ٹیگ کے محفوظات: ایماں

نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 41
نہ کر فاش رازِ گلستاں عبث
نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث
کفایت تھی مجھ کو تو چینِ جبیں
کیا قتل کا اور ساماں عبث
مقدم ہے ترکِ عدو کی قسم
وگرنہ یہ سب عہد و پیماں عبث
جو آیا ہے وادی میں تو صبر کر
شکایاتِ خارِ مغیلاں عبث
تکبر گدائے خرابات ہے
نہ اے خواجہ کھو جان و ایماں عبث
وہاں صوتِ مینا و آوازِ ساز
خوش آہنگیِ مرغِ شب خواں عبث
وہاں دس بجے دن کو ہوتی ہے صبح
سحر خیزیِ عندلیباں عبث
دمِ خضر ہے چشمۂ زندگی
سکندر سرِ آبِ حیواں عبث
پری کا وہاں مجھ کو سایہ ہوا
نہیں اشتیاقِ دبستاں عبث
طلب گارِ راحت ہیں نا دردمند
اگر درد ہے فکرِ درماں عبث
یہ نازک مزاجوں کا دستور ہے
خشونت سے اندوہِ حرماں عبث
شکایت کو اس نے سنا بھی نہیں
کھلا غیر پر رازِ پنہاں عبث
مرے غم میں گیسوئے مشکیں نہ کھول
نہ ہو خلق کا دشمنِ جاں عبث
محبت جتاتا ہوں ہر طور سے
اثر کی نظر سوئے افغاں عبث
نہ سمجھا کسی نے مجھے گل نہ صبح
ہوا ٹکڑے ٹکڑے گریباں عبث
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث
یہ اندازِ دل کش کہاں شیفتہ
جگر کاویِ مرغِ بستاں عبث
مصطفٰی خان شیفتہ

کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا

دیوان چہارم غزل 1326
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا
ہم سے تو جز مرگ کچھ تدبیر بن آتی نہیں
تم کہو کیا تم نے درد عشق کا درماں کیا
داخل دیوانگی ہی تھی ہماری عاشقی
یعنی اس سودے میں ہم نے جان کا نقصاں کیا
شکر کیا اس کی کریمی کا ادا بندے سے ہو
ایسی اک ناچیز مشت خاک کو انساں کیا
تیغ سی بھوویں جھکائیں برچھیاں سی وے مژہ
خون کا مجھ بے سر و پا کے بلا ساماں کیا
ایک ہی انداز نے اس کافر بے مہر کے
ساکنان کعبہ کو بے دین و بے ایماں کیا
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
میر کو سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا
میر تقی میر

تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے

دیوان سوم غزل 1276
یوں جنوں کرتے جو ہم یاں سے گئے
تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے
مر گئے دم کب تلک رکتے رہیں
بارے جی کے ساتھ سب سانسے گئے
کیا بدن دیکھا چسی چولی سے ہائے
مارے حسرت کے ہی ہم جاں سے گئے
جانب مسجد تھی وہ کافر نگاہ
شیخ صاحب دین و ایماں سے گئے
پیچ میں آئے کسو کی زلف کے
میر اس رستے پریشاں سے گئے
میر تقی میر

برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں

دیوان سوم غزل 1193
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں
بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں
وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں
کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشق لیلیٰ میں
ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں
خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ یاں ہر دم
اگر ہجراں میں زندانی ہوں پر ہوں یوسفستاں میں
رکھا عرصہ جنوں پر تنگ مشتاقوں کی دوری سے
کسے مارا ہے اس گھتیے نے سنمکھ ہوکے میداں میں
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی
دمک الماس کی سی ہے ہماری چشم حیراں میں
خرابی آگئی دینوں میں ملت گئی اسے دیکھے
ملے سے اس کے رخنے پڑ گئے لوگوں کے ایماں میں
نکل آتا ہے گھر سے ہر گھڑی ننگے بدن باہر
برا یہ آپڑا ہے عیب اس آسائش جاں میں
ستم کے تیر اس کے میرے سینے میں بہت ٹوٹے
کیا جاتا ہے مشکل فرق اب دل اور پیکاں میں
ہواے ابر میں کیا میر ہنستا باغ میں وہ تھا
گری پڑتی ہے بجلی آج کچھ صحن گلستاں میں
میر تقی میر

مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا

دیوان سوم غزل 1068
ہوں نشاں کیوں نہ تیر خوباں کا
مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا
ہاتھ زنجیر ہو جنوں میں رہا
اپنے زنجیرئہ گریباں کا
چپکے دیکھو جھمکتے وے لب سرخ
ذکر یاں کیا ہے لعل و مرجاں کا
ایک رہزن ہے اس کی کافر زلف
غم ہی رہتا ہے دین و ایماں کا
عمر آوارگی میں سب گذری
کچھ ٹھکانا نہیں دل و جاں کا
کافرستاں ہے خال و خط و زلف
وقر کیا ہے دل مسلماں کا
مر گیا میر نالہ کش بیکس
نَے نے ماتم میں اس کے منھ ڈھانکا
میر تقی میر

سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے

دیوان دوم غزل 1013
ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے
سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے
کیا بخود رہنا ہمارا کچھ رکھے ہے اعتبار
آپ میں آئے کبھو اب ہم تو مہماں سے گئے
جب تلک رہنا بنا دل تنگ غنچے سے رہے
دیکھیے کیا گل کھلے گا اب گلستاں سے گئے
کیا غزالوں ہی کو ہم بن وحشت بسیار ہے
کوہ بھی نالاں رہے جب ہم بیاباں سے گئے
لائی آفت خانقاہ و مسجد اوپر وہ نگاہ
صوفیاں دیں سے گئے سب شیخ ایماں سے گئے
دور کر خط کو کیا چہرہ کتابی ان نے صاف
اب قیامت ہے کہ سارے حرف قرآں سے گئے
جی تو اس کی زلف میں دل کا کل پیچاں میں میر
جا بھی نکلے اس کنے تو ہم پریشاں سے گئے
میر تقی میر

سر ہمارے ہیں گوے میداں کی

دیوان دوم غزل 951
ٹپہ بازی سے چرخ گرداں کی
سر ہمارے ہیں گوے میداں کی
جی گیا اس کے تیر کے ہمراہ
تھی تواضع ضرور مہماں کی
ہیں لیے آبروے خنجر و تیغ
ترچھی پلکیں تری بھویں بانکی
پھوڑ ڈالیں گے سر ہی اس در پر
منت اٹھتی نہیں ہے درباں کی
سر دامن سے گفتگو کریے
بات بگڑی لب گریباں کی
اس بت شوخ کی ہے طینت میں
دشمنی میرے دین و ایماں کی
آدمی سے ملک کو کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی
میر تقی میر

پہ جوش دل میں کبھو آگیا تو طوفاں ہیں

دیوان دوم غزل 898
اگرچہ اب کے ہم اے ابر خشک مژگاں ہیں
پہ جوش دل میں کبھو آگیا تو طوفاں ہیں
صنم پرستی میں اے راہباں نہ کی تقصیر
تم اہل صومعہ سے پوچھو وے مسلماں ہیں
کریں انھوں پہ بھلا کس طرح نظر گستاخ
بتان شہر ہمارے تو دین و ایماں ہیں
چمن میں جاکے بھرو تم گلوں سے جیب و کنار
ہم اپنے دل ہی کے ٹکڑوں سے گل بداماں ہیں
رہے ہیں دیکھ جو تصویر سے ترے منھ کو
ہماری آنکھ سے ظاہر ہے یہ کہ حیراں ہیں
رہا ہے کون سا پردہ ترے ستم کا شوخ
کہ زخم سینہ ہمارے سبھی نمایاں ہیں
شبیہ شکل سا ہے حال ضبط عشق کے بیچ
کہ رنگ روپ ہے سب کچھ ولیک بے جاں ہیں
بنے تو عزت عشاق میں نہ کر تقصیر
کہ ایسے لوگ پیارے عزیز مہماں ہیں
جو ابر دشت میں برسے تو ہم اڑاویں خاک
وہ میر آب ہے ہم یاں کے میر ساماں ہیں
میر تقی میر

ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا

دیوان اول غزل 86
کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا
ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا
اٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا
جلوئہ ماہ تہ ابر تنک بھول گیا
ان نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدئہ اشک افشاں کا
ساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دماغ
آئی فردوس بھی چل کر نہ ادھر کو جھانکا
اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آبیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں کا
کار اسلام ہے مشکل ترے خال و خط سے
رہزن دیں ہے کوئی دزد کوئی ایماں کا
چارئہ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میر
اس مرض میں ہے عبث فکر تمھیں درماں کا
میر تقی میر

یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدئیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 260
جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدئیے
یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدئیے
نظروں کے سامنے ہیں شب غم کے مرحلے
کچھ خون ہے تو صبح درخشاں خریدئیے
یوں بھی نہ کھل سکا نہ کوئی زندگی کا راز
دل دے کے کیوں نہ دیدہ حیراں خریدئیے
مرنا ہے تو نظر رکھیں اپنے مآل پر
جینا ہے تو حیات کا ساماں خریدئیے
جو کہہ سکیں تو کیجئے یہ کاروبار زیست
جو کہہ رہا ہے یہ دل ناداں خریدئیے
جو روح کو حیات دے، دل کو سکون دے
یہ بھیڑ دے کے ایک وہ انساں خریدئیے
زخموں کی تاب ہے نہ تبسم کا حوصلہ
ہم کیا کریں گے آپ گلستاں خریدئیے
کرنا پڑے ہے جس کے لئے غیر کا طواف
وہ غم نہ لیجئے نہ وہ ارماں خریدئیے
باقیؔ اسی میں حضرت انساں کی خیر ہے
سارا جہان دے کے اک ایماں خریدئیے
باقی صدیقی