ٹیگ کے محفوظات: اژدر

اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ننگے سچ کے لفظ زباں پر کیا کیا تھے
اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے
چھو ڈالیں تو پھول کہیں تحلیل نہ ہو
پہلے پہل کے عشق کے بھی ڈر کیا کیا تھے
پیروں میں جب کوئی بھی زنجیر نہ تھی
ان وقتوں میں ہم بھی خودسر کیا کیا تھے
دُور نشیمن سے برسے جو مسافت میں
ژالے تن پر سہنے دُوبھر کیا کیا تھے
حرص کی بین پہ کھنچ کر نکلے تو یہ کھُلا
دیش پٹاری میں بھی اژدر کیا کیا تھے
جھانکا اور پھر لوٹ نہ پائے ہم جس سے
اُس آنگن کے بام تھے کیا در کیا کیا تھے
طاق تھے ماجدؔ تاج محل بنوانے میں
اپنے ہاں بھی دیکھ! اکابر کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

ہمیں اس نے کبھی ہمسر نہ جانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
زرِ گل تھے بھی گر تو زر نہ جانا
ہمیں اس نے کبھی ہمسر نہ جانا
جبیں جس پر جھکائی عرش جیسی
ہمارا مرتبہ وُہ در نہ جانا
گھُلی چیخیں بھی ہیں لقموں میں اُس کے
یہ باریکی کوئی اژدر نہ جانا
سزا کے سارے تیور تھے اُسی میں
ہوا کو ہم نے نامہ بر نہ جانا
ذرا مّکے گیا تو جانے ہم نے
خرِ عیسٰی کو کیونکر خر نہ جانا
نہیں اتنا بھی سادہ لوح ماجدؔ
اُسے جانا ہے تم نے پر نہ جانا
ماجد صدیقی

ڈنک چبھو کر جیسے اژدر بھُول گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
کرنی کر کے ہے یوں آمر بھُول گیا
ڈنک چبھو کر جیسے اژدر بھُول گیا
جان پہ سچ مچ کی بن آتی دیکھی تو
جتنی شجاعت تھی شیرِ نر بھُول گیا
خلق سے خالق کٹ سا گیا ہے یُوں جیسے
اپنے تراشیدہ بُت آذر بھُول گیا
دُھوپ سے جھُلسے ننگے سر جب دیکھے تو
خوف کے مارے شاہ بھی افسر بھُول گیا
گزرے دنوں کی سنُدر یاد کی آمد کو
چھوڑ کے جیسے دل یہ، کھُلے در بھُول گیا
جسم پہ جمتی گرد ہی شاید بتلائے
وقت ہمیں کس طاق میں رکھ کر بھُول گیا
اُس کی سرونُما قامت ہے یا ماجدؔ
چھیڑ کے تان کوئی نغمہ گر بھُول گیا
ماجد صدیقی

جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 115
جانے یہ کس کے سحر کا منظر دکھائی دے
جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے
کیسی یہ لو چلی کہ سرِ دستِ آرزو
اٹھتی ہے جو بھی لہر وہ اژدر دکھائی دے
کھودے اُسی کے پیروں تلے کی زمین وہ
جس کم نگاہ کو کوئی ہم سر دکھائی دے
ایسا ہے کون بت نہ تراشے جو حرص کے
دیکھا ہے جس کسی کو وہ آذر دکھائی دے
محبوس تیتروں پہ جو بلّی کو ہے نصیب
وہ جبرِ ناروا اُسے کیونکر دکھائی دے
ماجدؔ جسے بھلائیں گل و مہ کو دیکھ کر
چہرہ وہ صبح و شام برابر دکھائی دے
ماجد صدیقی

ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
تلاطم بحر کا آ کر نہ دیکھا
ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا
کسی کے ہجر کا اب ہے جو، ایسا
کوئی بھی مرحلہ دُوبھر نہ دیکھا
ملا جیسے وہ اب کے، جان و دل پر
کھُلا جنّت کا ایسا در نہ دیکھا
نگل لیتا ہے جاں جس آن چاہے
زمانے سا کوئی اژدر نہ دیکھا
کبھی تھے چہچہے جس گھونسلے میں
ہُوا پھر یُوں، وہاں اِک پر نہ دیکھا
گھِرا ہے اَب کے یہ ژالوں میں جیسے
چمن کا حال یوں ابتر نہ دیکھا
خود اُس پر ختم ہے ماجدؔ ہنر یہ
گیا جس سے فنِ آذر نہ دیکھا
ماجد صدیقی

مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
گلشنِ حُسن پہ ہو راج اِسی کا جیسے
ان دنوں مرغِ طلب کو وُہ لگے پر دیکھوں
اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرِ چشمۂ لُطف
پر جو اِیدھر سے اُتر پاؤں تو اُودھر دیکھوں
میری حیرت سے کھلے تُجھ پہ ترا حُسن مگر
آئنوں سا میں جبھی تُجھ کو برابر دیکھوں
لب پہ رقصاں ہے مرے، ہے جو پسِ چشم اُدھر
اِس شرارت میں بپا کتنے ہی محشر دیکھوں
بِین سا سامنے جس کے ترا پیکر گونجے
خواب میں بھی ترے آنگن میں وہ اژدر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں
اِک لب و چشم تو کیا اِن کے سوا بھی ماجدؔ
جذبۂ شوق کے کیا کیا نہ کھلے در دیکھوں
ماجد صدیقی

حق کا ولی، نبیؐ کا برادر، علیؑ علیؑ

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 220
شانِ خدا، ردانِ پیمبرؐ، علیؑ علیؑ
حق کا ولی، نبیؐ کا برادر، علیؑ علیؑ
زیب بدن شہانۂ تسخیرِ کائنات
سر پر لوائے حمد کا افسر علیؑ علیؑ
مٹی کی مملکت میں علم اسم بوترابؑ
افلاک پر ندائے مکرر، علیؑ علیؑ
سازِ مکانِ انفس و آفاق اُس کا نام
نازِ جہانِ اصغر و اکبر، علیؑ علیؑ
بے مایگاں کا مونس و غم خوار کون ہے
بے چارگاں کا کون ہے یاور، علیؑ علیؑ
مردانِ حرُ کا قافلہ سالار کون ہے
خاصانِ رب کا کون ہے رہبر، علیؑ علیؑ
مدّت سے ہے نواحِ غریباں میں خیمہ زن
وحشت کی فوج، خوف کا لشکر، علیؑ علیؑ
اِک بادباں شکستہ جہاز اور چہار سمت
کالی گھٹا، سیاہ سمندر، علیؑ علیؑ
اِک تشنہ کام ناقۂ جاں اور ہر طرف
باد سموم، دشت ستم گر، علیؑ علیؑ
اِک پافگار رہ گزری اور راہ میں
انبوہِ گرگ، مجمعِ اژدر، علیؑ علیؑ
اک سینہ چاک خاک بہ سر اور کوُ بہ کوُ
سوغاتِ سنگ، ہدیۂ خنجر، علیؑ علیؑ
میں بے نوا ترے درِ دولت پہ داد خواہ
اے میرے مرتضیٰؑ ، میرے حیدرؑ ، علیؑ علیؑ
میں بے اماں مجھے ترے دستِ کرم کی آس
تو دل نواز، تو ہی دلاور، علیؑ علیؑ
نانِ شعیر و جوہرِ شمشیر تیرے پاس
توُ ہی دلیر، توُ ہی تونگر، علیؑ علیؑ
توُ تاجدار تاب و تبِ روزگار کا
مجھ کو بھی اِک قبالۂ منظر، علیؑ علیؑ
توُ شہریار آب و نمِ شاخسار کا
میرے لیے بھی کوئی گلِ تر، علیؑ علیؑ
روشن ترے چراغ یمین و یسار میں
دونوں حوالے میرے منوّر، علیؑ علیؑ
یہ خانہ زادگاں ہیں تجھی سے شرف نصیب
ان کو بھی اِک خریئ گوہر، علیؑ علیؑ
اب میرے دشت میرے خرابے کی سمت موڑ
رہوار کی عنانِ معبر، علیؑ علیؑ
نصرت، کہ ہو چکے ہیں سزاوار ذوالفقار
میری زمیں کے مرحب و عنتر علیؑ علیؑ
پابستگاں پہ بام و درِ شش جہات کھول
اے بابِ علم، فاتحِ خیبر، علیؑ علیؑ
انعام کر مجھے بھی کہ صدیوں کی پیاس ہے
دریا، بنامِ ساقئ کوثر، علیؑ علیؑ
مولاؑ ، صراطِ روزِ جزا سے گزار ہی جائے
کہتا ہوا یہ تیرا ثناگر، علیؑ علیؑ
عرفان صدیقی