ٹیگ کے محفوظات: باغیانہ

عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے

رازِ حیات و موت بڑا عاشقانہ ہے
عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے
ہمدردیوں کا ذکر کروں اِن سے یا نہیں
ظاہرپرست دوست ہیں، دشمن زمانہ ہے
مرعوب کرسکے گا نہ مجھ کو جمالِ دوست
میرا مزاج میری نظر باغیانہ ہے
بیٹھا ہوں بجلیوں کا تصوّر کیے ہوئے
گہوارہِ جمال مرا آشیانہ ہے
ترسا رہے ہو کیوں خس و خاشاک کے لیے
میرا چمن ہے اور مرا آشیانہ ہے
شاید مری حیات کا مرکز بدل گیا
میرے لبوں پہ آج خوشی کا ترانہ ہے
تسلیم، اُڑ کے جا نہیں سکتا مگر، شکیبؔ
نظروں کے سامنے تو مرا آشیانہ ہے
شکیب جلالی

تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 3
تہی اپنا یہ بے بخشش خزانہ کیوں نہیں کرتا
تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا
تجھے اے گوشہ گیرِ ذات! جو تجھ سے رہائی دے
کوئی اقدام ایسا باغیانہ کیوں نہیں کرتا
ہمیں کیا ہوتا، ہم آئے یہاں تیرے بُلانے پر
تو پھر ہم سے سلوکِ دوستانہ کیوں نہیں کرتا
سلگتے جسم سے شاید پرِ شعلہ نکل آئے
ہوا کے راستے میں تو ٹھکانہ کیوں نہیں کرتا
رہیں گے کب تلک ہونے نہ ہونے کے تذبذب میں
ہمارا فیصلہ وُہ منصفانہ کیوں نہیں کرتا
نظر آتا ہے لیکن دیکھنے میں ہے زیاں اپنا
تو ایسے میں تغافل کا بہانہ کیوں نہیں کرتا
آفتاب اقبال شمیم