منصور آفاق ۔ غزل نمبر 141
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست
ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے
وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا
شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا
میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں
اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے
اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں
بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں
کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں
ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج
اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی
برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر
تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں
کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے
ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید
میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔