ٹوٹی تھی چونچ، اور تھا پیکر لہو لہو
پنجرے میں اک اسیر کا تھا سر لہو لہو
درپن ہی میرے آگے نہیں ٹوٹتے رہے
ہوتا رہا ہوں میں بھی برابر لہو لہو
پہلے خزاں کے وار نے گھائل کیا مجھے
پھر آئی مجھ کو دیکھنے صَرصَر لہو لہو
کیا احمریں سی شام تھی اپنے وداع کی
لگنے لگے تھے سارے ہی منظر لہو لہو
شب بھر جو تیرگی سے لڑا تھا پسِ فلک
آیا افق پہ لوٹ کے ہو کر لہو لہو
دیکھو کنارِ شام شفق کی یہ سرخیاں
ہونے لگا ہے جن سے سمندر لہو لہو
آ آ کے لوٹتی رہی اک یاد رات بھر
چپکی ہوئی ہیں دستکیں در پر لہو لہو
یاور ماجد