ٹیگ کے محفوظات: بریں

زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے

یہ پھول نہ وہ ماہِ مبیں میرے لیے ہے
زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے
پلکوں پہ سجاؤں کہ اسے دل میں چُھپاؤں
شبنم کا گُہرتاب نگیں میرے لیے ہے
اپنے کسی دُکھ پر مری آنکھیں نہیں چھلکیں
روتا ہوں کہ وہ آج غمیں میرے لیے ہے
دیوار جُدائی کی اٹھاتی رہے دنیا
اب وہ رگِ جاں سے بھی قریں میرے لیے ہے
آتی ہے ترے پائے حنائی کی مہک سی
مخمل سے سوا فرشِ زمیں میرے لیے ہے
رقصاں ہیں بہر گام تری یاد کے جگنو
اب دشت بھی فردوسِ بریں میرے لیے ہے
چاہے گا اسے کون، شکیبؔ اتنی لگن سے
وہ شمعِ فروزاں ہو کہیں، میرے لیے ہے
شکیب جلالی

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچہءِ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا
وہ گردبادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا
ہر ذرۤہءِ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
عرفان ستار

ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور
بال یہ پُوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر
اُنکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردوسِ بریں کوئی اور
آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب
دشمن ہیں تو ایک ہمِیں اپنے ہیں ،نہیں کوئی اور
چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور
اِس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور
دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب
دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور
ہم ذی جوہر ہیں، یہ گماں ماجدؔ تھا گمانِ محض
اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور
ماجد صدیقی

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 14
دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچہءِ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا
وہ گردبادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا
ہر ذرۤہءِ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
عرفان ستار

سارا گھر احمریں نظر آیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 37
جب وہ ناز آفریں نظر آیا
سارا گھر احمریں نظر آیا
میں نے جب بھی نگاہ کی تو مجھے
اپنا گل شبنمیں نظر آیا
حسبِ خواہش میں اس سے ملتے وقت
سخت اندوہ گیں نظر آیا
گرم گفتار ہے وہ کم گفتار
کیا اسے میں نہیں نظر آیا
وقتِ تخصت، دمِ سکوت اور صحن
آج چرخِ بریں نظر آیا
شہر ہا شہر گھومنے والو
تم کو وہ بھی کہیں نظر آیا
اُس کو گم کر کے اپنا ہر دُرِ اشک
ننگِ ہر آستیں نظر آیا
کون آیا ہے دیکھ تیرہ نگاہ!
نظر آیا؟ نہیں نظر آیا
تُو مجھے اے مرے فروغِ نگاہ
اب دمِ واپسیں نظر آیا
جون ایلیا

یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 620
ہمسایہ ہے ہمارا ، یہیں پر مقیم ہے
یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے
ہم کیا کہ گنج بخش وہ ہجویرکا فقیر
لاہور ! تیری خاکِ بریں پر مقیم ہے
جائے نمازِ سنگ سے جس کی طلب ہمیں
وہ داغِ سجدہ اپنی جبیں پر مقیم ہے
کمپاس رکھ نہ عرشے پہ لا کر زمین کے
وہ عرشِ دل کے فرشِ حسیں پر مقیم ہے
تم آسماں نورد ہو جس کی تلاش میں
منصور مان لو وہ زمیں پر مقیم ہے
منصور آفاق

میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 20
کھینچ لی میرے پاؤں سے کس نے زمیں ، میں نہیں جانتا
میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتا بے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے
کس لیے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں
خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں
کس طرح، کب ہوا، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا
اس کے بے مہر دوزخ میں اپنی تو گزری ہیں تنہائیاں
اُس مبارک گلی کا بہشتِ بریں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصور چلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لیے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا
منصور آفاق