ٹیگ کے محفوظات: باری

سونے پر ہے بھاری مٹی

پیارے دیس کی پیاری مٹی
سونے پر ہے بھاری مٹی
کیسے کیسے بوٹے نکلے
لال ہوئی جب ساری مٹی
دُکھ کے آنسو سکھ کی یادیں
کھارا پانی کھاری مٹی
تیرے وعدے میرے دعوے
ہو گئے باری باری مٹی
گلیوں میں اُڑتی پھرتی ہے
تیرے ساتھ ہماری مٹی
ناصر کاظمی

دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 42
اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث
غمزہ ہائے دوست بعد از مرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث
سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث
ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث
ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
مصطفٰی خان شیفتہ

سینہ جویائے زخمِ کاری ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 247
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وُہ ہی@ صد رنگ نالہ فرسائی
وُہ ہی@ صد گونہ اشک باری ہے
دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بیقراری ہے
جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روزِ بازارِ جاں سپاری ہے
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازارِ فوجداری ہے
ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
@ نسخۂ مہر و آسی میں ” وُہی”
مرزا اسد اللہ خان غالب

دزد غمزوں کی ویسی عیاری

دیوان ششم غزل 1902
وے سیہ موئی و گرفتاری
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
اب کے دل ان سے بچ گیا تو کیا
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
اچھا ہونا نہیں مریض عشق
ساتھ جی کے ہے دل کی بیماری
کیوں نہ ابر بہار پر ہو رنگ
برسوں دیکھی ہے میری خوں باری
شور و فریاد و زاری شب سے
شہریوں کو ہے مجھ سے بیزاری
چلے جاتے ہیں رات دن آنسو
دیدئہ تر کی خیر ہے جاری
مر رہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
کیونکے راہ فنا میں بیٹھیے گا
جرم بے حد سے ہے گراں باری
واں سے خشم و خطاب و ناز و عتاب
یاں سے اخلاص و دوستی یاری
میر چلنے سے کیوں ہو غافل تم
سب کے ہاں ہو رہی ہے تیاری
میر تقی میر

ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے

دیوان چہارم غزل 1508
ہماری تیری مودت ہے دوست داری ہے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
گئی وہ نوبت مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شور جنوں اب ہے اپنی باری ہے
کریں تو جاکے گدایانہ اس طرف آواز
اگر صدا کوئی پہچانے شرمساری ہے
مسافران رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے
خرابی حال کی دل خواہ جو تمھارے تھی
سو خطرے میں نہیں خاطر ہمیں تمھاری ہے
ہمیں ہی عشق میں جینے کا کچھ خیال نہیں
وگرنہ سب کے تئیں جان اپنی پیاری ہے
نگاہ غور سے کر میر سارے عالم میں
کہ ہووے عین حقیقت وہی تو ساری ہے
میر تقی میر

شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے

دیوان دوم غزل 1048
اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے
شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے
روتا پھرا ہوں برسوں لوہو چمن چمن میں
کوچے میں اس کے یکسر گل کاری ہو گئی ہے
یک جا اٹک کے رہنا ہے ناتمامی ورنہ
سب میں وہی حقیقت یاں ساری ہو گئی ہے
جب خاک کے برابر ہم کو کیا فلک نے
طبع خشن میں تب کچھ ہمواری ہو گئی ہے
مطلق اثر نہ دیکھا مدت کی آہ و زاری
اب نالہ و فغاں سے بیزاری ہو گئی ہے
اس سے دوچار ہونا آتا نہیں میسر
مرنے میں اس سے ہم کو ناچاری ہو گئی ہے
ہر بار ذکر محشر کیا یار کے در اوپر
ایسی تو یاں قیامت سو باری ہو گئی ہے
انداز شوخی اس کے آتے نہیں سمجھ میں
کچھ اپنی بھی طبیعت یاں عاری ہو گئی ہے
شاہی سے کم نہیں ہے درویشی اپنے ہاں تو
اب عیب کچھ جہاں میں ناداری ہو گئی ہے
ہم کو تو درد دل ہے تم زرد کیوں ہو ایسے
کیا میر جی تمھیں کچھ بیماری ہو گئی ہے
میر تقی میر

اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 222
توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آکر
شہر آباد کیا‘ نہرِ صبا جاری کی
ہم بھی کیا شے ہیں طبیعت ملی سیارہ شکار
اور تقدیر ملی آہوئے تاتاری کی
اتنا سادہ ہے مرا مایۂ خوبی کہ مجھے
کبھی عادت نہ رہی آئنہ برداری کی
میرے گم گشتہ غزالوں کا پتہ پوچھتا ہے
فکر رکھتا ہے مسیحا مری بیماری کی
اس کے لہجے میں کوئی چیز تو شامل تھی کہ آج
دل پہ اس حرفِ عنایت نے گراں باری کی
عرفان صدیقی

ہم نے تیری نظر اتاری دوست

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 141
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست
ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے
وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا
شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا
میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں
اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے
اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں
بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں
کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں
ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج
اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی
برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر
تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں
کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے
ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید
میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
منصور آفاق