منصور آفاق ۔ غزل نمبر 276
یہ دعا کے چند حرف بس قبول ہوں
تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں
گرفت میں کائناتِ ذات کا خرام
تمہارے ذہن پر علوم کے نزول ہوں
لغاتِ کن فکاں کھلے تمہارے نام سے
کتابیں رازداں سخن سرا رسول ہوں
ہمیشہ ہم قدم رہے بہار رقص میں
اداس چاند ہو نہ گل رتیں ملول ہوں
وہاں وہاں پہ تم سے زعفران کھل اٹھیں
جہاں جہاں پہ خار ہوں ببول ہوں
ہوں منزلِ یقیں کے اونٹ دشتِ وقت میں
خیامِ صبر و انتظار باشمول ہوں
انہیں بھی دیکھنا ضمیرِ عالمین سے
دل و دماغ کے جو طے شدہ اصول ہوں
ہزار حاصلی سہی قیام ، موت ہے
سدا نئے سفر ، نئے حصول ہوں
رکو تو گردشیں رکیں طلسمِ چاک کی
چلو تو چاند تارے راستے کی دھول ہوں
بہشت ماں کی قبر ہوتمہارے کام سے
وہ فاطمہ تھی اس پہ مہرباں بتول ہوں
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔