ٹیگ کے محفوظات: بتاں

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
لکھو تم ہمیں چِٹھیاں دوستو
تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو
یہ دشتِ سخن اور یہ خاموشیاں
سلگتی ہے جیسے زباں دوستو
چمن میں مرے حال پر ہر کلی
بجاتی ہے اب تالیاں دوستو
کوئی بات جیسے نہ لوٹائے گا
خدا بھی برنگِ بُتاں دوستو
جِسے ڈھونڈتے ہو وہ ماجدؔ بھلا
غمِ جاں سے فارغ کہاں دوستو
ماجد صدیقی

جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 185
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
مرزا اسد اللہ خان غالب

حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ

دیوان دوم غزل 846
غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیونکر کہیں کہ شہر وفا میں جنوں نہیں
اس خصم جاں کے سارے دوانے ہیں یاں کے لوگ
رونق تھی دل میں جب تئیں بستے تھے دلبراں
اب کیا رہا ہے اٹھ گئے سب اس مکاں کے لوگ
تو ہم میں اور آپ میں مت دے کسو کو دخل
ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ
مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ
پتی کو اس چمن کی نہیں دیکھتے ہیں گرم
جو محرم روش ہیں کچھ اس بدگماں کے لوگ
بت چیز کیا کہ جس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیرچشم ہیں کوے بتاں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
منھ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

دیوان اول غزل 358
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں
دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں
آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں
سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم
مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں
بے رحم ٹک تو پائوں تو چھاتی پہ رکھے رہ
مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں
اک گردش اے فلک کہ ہو اثناے راہ سے
کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
ہم تو ہوئے تھے میر سے اس دن ہی ناامید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں
میر تقی میر

مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں

دیوان اول غزل 349
سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں
لاویں اسے بھی بعد مرے میری لاش پر
یہ کہہ رکھا ہے اپنے ہر اک مہرباں کو میں
گردش فلک کی کیا ہے جو دور قدح میں ہے
دیتا رہوں گا چرخ مدام آسماں کو میں
جی جاوے تو قبول ترا غم نہ جائیو
رکھتا نپٹ عزیز ہوں اس میہماں کو میں
عاشق ہے یا مریض ہے پوچھو تو میر سے
پاتا ہوں زرد روز بروز اس جواں کو میں
میر تقی میر

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

دیوان اول غزل 321
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں
پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایہ رو زلف بتاں ہوں
دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوں
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبش لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیر زباں ہوں
ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں
رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں
اک وہم نہیں بیش مری ہستی موہوم
اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں
خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھے مجھے میر
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں
میر تقی میر

جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 32
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فیض احمد فیض

ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 287
سر ہونے دو یہ کارِ جہاں عیش کریں گے
ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے
کچھ عرض کریں گے تب و تابِ خس و خاشاک
آجا‘ کہ ذرا برقِ بتاں عیش کریں گے
اب دل میں شرر کوئی طلب کا‘ نہ ہوس کا
اس خاک پہ کیا خوش بدناں عیش کریں گے
کچھ دور تو بہتے چلے جائیں گے بھنور تک
کچھ دیر سرِ آبِ رواں عیش کریں گے
اس آس پہ سچائی کے دن کاٹ رہے ہیں
آتی ہے شبِ وہم و گماں عیش کریں گے
عرفان صدیقی

راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 281
شہر میں گلبدناں، سیم تناں تھے کتنے
راہ زَن دَرپئے نقدِ دِل و جاں تھے کتنے
خوُب ہے سلسلۂ شوق، مگر یاد کرو
دوستو! ہم بھی تو شیدائے بتاں تھے کتنے
کچھ نہ سمجھے کہ خموشی مری کیا کہتی ہے
لوگ دلدادۂ الفاظ و بیاں تھے کتنے
تو نے جب آنکھ جھکائی تو یہ محسوس ہوا
دیر سے ہم تری جانب نگراں تھے کتنے
اَب تری گرمئ گفتار سے یاد آتا ہے
ہم نفس! ہم بھی کبھی شعلہ زَباں تھے کتنے
وقت کے ہاتھ میں دیکھا تو کوئی تِیر نہ تھا
رُوح کے جسم پہ زَخموں کے نشاں تھے کتنے
کسی تعبیر نے کھڑکی سے نہ جھانکا، عرفانؔ
شوق کی راہ میں خوابوں کے مکاں تھے کتنے
عرفان صدیقی

ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موج گل ہے نہ کہیں آب رواں ہے جاناں
ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں
ابھی آتا ہے نظر چاند میں چہرہ تیرا
ایک دو پل میں یہ منظر بھی دھواں ہے جاناں
تو جو بولے تو سنوں میں تری آواز کا سچ
ہر طرف خاموشی وہم و گماں ہے جاناں
موسم ہجر سے اس درجہ سبک سار ہے دل
اس پہ اب حرف محبت بھی گراں ہے جاناں
آج تک جو نہ کیا اس کی تلافی کے لیے
اب یہ ذکر لب و رخسار بتاں ہے جاناں
ہم کچھ اس طرح سناتے ہیں کہانی اپنی
کوئی سمجھے کہ حدیث دگراں ہے جاناں
جو کبھی تونے کہا اور نہ کبھی ہم نے سنا
وہی اک لفظ تو سرنامۂ جاں ہے جاناں
عرفان صدیقی

اک ذرا منظرِ غرقابی جاں دیکھئے گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 41
ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھئے گا
اک ذرا منظرِ غرقابی جاں دیکھئے گا
سیرِ غرناطہ و بغداد سے فرصت پاکر
اس خرابے میں بھی خوابوں کے نشاں دیکھئے گا
یہ در و بام یہ چہرے یہ قبائیں یہ چراغ
دیکھئے بارِ دگر ان کو کہاں دیکھئے گا
راہ میں اور بھی قاتل ہیں اجازت لیجے
جیتے رہیے گا تو پھر کوئے بتاں دیکھئے گا
شاخ پر جھومتے رہنے کا تماشا کیا ہے
کبھی صرصر میں ہمیں رقص کناں دیکھئے گا
یہی دُنیا ہے تو اس تیغِ مکافات کی دھار
ایک دن گردنِ خنجر پہ رواں دیکھئے گا
دل طرفدارِ حرم، جسم گرفتارِ فرنگ
ہم نے کیا وضع نکالی ہے میاں دیکھئے گا
عرفان صدیقی

جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 180
دشمناں را ، دوستاں را شب بخیر
جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر
در فلک مانندِنجم آوارہ ام
چاکرِ حسنِ بتاں را شب بخیر
خواب را سرمایہ ء آشوبِ دل
ساغراں را ساحراں را شب بخیر
از رخ ام صبحِ آسودہ گرفت
زلفِ دوتا دلبراں را شب بخیر
صحبتِ چشمِ سکوں تسخیر کرد
شورشِ سوداگراں را شب بخیر
چینِ ابرودل کتاں آید بروں
پیشِ مرغِ آشیاں را شب بخیر
دیدہِ منصور از چشمم تمام
دامنِ پُرحسرتاں را شب بخیر
منصور آفاق

چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 27
مجھ میں وہ تاب ضبط شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبط راز تھا
چہرے سے اپنے شورش پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قید ہستی دنیا سے تنگ تھا
وہ دل اسیر حلقہ زلف بتاں ہے اب
آنے لگا جب اس کی تمنا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
حالیؔ تم اور ملازمت پیرے فروش
وہ علم و دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
الطاف حسین حالی