کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری
ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں
تو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد
مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں
جونہی تعلقات کسی سے ہوئے خراب
سارے جہاں کی اُس میں ملیں گی خرابیاں
سرکار کا ہے اپنا ہی معیارِ انتخاب
یارو کہاں کی خوبیاں کیسی خرابیاں
آدم خطا کا پُتلا ہے گر مان لیں یہ بات
نکلیں گی اِس خرابی سے کتنی خرابیاں
اُن ہستیوں کی راہ پہ دیکھیں گے چل کے ہم
جن میں نہ تھیں کسی بھی طرح کی خرابیاں
بوئیں گے اپنے باغ میں سب خوبیوں کے بیج
جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے ساری خرابیاں
باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اُس میں ہیں
کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں
باصر کاظمی