ٹیگ کے محفوظات: بردباری

لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے

دیوان سوم غزل 1281
شب اگر دل خواہ اپنے بے قراری کیجیے
لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے
ایک دن ہو تو کریں احوال گیری دل کی آہ
مر گئے ہم کب تلک تیمارداری کیجیے
نوچیے ناخن سے منھ یا چاک کریے سب جگر
جی میں ہے آگے ترے کچھ دستکاری کیجیے
جایئے اس شہر ہی سے اب گریباں پھاڑ کر
کیجیے کیا غم سے یوں ماتم گذاری کیجیے
یوں بنے کب تک کہ بے لعل لب اس کے ہر گھڑی
چشمہ چشمہ خون دل آنکھوں سے جاری کیجیے
کنج لب اس شوخ کا بھی ریجھنے کی جاے ہے
صرف کیجے عمر تو اس جاے ساری کیجیے
کوہ غم سر پر اٹھا لیجے نہ کہیے منھ سے کچھ
عشق میں جوں کوہکن کچھ بردباری کیجیے
گرچہ جی کب چاہتا ہے آپ کا آنے کو یاں
پر کبھو تو آئیے خاطر ہماری کیجیے
آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میر
جیتے رہیے تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے
میر تقی میر

اب تعلق میں بردباری چھوڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 256
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ
اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے
کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی
یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ
مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام
مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ
یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو
یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو
اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے
ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے
یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا
یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں
دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں
چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
منصور آفاق