ٹیگ کے محفوظات: ایمان

اِک بُت نے ہم کو صاحبِ ایمان کر دیا

حیرت ہے حق پہ کفر نے احسان کر دیا
اِک بُت نے ہم کو صاحبِ ایمان کر دیا
سوچا تھا کام رکّھیں گے ہم اپنے کام سے
نار و بہشت! تم نے پریشان کر دیا
کل شب تمہارے ساتھ کے جاگے ہُوئے تھے ہم
اِمشَب تمہاری یاد نے ہلکان کر دیا
ہم نے جہانِ کُفر کو عِلم و عَمَل بغیر
کلمہ پڑھا پڑھا کے مسلمان کر دیا
عاشق کے گھر میں حُسن پہ صدقے کے واسطے
ایمان رہ گیا تھا سو ایمان کر دیا
اے حُسن! کوئی تیری رَقابَت کی حد بھی ہے
دل کو حواس و ہوش سے انجان کر دیا
یادوں سے سہل ہو گیا تنہائی کا سفر
ضامنؔ کے ساتھ آپ نے سامان کر دیا
ضامن جعفری

دیکھو جو ہوئے لوگوں کے نقصان مری جان

اک دل کے زیاں پر ہو پریشان مری جان
دیکھو جو ہوئے لوگوں کے نقصان مری جان
جانا کہ یہی ہوں گے مری جان کے درپے
کہتے نہیں تھکتے جو مری جان مری جان
جنت پہ اگر حق ہے تو بس تیرا ہے واعظ
اپنا تو کوئی دین نہ ایمان مری جان
اک عمر گزاری اسے آنکھوں سے لگاتے
اب کھول کے بھی دیکھ لو قرآن مری جان
اوروں کی شکایت جو کیا کرتے ہو باصِرؔ
کچھ آپ ہی بن جاؤ جو انسان مری جان
باصر کاظمی

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 29
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا
ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ دہلوی

اس بت کو دیکھتے ہی بس ایمان پھر گیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 28
کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھر گیا
اس بت کو دیکھتے ہی بس ایمان پھر گیا
محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا
تو جان لے یہ باتھ سے میرا پھر گیا
چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا
رونق جو آ گئی پسینے سے موت کے
پانی ترے مریض پر اک آن پھر گیا
گریے نے ایک دم میں بنا دی وہ گھر کی شکل
میری نظر میں صاف بیابان پھر گیا
لائے تھے کوئے یار سے ہم داغ کو ابھی
لو اس کی موت آئی وہ نادان پھر گیا
داغ دہلوی

تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 54
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع
اِک رودِ ناشناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع
خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع
سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع
اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع
کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تُو بھی ہے انسان الوداع
نسبت کسی بھی شہہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع
رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے بان الوداع
اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع
جون ایلیا

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 128
کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!
دل سے نکلا، پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
تاب لاتے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے

دیوان ششم غزل 1886
کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
میر تقی میر

تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

دیوان پنجم غزل 1554
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا
میں جو گدایانہ چلایا در پر اس کے نصف شب
گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا
آگے عالم عین تھا اس کا اب عین عالم ہے وہ
اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا
مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں
جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا
خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
اب سر خاک بھی ہوجاوے تو سر سے کیا احسان گیا
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندستاں سے شعر مرا ایران گیا
کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میر مقام حیرت ہے
چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا
میر تقی میر

جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ

دیوان سوم غزل 1244
ہے تمناے وصال اس کی مری جان کے ساتھ
جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ
کیا فقط توڑ کے چھاتی ہی گیا تیر اس کا
لے گیا صاف مرے دل کو بھی پیکان کے ساتھ
دین و دل ہی کے رہا میرے وہ کافر درپے
خصمی قاطبہ اس کو ہے مسلمان کے ساتھ
بحر پر نہر پہ برسے ہے برابر ہی ابر
پیش ہر اک سے کریم آتے ہیں احسان کے ساتھ
سطرزلف آئی ہے اس روے مخطط پہ نظر
یہ عبارت نئی لاحق ہوئی قرآن کے ساتھ
تیر اس کا جو گذر دل سے چلا جی بھی چلا
رسم تعظیم سے ہو لیتے ہیں مہمان کے ساتھ
میں تو لڑکا نہیں جو بالے بتائو مجھ کو
یہ فریبندگی کریے کسو نادان کے ساتھ
خون مسلم کو تو واجب یہ بتاں جانے ہیں
ہوجے کافر کہ اماں یاں نہیں ایمان کے ساتھ
آدمیت سے تمھیں میر ہو کیونکر بہرہ
تم نے صحبت نہیں رکھی کسو انسان کے ساتھ
میر تقی میر

صبح کی بائو نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ

دیوان دوم غزل 788
آگ سا تو جو ہوا اے گل تر آن کے بیچ
صبح کی بائو نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ
ہم نہ کہتے تھے کہیں زلف کہیں رخ نہ دکھا
اک خلاف آیا نہ ہندو و مسلمان کے بیچ
باوجود ملکیت نہ ملک میں پایا
وہ تقدس کہ جو ہے حضرت انسان کے بیچ
پاسباں سے ترے کیا دور جو ہو ساز رقیب
ہے نہ اک طرح کی نسبت سگ و دربان کے بیچ
جیسی عزت مری دیواں میں امیروں کے ہوئی
ویسی ہی ان کی بھی ہو گی مرے دیوان کے بیچ
ساتھ ہے اس سر عریاں کے یہ وحشت کرنا
پگڑی الجھی ہے مری اب تو بیابان کے بیچ
وے پھری پلکیں اگر کھب گئیں جی میں تو وہیں
رخنے پڑ جائیں گے واعظ ترے ایمان کے بیچ
کیا کہوں خوبی خط دیکھ ہوئی بند آواز
سرمہ گویا کہ دیا ان نے مجھے پان کے بیچ
گھر میں آئینے کے کب تک تمھیں نازاں دیکھوں
کبھو تو آئو مرے دیدئہ حیران کے بیچ
میرزائی کا کب اے میر چلا عشق میں کام
کچھ تعب کھینچنے کو تاب تو ہو جان کے بیچ
میر تقی میر

نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو

دیوان اول غزل 410
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو
نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو
یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے
دین نگاہ حسرت و ایمان آرزو
آیا تو اور رنگ رخ یاس چل بسا
جانے لگا تو چلنے لگی جان آرزو
اس مجہلے کو سیر کروں کب تلک کہ ہے
دست ہزار حسرت و دامان آرزو
پامال یاس آہ کہاں تک رہوں گا میر
سرمشق کیوں کیا تھا میں دیوان آرزو
میر تقی میر

سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں

دیوان اول غزل 369
عشق کرنے کو جگر چاہیے آسان نہیں
سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں
غارت دیں میں نگہ خصمی ایماں میں ادا
تجھ کو کافر نہ کہے جو وہ مسلمان نہیں
سرسری ملیے بتوں سے جو نہ ہوتاب جفا
عشق کا ذائقہ کچھ داخل ایمان نہیں
ایک بے درد تجھے پاس نہیں عاشق کا
ورنہ عالم میں کسے خاطرمہمان نہیں
کیونکے غم سرزدہ ہر لحظہ نہ آوے دل میں
گھر ہے درویش کا یاں در نہیں دربان نہیں
ہم نشیں آہ نہ تکلیف شکیبائی کر
عشق میں صبر و تحمل ہو یہ امکان نہیں
کس طرح منزل مقصود پہ پہنچیں گے میر
سفر دور ہے اور ہم کنے سامان نہیں
میر تقی میر

بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا

دیوان اول غزل 108
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا
ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرخوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا
مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
ادریس و خضر و عیسیٰ قاتل سے ہم چھڑائے
ان خوں گرفتگاں پر احسان ہے ہمارا
ہم وے ہیں سن رکھو تم مرجائیں رک کے یک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا
ہیں صید گہ کے میری صیاد کیا نہ دھڑکے
کہتے ہیں صید جو ہے بے جان ہے ہمارا
کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوان حشر گویا دیوان ہے ہمارا
خورشید رو کا پرتو آنکھوں میں روز ہے گا
یعنی کہ شرق رویہ دالان ہے ہمارا
ماہیت دوعالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا
نالے میں اپنے ہر شب آتے ہیں ہم بھی پنہاں
غافل تری گلی میں مندان ہے ہمارا
کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا
کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا
جی جا نہ آہ ظالم تیرا ہی تو ہے سب کچھ
کس منھ سے پھر کہیں جی قربان ہے ہمارا
بنجر زمین دل کی ہے میر ملک اپنی
پر داغ سینہ مہر فرمان ہے ہمارا
میر تقی میر

ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 593
اچھے بزنس مین کی پہچان ہے
ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے
دوڑتی پھرتی ہوئی بچی کے پاس
دور تک اک گھاس کا میدان ہے
صبح تازہ کی اذاں کے واسطے
میرے کمرے میں بھی روشن دان ہے
پتھروں سے مل نہ پتھر کی طرح
سنگ میں بھی روح کا امکان ہے
چند ہیں ابرِ رواں کی چھتریاں
باقی خالی دھوپ کادالان ہے
اتنا ہے پاکیزگی سے رابطہ
میرے گھر کا نام پاکستان ہے
موت آفاقی حقیقت ہے مگر
زندگی پر بھی مرا ایمان ہے
جتنی ممکن ہے جگہ دامن میں دے
روشنی منصور کی مہمان ہے
منصور آفاق

اوہ ائی رب اکھواوے جنہوں، جچدی اے ایہہ شان

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 18
بندیا بندہ بن کے رہئو، تے نہ کر ایڈے مان
اوہ ائی رب اکھواوے جنہوں، جچدی اے ایہہ شان
ہنجواں راہیں میں تے اُترن، کیہ کیہ نِگھے بھیت
جگ توں وکھرا ہوندا جاوے، میرا دِین ایمان
میں اُتّے تے اوہدیاں نظراں، ساول بن بن لہن
تریل پوے تے پتھراں نوں وی، ہو جاندا عرفان
ویتنام، کمبوڈیا، سِینا، کوریا تے کشمیر
بندیاں ہتھ بندے دا لہو، جِنج لوہا چڑھیا سان
لفظاں تھانویں پتھر کاہنوں ماجدُ، رولے اج
ریشم تے پٹ اُندی ہوئی، ایہہ تیری نرم زبان
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)