گر برستا ہی رہا اِس طرح افلاک سے خون
کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون
میرے زخموں کو میسر نہیں مرہم پٹی
پونچھتا رہتا ہوں بس اپنی ہی پوشاک سے خون
جیسے دریا سے نکلتی ہوں بہت سی نہریں
ایسے بہتا ہے مرے دامنِ صد چاک سے خون
کیا ہوا ہے مرے اندر کہ ہوا ہے جاری
میری آنکھوں سے مرے منہ سے مری ناک سے خون
اتنا تڑپی ہے یہ مے خواروں کی محرومی پر
مے نہیں آج ٹپکتا ہے رگِ تاک سے خون
پھر شبِ ہجر مرے شہر پہ ہے سایہ فگن
آج پھر چاہیے اِس کو کسی بے باک سے خون
باصر کاظمی