ٹیگ کے محفوظات: بادل

بادل

پورب سے آئے ہیں بادل

گنگا جل لائے ہیں بادل

رنگ ہے ان کا کاہی کاہی

پھیلی ہے ہر سمت سیاہی

چلتے ہیں یہ ہلکے ہلکے

رنگ برنگے روپ بدل کے

نظریں جب بھی اٹھاتے ہیں ہم

اک نئی صورت پاتے ہیں ہم

شیر کبھی بن جاتے ہیں یہ

ہم کو خوب ڈراتے ہیں یہ

شکل کبھی ہوتی ہے ان کی

موٹے تازے گھوڑے جیسی

دھیرے دھیرے نقش بدل کر

ہاتھی بن جاتے ہیں اکثر

جب یہ آتے ہیں مستی میں

دوڑ لگاتے ہیں مستی میں

یہ اُس کو چھونے جاتا ہے

وہ اُس کے پیچھے آتا ہے

کھیل ہی کھیل میں لڑ جاتے ہیں

یہ آپس میں غرّاتے ہیں

ایک پہ اک چڑھ کر آتا ہے

برقی کوڑے لہراتا ہے

پھر یہ اپنی سُونڈ اٹھا کر

جھاگ اُڑاتے ہیں دنیا پر

جن کو ہم بارش کہتے ہیں

جو دریا بن کر بہتے ہیں

شکیب جلالی

جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 111
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
احمد فراز

وصل کا خواب مکمل ہو جائے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 90
رنگ ، خوشبو میں اگر حل ہو جائے
وصل کا خواب مکمل ہو جائے
چاند کا چوما ہُوا سرخ گلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے
میں اندھیروں کو اُجالُوں ایسے
تیرگی آنکھ کا کاجل ہو جائے
دوش پر بارشیں لے کے گُھومیں
مَیں ہوا اور وہ بادل ہو جائے
نرم سبزے پہ ذرا جھک کے چلے
شبنمی رات کا آنچل ہو جائے
عُمر بھر تھامے رہے خوشبو کو
پُھول کا ہاتھ مگر شل ہو جائے
چڑیا پتّوں میں سمٹ کر سوئے
پیٹریُوں پھیلے کہ جنگل ہو جائے
پروین شاکر

ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 67
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بچپنے کا ساتھ ہے،پھر ایک سے دونوں کے دُکھ
رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
وہ عجب دنیا کہ سب خنجر بکف پھرتے ہیں ۔۔اور
کانچ کے پیالوں میں صندل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بارشِ سنگِ ملامت میں بھی وہ ہمراہ ہے
میں بھی بھیگوں ،خود بھی پاگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
لڑکیوں کے دُکھ عجب ہوتے ہیں ،سُکھ اُس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بارشیں جاڑے کی اور تنہا بہت میرا کساں
جسم کا اکلوتا کمبل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
پروین شاکر

اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 54
اپنے دل کی چٹان سے پوچھو، ریزہ اک پنکھڑی کا کتنا بوجھل ہے
اک آنسو کی بوند میں دیکھو، دنیا دنیا، عالم عالم جل تھل ہے
جس کو دیکھو اپنے سفر کی دنیا بھی ہے، اپنے سفر میں تنہا بھی
قدم قدم پر اپنے آپ کے سامنے ہے اور اپنے آپ سے اوجھل ہے
روح سے روح کا نازک بندھن، پھولوں کی زنجیر میں جکڑی زندگیاں
کتنے دکھ ہیں، کتنا چین ہے، کیسی دھوپ ہے، کتنا گہرا بادل ہے
آنکھ کی پتلی، سانس کی ڈوری، دِل کی تھاپ، اک پل کی نرت کا تماشا ہے
گلتی کھوپڑیوں سے چنی دیواروں پر اک جلتی جوت کی جھل جھل ہے
ایک زمانے سے یہی رستہ زیرِ قدم ہے، اک اک جھونکا محرم ہے
آج جو من کی اوٹ سے دیکھا، ہر سو اک ان دیکھی رت کی چھل بل ہے
بہتی روشنیاں، بے کار شعاعیں، بکھری ٹھیکریاں، بے حرف سلیں
اک دِن انت یہی ہے مگر وہ ایک کرن جو دل کے ورق پر جدول ہے
مجید امجد

کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 264
در و دیوار میں کچھ تازہ ہوا حل کردے
کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کردے
پس نظارہ نکلتا ہے تماشا کیا کیا
آنکھ وہ شے ہے کہ انسان کو پاگل کردے
میں وہ طائر ہوں کہ ہے تیر کی زد سے باہر
اب یہ ضد چھوڑ مجھے آنکھ سے اوجھل کردے
ہے کوئی شخص مرے دشتِ زیاں کا سفری
ہے کوئی شخص جو اس دھوپ کو بادل کردے
ایک رنگ آج بھی تصویرِ ہنر میں کم ہے
موجِ خوں آ‘ مرا دیوان مکمل کردے
عرفان صدیقی

پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 268
یاد کی اک نہر پر وہسکی کی بوتل بیریاں
پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں
دیکھتا ہوں دھوپ کی جلتی چتا کے آس پاس
سائباں ، دیوار ، چھتری، زلف، بادل ، بیریاں
ایک دھاگوں سے بھری تعویز در تعویز رات
گہرے پرآسیب سائے ، خوف سے شل بیریاں
اب تو ڈھیلے پھینکتے لڑکے سے کہہ دو ہنس پڑے
خود ہی تھل کی جھک گئی ہیں پھل سے بوجھل بیریاں
تیز ہو جائے ہوا تو شرٹ اپنی کھول دیں
گرمیوں کے سر پھرے موسم کی پاگل بیریاں
چاہتی ہیں کوئی پتھر مارنے والابھی ہو
اپنے جوبن پر جب آجاتی ہیں کومل بیریاں
جن کے آنچل میں گزار آئے بدن کی دو پہر
یاد ہیں وہ گاؤں کی سب شوخ چنچل بیریاں
منصور آفاق

شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 69
اب تک انا سے ربطِ مسلسل نہیں ہوا
شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا
وحشت وہی مزاج کی رونے کے بعد بھی
بارش ہوئی ہے شہر میں جل تھل نہیں ہوا
پھر ہو گی تجھ تلک مری اپروچ بزم میں
مایوس جانِ من ترا پاگل نہیں ہوا
ممکن نہیں ہے جس کا ذرا سا مشاہدہ
میری نظر سے وہ کبھی اوجھل نہیں ہوا
ہر چیز آشنائے تغیر ہوئی مگر
قانونِ ہست و بود معطل نہیں ہوا
دستِ اجل نے کی ہے تگ و دو بڑی مگر
دروازۂ حیات مقفل نہیں ہوا
برسوں سے ڈھونڈتا ہوں کوئی اور شخص میں
اِس ہجر کا معمہ کبھی حل نہیں ہوا
منصور اپنی ذات شکستہ کیے بغیر
پانی کا بلبلا کبھی بادل نہیں ہوا
منصور آفاق

اس پرلکھا تھا نام بھی چرچل کا کیا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 64
کوئی یہاں پہ بورڈ تھا پیتل کا کیا ہوا
اس پرلکھا تھا نام بھی چرچل کا کیا ہوا
اس جگہ پہ تھا پارک جہاں پر مکان ہیں
اس موڑ پہ درخت تھا پیپل کا کیا ہوا
ہوتی تھی اس گلی میں کتابوں کی اک دکان
اسکول تھا یہاں پہ جو شیتل کا کیا ہوا
شیشم کے اس مقام پہ لاکھوں درخت تھے
جنگل یہاں پہ ہوتاتھا، جنگل کا کیا ہوا
قوسِ قزح کہاں گئی وہ آسمان سے
وہ دوپہر کے سرمئی بادل کا کیا ہوا
منصورہر گلی میں اڑے موسموں کی گرد
بارش کہاں چلی گئی جل تھل کا کیا ہوا
منصور آفاق

ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 13
اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل
ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل
لفظوں کے پھلوں پہ نہ جا
دیکھ سروں پر چلتے ہل
دنیا برف کا تودہ ہے
جتنا جل سکتا ہے جل
غم کی نہیں آواز کوئی
کاغذ کالے کرتا چل
بن کے لکیریں ابھرے ہیں
ماتھے پر راہوں کے بل
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
آس کے پھول کھلے باقیؔ
دل سے گزرا پھر بادل
باقی صدیقی