ٹیگ کے محفوظات: بادباں

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
رہِ سفر میں ہوئیں ہم پہ سختیاں کیا کیا
کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا
نہ احتساب ہی بس میں، نہ احتجاج اُن کے
عوام اپنے یہاں کے ہیں بے زباں کیا کیا
فساد و فتنہ و شر کے ہم اہلِ مشرق کو
دِکھا رہا ہے نئے رنگ آسماں کیا کیا
وہ جسکے ہاتھ میں کرتب ہیں اُس کی چالوں سے
لٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گماں کیا کیا
ہم ایسے اڑتے پرندوں کو کیا خبر ماجدؔ
دکھائے اور ہنر حرص کی کماں کیا کیا
ماجد صدیقی

شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
پرندوں سے تھا ہم سخن جو، وُہی بے زباں ہو گیا ہے
شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے
کسی برگ پر جیسے چیونٹی کوئی تیرتے ڈولتی ہو
ہواؤں کی زد پر کچھ ایسا ہی ہر آشیاں ہو گیا ہے
کسی ابر پارے کو بھی آسماں پر نہ اَب شرم آئے
بگولہ ہی جیسے سروں پر تنا سائباں ہو گیا ہے
سمٹتے ہوئے کور لمحوں کی بوچھاڑ برسا رہا ہے
مہِ نو بھی جیسے اُفق پر تنی اِک کماں ہو گیا ہے
لگے اِس طرح جیسے دل بھی شکم ہی کے زیرِنگیں ہو
کہ دربار بھی اَب تو، مُحبوب کا آستاں ہو گیا ہے
مسافت سے پہلے بھی کم تو نہ تھی کچھ گھُٹن ساحلوں کی
چلے ہیں تو اَب مشتِ کنجوس کی بادباں ہو گیا ہے
نجانے بھروسہ ہے کیوں اُس کی نیّت پہ ماجدؔ دلوں کو
وہ حرفِ تسلی تلک جس کا سنگِ گراں ہو گیا ہے
ماجد صدیقی

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 9
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 54
ہوا سے جنگ میں ہوں ، بے اماں ہوں
شکستہ کشتیوں پر بادباں ہوں
میں سُورج کی طرح ہوں دھوپ اوڑھے
اور اپنے آپ پر خود سائباں ہوں
مجھے بارش کی چاہت نے ڈبویا
میں پختہ شہر کا کچّا مکاں ہوں
خُود اپنی چال اُلٹی چلنا چاہوں
میں اپنے واسطے خود آسماں ہوں
دُعائیں دے رہی ہوں دشمنوں کو
اور اِک ہمدرد پر نامہرباں ہوں
پرندوں کو دُعا سِکھلا رہی ہوں
میں بستی چھوڑ ، جنگل کی اذاں ہوں
ابھی تصویر میری کیا بنے گی
ابھی تو کینوس پر اِک نشاں ہوں
پروین شاکر

یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 228
زمیں پہ ہو گا کہیں آسماں ہمارا بھی
یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی
خبر نہیں کہ ہمیں بھی ہوا کہاں لے جائے
کھلا ہوا ہے ابھی بادباں ہمارا بھی
بہت ہے یہ بھی کہ موجوں کے روبرو کچھ دیر
رہا ہے ریگِ رواں پر نشاں ہمارا بھی
یہ تیر اگر کبھی دونوں کے بیچ سے ہٹ جائے
تو کم ہو فاصلۂ درمیاں ہمارا بھی
اُسی سفر پہ نکلتے ہیں رفتگاں کی طرح
اب انتظار کریں بستیاں ہمارا بھی
سواد قریۂ نامہرباں میں یاد آیا
کہ لکھنؤ میں ہے اک مہرباں ہمارا بھی
عرفان صدیقی

تھوڑی ہی دیر میں یہ ملاقات بھی ختم ہو جائے گی داستاں کی طرح

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 87
سوچتا ہوں کہ محفوظ کر لوں اُسے اَپنے سینے میں لفظ و بیاں کی طرح
تھوڑی ہی دیر میں یہ ملاقات بھی ختم ہو جائے گی داستاں کی طرح
یہ رَفاقت بہت مختصر ہے مری ہمسفر لا مرے ہاتھ میں ہاتھ دے
تو ہوائے سرِ رہ گزر کی طرح، میں کسی نکہتِ رائیگاں کی طرح
حال ظالم شکاری کی صورت مجھے وقت کی زین سے باندھ کر لے چلا
میرا ماضی مرے ساتھ چلتا رہا دُور تک ایک مجبور ماں کی طرح
سنگِ آزار کی بارشیں تیز تھیں اور بچنے کا کوئی طریقہ نہ تھا
رَفتہ رَفتہ سبھی نے سروں پر کوئی بے حسی تان لی سائباں کی طرح
خواہشوں کے سمندر سے اِک موج اُٹھی اور سیل بَلاخیز بنتی گئی
جسم کشتی کی مانند اُلٹنے لگے، پیرہن اُڑ گئے بادباں کی طرح
عرفان صدیقی

تیرے جلوے یہاں وہاں دیکھے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 234
دشت دیکھے ہیں گلستاں دیکھے
تیرے جلوے یہاں وہاں دیکھے
اس کو کہتے ہیں تیرا لطف و کرم
خشک شاخوں پہ آشیاں دیکھے
جو جہاں کی نظر میں کانٹا تھے
ہم نے آباد وہ مکاں دیکھے
دوستوں میں ہے تیرے لطف کا رنگ
کوئی کیوں بغض دشمنان دیکھے
جو نہیں چاہتا اماں تیری
مانگ کر غیر سے اماں دیکھے
تیری قدرت سے ہے جسے انکار
اٹھکے وہ صبح کا سماں دیکھے
یہ حسیں سلسلہ ستاروں کا
کوئی تا حد آسماں دیکھے
ایک قطرہ جہاں نہ ملتا تھا
ہم نے چشمے وہاں رواں دیکھے
کس نے مٹی میں روح پھونکی ہے
کوئی یہ ربط جسم و جاں دیکھے
دیکھ کر بیچ و تاب دریا کا
یہ سفینے پہ بادباں دیکھے
جس کو تیری رضا سے مطلب ہے
سود دیکھے نہ وہ زیاں دیکھے
باقی صدیقی