برشتگی دل کی پر کہاں
کرتا ہے اس دماغ جلے کا وفا دماغ
دو حرف زیرلب کہے پھر ہو گیا خموش
یعنی کہ بات کرنے کا کس کو رہا دماغ
کر فکر اپنی طاقت فکری جو ہو ضعیف
اب شعر و شاعری کی طرف کب لگا دماغ
آتش زبانی شمع نمط میر کی بہت
اب چاہیے معاف رکھیں جل گیا دماغ
میر تقی میر

کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر

دیوان سوم غزل 1135
سحر گوش گل میں کہا میں نے جا کر
کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر
لگا کہنے فرصت ہے یاں یک تبسم
سو وہ بھی گریباں میں منھ کو چھپا کر
تناسب پہ اعضا کے اتنا تبختر
بگاڑا تجھے خوب صورت بنا کر
قیامت رہا اضطراب اس کے غم میں
جگر پھر گیا رات ہونٹوں پہ آ کر
اسی آرزو میں گئے ہم جہاں سے
نہ پوچھا کبھو لطف سے ٹک بلا کر
کھنچی تیغ اس کی تو یاں نیم جاں تھے
خجالت سے ہم رہ گئے سر جھکا کر
مبارک تمھیں میر ہو عشق کرنا
بہت ہم تو پچھتائے دل کو لگا کر
میر تقی میر

دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ

دیوان سوم غزل 1124
جانا نہ دل کو تھا تری زلف رسا کے بیچ
دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ
فرہاد و قیس جس سے مجھے چاہو پوچھ لو
مشہور ہے فقیر بھی اہل وفا کے بیچ
آخر تو میں نے طول دیا بحث عشق کو
کوتاہی تم بھی مت کرو جور و جفا کے بیچ
آئی جو لب پہ آہ تو میں اٹھ کھڑا ہوا
بیٹھا گیا نہ مجھ سے تو ایسی ہوا کے بیچ
اقبال دیکھ اس ستم و ظلم و جور پر
دیکھوں ہوں جس کو ہے وہ اسی کی دعا کے بیچ
دل اس چمن میں بہتوں سے میرا لگا ولے
بوے وفا نہ پائی کسو آشنا کے بیچ
جوش و خروش میر کے جاتے رہے نہ سب
ہوتا ہے شور چاہنے کی ابتدا کے بیچ
میر تقی میر

ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت

دیوان سوم غزل 1115
سیر کی ہم نے اٹھ کے تا صورت
ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت
منھ لگانا تو درکنار ان نے
نہ کہا ہے یہ آشنا صورت
منھ دکھاتی ہے آرسی ہر صبح
تو بھی اپنی تو ٹک دکھا صورت
خوب ہے چہرئہ پری لیکن
آگے اس کے ہے کیا بلا صورت
کب تلک کوئی جیسے صورت باز
آوے پیاری بنا بنا صورت
ایک دن تو یہ کہہ کہ ملنے کی
تو بھی ٹھہرا کے کوئی لا صورت
حلقے آنکھوں میں پڑ گئے منھ زرد
ہو گئی میر تیری کیا صورت
میر تقی میر

الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے

دیوان دوم غزل 996
بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے
الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے
دل دھڑکے ہے جاتے کچھ بت خانے سے کعبے کو
اس راہ میں پیش آوے کیا ہم کو خدا جانے
ہے محو رخ اپنا تو آئینے میں ہر ساعت
صورت ہے جو کچھ دل کی سو تیری بلا جانے
کچھ اس کی بندھی مٹھی اس باغ میں گذرے ہے
جو زخم جگر اپنے جوں غنچہ چھپا جانے
کیا سینے کے جلنے کو ہنس ہنس کے اڑاتا ہوں
جب آگ کوئی گھر کو اس طور لگا جانے
میں مٹی بھی لے جائوں دروازے کی اس کے تو
اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
اپنے تئیں بھی کھانا خالی نہیں لذت سے
کیا جانے ہوس پیشہ چکھے تو مزہ جانے
یوں شہر میں بہتیرے آزاردہندے ہیں
تب جانیے جب کوئی اس ڈھب سے ستا جانے
کیا جانوں رکھو روزے یا دارو پیو شب کو
کردار وہی اچھا تو جس کو بھلا جانے
آگاہ نہیں انساں اے میر نوشتے سے
کیا چاہیے ہے پھر جو طالع کا لکھا جانے
میر تقی میر

کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے

دیوان دوم غزل 990
اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے
کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے
حرص و ہوس سے باز رہے دل تو خوب ہے
ہے قہر اس کلی کے تئیں گر ہوا لگے
تلخ اب تو اپنے جی کو بھی لگتی ہے اس نمط
جیسے کسو کے زخم پہ تیر اک دو آ لگے
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جا لگے
ایسے لگے پھرے ہیں بہت سائے کی روش
جانے دے ایسی حور پری سے بلا لگے
وہ بھی چمن فروز تو بلبل ہے سامنے
گل ایسے منھ کے آگے بھلا کیا بھلا لگے
پس جائیں یار آنکھ تری سرمگیں پڑے
دل خوں ہو تیرے پائوں میں بھر کر حنا لگے
بن ہڈیوں ہماری ہما کچھ نہ کھائے گا
ٹک چاشنی عشق کا اس کو مزہ لگے
خط مت رکھو کہ اس میں بہت ہیں قباحتیں
رکھیے تمھارے منھ پہ تو تم کو برا لگے
مقصود کے خیال میں بہتوں نے چھانی خاک
عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے
سب چاہتے ہیں دیر رہے میر دل زدہ
یارب کسو تو دوست کی اس کو دعا لگے
میر تقی میر

جان کا روگ ہے بلا ہے عشق

دیوان دوم غزل 837
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
گر پرستش خدا کی ثابت کی
کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق
دلکش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
توکہے جنس ناروا ہے عشق
میرجی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
میر تقی میر

کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

دیوان دوم غزل 833
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع
کب تلک ان بتوں سے چشم رہے
ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع
میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ
ڈھونڈو تم یار و آشنا سے نفع
مغتنم جان گر کسو کے تئیں
پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع
اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل
میر شاید کہ ہو دعا سے نفع
میر تقی میر

کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش

دیوان دوم غزل 827
مطلق نہیں ہے ایدھر اس دلربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اس کی جفا کی خواہش
لعل خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
اقلیم حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے جنس وفا کی خواہش
خون جگر ہی کھانا آغاز عشق میں ہے
رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش
وہ شوخ دشمن جاں اے دل تو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش
میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میر اونچا
رکھتا ہے اہل دل سے ہر اک دعا کی خواہش
میر تقی میر

کھینچے ایذا ہمیشہ کس کی بلا

دیوان دوم غزل 758
چاک کر سینہ دل میں پھینک دیا
کھینچے ایذا ہمیشہ کس کی بلا
تم کو جیتا رکھے خدا اے بتاں
مر گئے ہم تو کرتے کرتے وفا
اٹھ گیا میر وہ جو بالیں سے
پھر مری جان مجھ میں کچھ نہ رہا
میر تقی میر

دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا

دیوان دوم غزل 692
اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش
رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا
کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات
کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا
نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین
آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا
اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر
جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا
جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا
کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا
خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا
میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا
ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار
ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا
جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ
پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا
جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں
وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا
پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ
دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا
بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر
دیکھا تھا ہم نے میر کو کچھ تو بھلا ہوا
میر تقی میر

بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا

دیوان دوم غزل 683
نظر میں طور رکھ اس کم نما کا
بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا
گلوں کے پیرہن ہیں چاک سارے
کھلا تھا کیا کہیں بند اس قبا کا
پرستش اب اسی بت کی ہے ہر سو
رہا ہو گا کوئی بندہ خدا کا
بلا ہیں قادرانداز اس کی آنکھیں
کیا یکہ جنازہ جس کو تاکا
بجا ہے عمر سے اب ایک حسرت
گیا وہ شور سر کا زور پا کا
مداوا خاطروں سے تھا وگرنہ
بدایت مرتبہ تھا انتہا کا
لگا تھا روگ جب سے یہ تبھی سے
اثر معلوم تھا ہم کو دوا کا
مروت چشم رکھنا سادگی ہے
نہیں شیوہ یہ اپنے آشنا کا
کہیں اس زلف سے کیا لگ چلی ہے
پڑے ہے پائوں بے ڈھب کچھ صبا کا
نہ جا تو دور صوفی خانقہ سے
ہمیں تو پاس ہے ابر و ہوا کا
نہ جانوں میر کیوں ایسا ہے چپکا
نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا
کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو
نہ سونے دے گا شور اس بے نوا کا
میر تقی میر

آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

دیوان اول غزل 593
کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے
کر نمک سود سینۂ مجروح
جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے
کاہش دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے
چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے
بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے
مر گئے ہم تو مر گئے تو جی
دل گرفتہ تری بلا ہووے
عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے
پھر نہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خدا ہووے
نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میر مر رہا ہووے
میر تقی میر

کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے

دیوان اول غزل 581
انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے
کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے
واں آرسی ہے وہ ہے یاں سنگ ہے چھاتی ہے
گذرے ہے جو کچھ ہم پر سو اس کی بلا جانے
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی
ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے
میں خط جبیں اپنا یارو کسے دکھلائوں
قسمت کے لکھے کے تیں یاں کون مٹا جانے
بے طاقتی دل نے ہم کو نہ کیا رسوا
ہے عشق سزا اس کو جو کوئی چھپا جانے
اس مرتبہ ناسازی نبھتی ہے دلا کوئی
کچھ خُلق بھی پیدا کر تا خلق بھلا جانے
لے جایئے میر اس کے دروازے کی مٹی بھی
اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
میر تقی میر

سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے

دیوان اول غزل 566
حصول کام کا دلخواہ یاں ہوا بھی ہے
سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے
موئے ہی جاتے ہیں ہم درد عشق سے یارو
کسو کے پاس اس آزار کی دوا بھی ہے
اداسیاں تھیں مری خانقہ میں قابل سیر
صنم کدے میں تو ٹک آ کے دل لگا بھی ہے
یہ کہیے کیونکے کہ خوباں سے کچھ نہیں مطلب
لگے جو پھرتے ہیں ہم کچھ تو مدعا بھی ہے
ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں
نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے
جو کھولوں سینۂ مجروح تو نمک چھڑکے
جراحت اس کو دکھانے کا کچھ مزہ بھی ہے
کہاں تلک شب و روز آہ درد دل کہیے
ہر ایک بات کو آخر کچھ انتہا بھی ہے
ہوس تو دل میں ہمارے جگہ کرے لیکن
کہیں ہجوم سے اندوہ غم کے جا بھی ہے
غم فراق ہے دنبالہ گرد عیش وصال
فقط مزہ ہی نہیں عشق میں بلا بھی ہے
قبول کریے تری رہ میں جی کو کھو دینا
جو کچھ بھی پایئے تجھ کو تو آشنا بھی ہے
جگر میں سوزن مژگاں کے تیں کڈھب نہ گڑو
کسو کے زخم کو تونے کبھو سیا بھی ہے
گذار شہر وفا میں سمجھ کے کر مجنوں
کہ اس دیار میں میر شکستہ پا بھی ہے
میر تقی میر

الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے

دیوان اول غزل 563
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
الٰہی اس بلاے ناگہاں پر بھی بلا آوے
رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی سے
بلا سے چاک ہی ہوجاوے سینہ ٹک ہوا آوے
ترا آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دم آخر
یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے
یہ رسم آمد و رفت دیار عشق تازہ ہے
ہنسی وہ جائے میری اور رونا یوں چلا آوے
اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جاکر آشیاں میرا جلا آوے
امید رحم ان سے سخت نافہمی ہے عاشق کی
یہ بت سنگیں دلی اپنی نہ چھوڑیں گر خدا آوے
یہ فن عشق ہے آوے اسے طینت میں جس کی ہو
تو زاہد پیر نابالغ ہے بے تہ تجھ کو کیا آوے
ہمارے دل میں آنے سے تکلف غم کو بیجا ہے
یہ دولت خانہ ہے اس کا وہ جب چاہے چلا آوے
برنگ بوے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گذرے
میسر میر صاحب گر دل بے مدعا آوے
میر تقی میر

یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے

دیوان اول غزل 476
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے
وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی اس کی بلا سے
کوئی ہم سے کھلتے ہیں بند اس قبا کے
یہ عقدے کھلیں گے کسو کی دعا سے
پشیمان توبہ سے ہو گا عدم میں
کہ غافل چلا شیخ لطف ہوا سے
نہ رکھی مری خاک بھی اس گلی میں
کدورت مجھے ہے نہایت صبا سے
جگر سوے مژگاں کھنچا جائے ہے کچھ
مگر دیدئہ تر ہیں لوہو کے پیاسے
اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے
تعصب تجھے ہے عجب ماسوا سے
طبیب سبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا درد عشق آہ دونا دوا سے
ٹک اے مدعی چشم انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے
نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے
میر تقی میر

پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

دیوان اول غزل 470
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی
کیونکر بجھائوں آتش سوزان عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
دل کو گئے ہی یاں سے بنے اب کہ ہر سحر
کوچے میں تیری زلف کے آنے صبا لگی
زلف سیاہ یار کی رہتی ہے چت چڑھی
یہ تازہ میرے جی کو کہاں کی بلا لگی
بیتابی و شکیب و سفر حاصل کلام
اس دل مریض غم کو نہ کوئی دوا لگی
ڈر مجھ نفس سے غیر کہ پھر جی ہی سے گیا
جس کو کسو ستم زدہ کی بد دعا لگی
لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نالگی
تھا صیدناتواں میں ولے میرے خون سے
پائوں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی
کشتے کا اس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میر
کس جاے اس شہید کے تیغ جفا لگی
میر تقی میر

اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی

دیوان اول غزل 462
ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی
اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی
طبیبوں نے تجویز کی مرگ عاشق
مناسب مرض کے دوا کیا نکالی
نہیں اس گذرگہ سے آتی ادھر اب
نئی راہ کوئی صبا کیا نکالی
دلا اس کے گیسو سے کیوں لگ چلا تو
یہ اک اپنے جی کی بلا کیا نکالی
رجھا ہی دیا واہ رے قدردانی
وفا کی ہماری جزا کیا نکالی
دم صبح جوں آفتاب آج ظالم
نکلتے ہی تیغ جفا کیا نکالی
لگے در بدر میر چلاتے پھرنے
گدا تو ہوئے پر صدا کیا نکالی
میر تقی میر

دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

دیوان اول غزل 456
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول
شرمندئہ اثر تو ہماری دعا نہ تھی
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی
آئی پری سی پردئہ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی
اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی
میر تقی میر

جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی

دیوان اول غزل 449
گیسو سے اس کے میں نے کیوں آنکھ جا لگائی
جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی
تھا دل جو پکا پھوڑا بسیاری الم سے
دکھتا گیا دو چنداں جوں جوں دوا لگائی
ذوق جراحت اس کا کس کو نہیں ہے لیکن
بخت اس کے جس کے ان نے تیغ جفا لگائی
دم بھی نہ لینے پایا پانی بھی پھر نہ مانگا
جس تشنہ لب کو ان نے تلوار آ لگائی
تھا صید ناتواں میں لیکن لہو سے میرے
پائوں پہ ان نے اپنے بھر کر حنا لگائی
بالعکس آج اس کے سارے سلوک دیکھے
کیا جانوں دشمنوں نے کل اس سے کیا لگائی
جو آنسو پی گیا میں آخر کو میر ان نے
چھاتی جلا جگر میں اک آگ جا لگائی
میر تقی میر

یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی

دیوان اول غزل 442
کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی
یوں پھونک کرکے خاک مری سب اڑا گئی
کچھ تھی طپش جگر کی تو بارے مزاج داں
پر دل کی بے قراری مری جان کھا گئی
کس پاس جا کے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آگئی
کون اس ہوا میں زخمی نہیں میری آہ کا
بجلی رہی تھی سو بھی تو سینہ دکھا گئی
سودا جو اس کے سر سے گیا زلف یار کا
تو تو بڑی ہی میر کے سر سے بلا گئی
میر تقی میر

وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ

دیوان اول غزل 421
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ
آگ تھے ابتداے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بود آدم نمود شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ
شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ
بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ
نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ
دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ
میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ
ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ
تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ
میر کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ
میر تقی میر

اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

دیوان اول غزل 388
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو
چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکر لب اب وہ نہیں رہا تو
جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہرسحر کے
یا اب چمن میں بلبل ہم ہی رہیں گے یا تو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بلا تو
تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے
دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو
تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے
گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو
دل کیونکے راست آوے دعواے آشنائی
دریاے حسن وہ مہ کشتی بہ کف گدا تو
ہر فرد یاس ابھی سے دفتر ہے تجھ گلے کا
ہے قہر جب کہ ہو گا حرفوں سے آشنا تو
عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تو آنکھوں کا مدعا تو
منھ کریے جس طرف کو سو ہی تری طرف ہے
پر کچھ نہیں ہے پیدا کیدھر ہے اے خدا تو
آتی بخود نہیں ہے باد بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تو
کم میری اور آنا کم آنکھ کا ملانا
کرنے سے یہ ادائیں ہے مدعا کہ جا تو
گفت و شنود اکثر میرے ترے رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو
کہہ سانجھ کے موئے کو اے میر روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو
میر تقی میر

پر وفا کا برا کیا تونیں

دیوان اول غزل 367
مجھ کو مارا بھلا کیا تونیں
پر وفا کا برا کیا تونیں
حسرتیں اس کی سر پٹکتی ہیں
مرگ فرہاد کیا کیا تونیں
اس کے جور و جفا کی کیا تقصیر
جو کیا سو وفا کیا تونیں
یہ چمن ہے قفس سے پر اے ضعف
مجھ کو بے دست و پا کیا تونیں
کل ہی پڑتی نہیں ہے تجھ بن آج
میر کو کیا بلا کیا تونیں
وہ جو کہتا تھا تو ہی کریو قتل
میر کا سو کہا کیا تونیں
میر تقی میر

ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں

دیوان اول غزل 293
مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنر عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں کڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشن دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچۂ افسردہ کہ مردود صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلۂ پا کا مرا اشک
از بس کہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
آیا کوئی بھی طرح مرے چین کی ہو گی
آزردہ ہوں جینے سے میں مرنے سے خفا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سر راہ کوئی دم میں ہوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شب ہجراں
میں سوختہ بھی منتظر روز جزا ہوں
گو طاقت و آرام و خورو خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں ہوں بہر چیز
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
بہتر ہے غرض خامشی ہی کہنے سے یاراں
مت پوچھو کچھ احوال کہ مر مر کے جیا ہوں
تب گرم سخن کہنے لگا ہوں میں کہ اک عمر
جوں شمع سر شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضل الٰہی سے سبھی چاک
ہے وقت دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں
میر تقی میر

لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم

دیوان اول غزل 284
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جی کے مر گئے ہوتے بلا سے ہم
چھوٹا نہ اس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایان کار مارے گئے اس ادا سے ہم
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول گل چنا کیے باغ وفا سے ہم
غافل نہ اپنی دیدہ درائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم
دو چار دن تو اور بھی آ تو کراہتہً
اب ہوچکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم
آئینے کی مثال پس از صد شکست میر
کھینچا بغل میں یار کو دست دعا سے ہم
میر تقی میر

لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم

دیوان اول غزل 282
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم
کام کیا آتے ہیں گے معلومات
یہ تو سمجھے ہی نہ کہ کیا ہیں ہم
تم ہی بیگانگی کرو نہ کرو
دلبرو وے ہی آشنا ہیں ہم
اے بتاں اس قدر جفا ہم پر
عاقبت بندئہ خدا ہیں ہم
سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم
دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم
ہے نمک سود سب تن مجروح
تیرے کشتوں میں میرزا ہیں ہم
تیرے کوچے میں تا بہ مرگ رکھا
کشتۂ منت وفا ہیں ہم
خوف ہم کو نہیں جنوں سے کچھ
یوں تو مجنوں کے بھی چچا ہیں ہم
آستاں پر ترے ہی گذری عمر
اسی دروازے کے گدا ہیں ہم
ڈرتے ہیں تیری بے دماغی سے
کیونکہ پھر یار جی بلا ہیں ہم
کوئی خواہاں نہیں ہمارا میر
گوئیا جنس ناروا ہیں ہم
میر تقی میر

اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا

دیوان اول غزل 119
لخت جگر تو اپنے یک لخت روچکا تھا
اشک فقط کا جھمکا آنکھوں سے لگ رہا تھا
دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا
ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا
اس قید جیب سے میں چھوٹا جنوں کی دولت
ورنہ گلا یہ میرا جوں طوق میں پھنسا تھا
مشت نمک کی خاطر اس واسطے ہوں حیراں
کل زخم دل نہایت دل کو مرے لگا تھا
اے گرد باد مت دے ہر آن عرض وحشت
میں بھی کسو زمانے اس کام میں بلا تھا
بن کچھ کہے سنا ہے عالم سے میں نے کیا کیا
پر تونے یوں نہ جانا اے بے وفا کہ کیا تھا
روتی ہے شمع اتنا ہر شب کہ کچھ نہ پوچھو
میں سوز دل کو اپنے مجلس میں کیوں کہا تھا
شب زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا
سر مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا
سو بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں
اس دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا
یہ سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور اس کا اس کے کوچے میں جابجا تھا
سن کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا
کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا
آنکھیں مری کھلیں جب جی میر کا گیا تب
دیکھے سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا
میر تقی میر

گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا

دیوان اول غزل 117
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا
گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا
سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کاگل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا
دے بھی مئے دوآتشہ زورہی سرد ہے ہوا
وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض
ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا
فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا
جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم
جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا
بوے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم رات کسی کا دل جلا
میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر
آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میر کا
میر تقی میر

اب کے شرط وفا بجا لایا

دیوان اول غزل 85
بارہا گور دل جھنکا لایا
اب کے شرط وفا بجا لایا
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم میں میں دکھا لایا
دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر

اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 313
نرم جھونکے سے یہ اِک زَخم سا کیا لگتا ہے
اَے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے
ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی
سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے
وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری
ابر پھیلا ہوا دامانِ دُعا لگتا ہے
اَے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اَپنے منظر ہی میں ہر رَنگ بھلا لگتا ہے
ایسی بے رَنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دُنیا
پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے
دیکھنے والو! مجھے اُس سے الگ مت جانو
یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے
زَرد دَھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی
جیسے اک خیمہ سرِ دشت بلا لگتا ہے
عرفان صدیقی

تو اکیلا ہے کہ دُنیا سے جدا چلتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 309
کام اس شکوۂ تنہائی سے کیا چلتا ہے
تو اکیلا ہے کہ دُنیا سے جدا چلتا ہے
رنگ آسان ہیں پہچان لیے جاتے ہیں
دیکھنے سے کہیں خوشبو کا پتا چلتا ہے
لہر اُٹّھے کوئی دل میں تو کنارے لگ جائیں
یہ سمندر ہے یہاں حکمِ ہوا چلتا ہے
پاؤں میں خاک کی زنجیر پڑی ہے کب سے
ہم کہاں چلتے ہیں نقشِ کفِ پا چلتا ہے
شہر در شہر دواں ہے مری فریاد کی گونج
مجھ سے آگے مرا رہوارِ صدا چلتا ہے
اس خرابے میں بھی ہوجائے گی دُنیا آباد
ایک معمورہ پسِ سیلِ بلا چلتا ہے
عرفان صدیقی

ہوا کبھی سرِ دشتِ بلا چلی ہی نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 202
مری طرف تری موج نوا چلی ہی نہیں
ہوا کبھی سرِ دشتِ بلا چلی ہی نہیں
تمام فیصلے بس ایک شخص کرتا تھا
وہاں یہ بحثِ خطا و سزا چلی ہی نہیں
دِل و زَباں میں کبھی جیسے رابطہ ہی نہ تھا
اُٹھے بھی ہاتھ تو رسمِ دُعا چلی ہی نہیں
یہ مت سمجھ کہ ترے قتل کا خیال نہ تھا
نکل چکی تھی مگر بے وفا چلی ہی نہیں
میں چاہتا تھا کہ کچھ سرکشی کی داد ملے
تو اَب کے شہر میں تیغِ جفا چلی ہی نہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے، ہوا چلی ہی نہیں
عرفان صدیقی

عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 177
ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں
عجب درخت ہیں‘ دشتِ بلا میں زندہ ہیں
گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم
اسی جزیرۂ بے آشنا میں زندہ ہیں
گلی میں ختم ہوا قافلے کا شور‘ مگر
مسافروں کی صدائیں سرا میں زندہ ہیں
مجھے ہی کیوں ہو کسی اجنبی پکار کا خوف
سبھی تو دامنِ کوہِ ندا میں زندہ ہیں
خدا کا شکر‘ ابھی میرے خواب ہیں آزاد
مرے سفر مری زنجیر پا میں زندہ ہیں
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
عرفان صدیقی

آج اُس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 169
وہ خدا ہے کہ صنم، ہاتھ لگاکر دیکھیں
آج اُس شخص کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گل بدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہ کا آئینہ دِکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دِکھائی دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت
اَب تکلف کی یہ دیوار گراکر دیکھیں
خیر، دلّی میں تو اوراقِ مصور تھے بہت
لاؤ، اُس شہر کی گلیوں میں بھی جا کر دیکھیں
کون آتا ہے یہاں تیز ہواؤں کے سوا
اپنی دہلیز پہ اِک شمع جلا کر دیکھیں
وہ سمجھتا ہے یہ اندازِ تخاطب کہ نہیں
یہ غزل اُس غزل آراء کو سناکر دیکھیں
عرفان صدیقی

مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 92
آسمانوں کو الہ کا درد تھا
مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا
اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی
مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا
اب تلک احساس میں موجود ہے
کتنا حرفِ برملا کا درد تھا
رات تھی روتی ہوئی کوئل کہیں
اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا
رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ
ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا
اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے دل
کیسا پہلی ابتلا کا درد تھا
منصور آفاق

تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 21
کہیں خوف اور کہیں غالب ہے رجا اے زاہد
تیرا قبلہ ہے جدا، میرا جدا اے زاہد
ہم دکھا دیں گے کہ زاہد اور ہے نیکی کچھ اور
کچھ بہت دور نہیں روز جزا اے زاہد
جال جب تک ہے یہ پھیلا ہوا دینداری کا
فکر دنیا کا کرے تیری بلا اے زاہد
الطاف حسین حالی

کیمیا کو طلا سے کیا مطلب

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 6
درد دل کو دوا سے کیا مطلب
کیمیا کو طلا سے کیا مطلب
جو کرینگے بھرینگے خود واعظ
تم کو میری خطا سے کیا مطلب
جن کے معبود حورو غلماں ہیں
ان کو زاہد خدا سے کیا مطلب
کام ہے مردمی سے انساں کی
زبد یا اتقا سے کیا مطلب
صوفی شہرِ با صفا ہے اگر
ہو ہماری بلا سے، کیا مطلب
نگہت مے پہ عشق میں جو حالیؔ
ان کو درد و صفا سے کیا مطلب
الطاف حسین حالی

کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 41
فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے
کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے
جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا
کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا ٹھہرے
تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے
تڑپنے کو کہا تڑپے ، ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے
زہے قسمت حسینوں کی بُرائی بھی بھلائی ہے
کریں یہ چشم پوشی بھی تو نظروں میں حیا ٹھہرے
یہ عالم بیقراری کا ہے جب آغاز الفت میں
دھڑکتا ہے دل اپنا دیکھئے انجام کیا ٹھہرے
حقیقت کھول دی آئینہ وحدت نے دونوں کی
نہ تم ہم سے جدا ٹھہرے ، نہ ہم تم سے جدا ٹھہرے
دل مضطر سے کہہ دو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے
ذرا بہکے ذرا سنبھلے ذرا تڑپے ذرا ٹھہرے
شب وصلت قریب آنے نہ پائے کوئی خلوت میں
ادب ہم سے جدا ٹھہرے حیا تم سے جدا ٹھہرے
اٹھو جاؤ سدھا رو ، کیوں مرے مردے پہ روتے ہو
ٹھہرنے کا گیا وقت اب اگر ٹھہرے تو کیا ٹھہرے
نہ تڑپا چارہ گر کے سامنے اے درد یوں مجھ کو
کہیں ایسا نہ ہو یہ بھی تقاضائے دوا ٹھہرے
ابھی جی بھر کے وصل یار کی لذت نہیں اٹھی
کوئی دم اور آغوش اجابت میں دعا ٹھہرے
خیال یار آنکلا مرے دل میں تو یوں بولا
یہ دیوانوں کی بستی ہے یہاں میری بلا ٹھہرے
امیر آیا جو وقت بد تو سب نے راہ لی اپنی
ہزاروں سیکڑوں میں درد و غم دو آشنا ٹھہرے
امیر مینائی

پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 19
لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو
پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو
ظالم تجھے دل دیا، خطا کی
بس بس میں پُہنچ گیا، سزا کو
اے حضرتِ دل بتوں کو سجدہ
اتنا تو نہ بھولئیے خدا کو
اتنا بکئے کہ کچھ کہے وہ
یوں کھولیئے قفل مدعا کو
کہتی ہے امیر اُس سے شوخی
اب مُنہ نہ دکھائیے حیا کو
امیر مینائی

کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 162
رنگ محفل ہے ادا سے تیری
کوئی اٹھ جائے بلا سے تیری
دل تری بزم میں لے آتا ہے
ہم تو واقف ہیں رضا سے تیری
مرگ و ہستی کی حدیں ملنے لگیں
بات چل نکلی وفا سے تیری
تیرے جانے پہ ہوا ہے معلوم
شمع روشن تھی ضیا سے تیری
وقت جب چال کوئی چلتا ہے
یاد دیتی ہے دلاسے تیری
تیری آمد کا بہانہ ہے بہار
پھول کھلتے ہیں صدا سے تیری
بوئے گل دیکھی ہے رسوا ہوتے
کیا کریں بات صبا سے تیری
کرتے پھرتے ہیں بگولے باقیؔ
بات ہر آبلہ پا سے تیری
باقی صدیقی