ٹیگ کے محفوظات: بازاروں

اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں

کچھ آوارہ یاروں میں آ بیٹھا ہوں
اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں
آتے جاتے دیکھ رہے ہیں لوگ مجھے
بےزاری! بازاروں میں آ بیٹھا ہوں
سیکھ رہا ہوں سارے گُر مکّاری کے
کچھ دن سے زر داروں میں آ بیٹھا ہوں
دِل کی کالک دھُل جائے گی لمحوں میں
مولاؑ کے حُب داروں میں آ بیٹھا ہوں
موت مری تصویر اُٹھائے پِھرتی ہے
جب سے میں بیماروں میں آ بیٹھا ہوں
میں جنگل میں رہنے والا سبز نظر
عُریانی کے غاروں میں آ بیٹھا ہوں
افتخار فلک

چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
اِس بستی میں پڑنا ہے کیا پلے ہم ناداروں کے
چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے
ہم سطروں کے بیچ چھپا مفہوم ہمیں پہچانے کون
وجہِ کشش ہیں لوگ وہی عنوان ہیں جو اخباروں کے
ہم کہ نگاہ نگاہ بھی جن کی صدی صدی کی تربت ہے
ہم سے پوچھو تیور ہیں کیا اِس جگ کے آزاروں کے
اپنی ذات میں گُم سُم جیسے تیز سفر طیارے کا
جیون جس سے چھن گئے موسم سب میلوں تہواروں کے
ایک ہُوا ہے خوف یہاں ہر شخص کے اندر باہر کا
نظر نظر کے آنگن میں برپا ہیں رقص شراروں کے
جن کی اِک خواہش کا مول نہ پائیں گروی رہ کر بھی
ناز اُٹھائیں گے کیا ماجدؔ ہم ایسے دلداروں کے
ماجد صدیقی

رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 65
بیٹھیے شوق سے دشمن کی طرف داروں میں
رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں
آنکھ نرگس سے لڑاتے ہو جو گلزاروں میں
کیوں لیئے پھرتے ہو بیمار کو بیماروں میں
عشق نے قدر کی نظروں سے نہ جب تک دیکھا
حسن بکتا ہی پھرا مصر کے بازاروں میں
دل کی ہمت ہے جو ہے جنبشِ ابرو پہ نثار
ورنہ کون آتا ہے چلتی ہوئی تلواروں میں
جو پر رحمتِ معبود جو دیکھی سرِ حشر
آملے حضرتِ واعظ بھی گنہ گاروں میں
جب وہ آتے ہیں تو مدھم سے پڑ جاتے ہیں چراغ
چاند سی روشنی ہو جاتی ہے کم تاروں میں
وہ بھی کیا دن تھے کہ قسمت کا ستارہ تھا بلند
اے قمر رات گزر جاتی تھی مہ پاروں میں
قمر جلالوی

پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں

دیوان دوم غزل 883
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں
باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ایک کے بھی وہ برے حال میں آیا نہ کبھو
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
دوستی کس سے ہوئی آنکھ کہاں جاکے لڑی
دشمنی آئی جسے دیکھتے ہی یاروں میں
ہائے رے ہاتھ جہاں چوٹ پڑی دو ہی کیا
الغرض ایک ہے وہ شوخ ستمگاروں میں
کشمکش جس کے لیے یہ ہے شمار دم یہ
ان نے ہم کو نہ گنا اپنے گرفتاروں میں
کیسی کیسی ہے عناصر میں بھی صورت بازی
شعبدے لاکھوں طرح کے ہیں انھیں چاروں میں
مشفقو ہاتھ مرے باندھو کہ اب کے ہر دم
جا الجھتے ہیں گریبان کے دو تاروں میں
حسب قسمت سبھوں نے کھائے تری تیغ کے زخم
ناکس اک نکلے ہمیں خوں کے سزاواروں میں
اضطراب و قلق و ضعف ہیں گر میر یہی
زندگی ہو چکی تو اپنی ان آزاروں میں
میر تقی میر

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

دیوان اول غزل 190
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھائو
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
میر تقی میر

یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 322
غزل کا رنگ کچھ ہو خون کے دھاروں سے اچھا ہے
یہ مضموں ابروئے جاناں کا تلواروں سے اچھا ہے
ہماری طرح اعلان گنہگاری نہیں کرتا
کم از کم شیخ ہم جیسے سیہ کاروں سے اچھا ہے
کسی کے پاؤں کے چھالے ہوں زنجیروں سے بہتر ہیں
کسی کے درد کا صحرا ہو، دیواروں سے اچھا ہے
کہاں ملتی ہے بے رنگ غرض جنس وفا صاحب
مری دُکان میں یہ مال بازاروں سے اچھا ہے
محبت میں کوئی اعزاز اپنے سر نہیں لیتا
یہ خادم آپ کے پاپوش برداروں سے اچھا ہے
عرفان صدیقی