ٹیگ کے محفوظات: اچھل

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاوٗں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان
نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
عرفان ستار

چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
خاص ہے اُس سے جو اِک داؤ چل جائے گا
چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا
ایک شڑاپ سے پانی صید دبوچ کے اپنا
بے دم کر کے اُس کو، دُور اُگل جائے گا
اُس کے تلے کی مٹی تک، بے فیض رہے گی
اِس دُنیا سے جو بھی درخت اَپَھل جائے گا
خوف دلائے گا اندھیارا مارِ سیہ کا
مینڈک سا، پیروں کو چھُو کے اُچھل جائے گا
سُورج اپنے ساتھ سحر تو لائے گا پر
کُٹیا کُٹیا ایک الاؤ جل جائے گا
کب تک عرضِ تمنّا پر کھائے گا طمانچے
لا وارث بچّوں سا دل بھی سبنھل جائے گا
ماجد کی جو خواہش بھی ہے بچّوں سی ہے
تتلی کو دیکھے گا اور مچل جائے گا
ماجد صدیقی

دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 159
آنگنوں سے چاند پھر آگے نکل جانے لگا
دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا
ہم بھلا تصویر کیا کھینچیں گرفتِ وقت کی
سانپ چڑیا کو سلامت ہی نِگل جانے لگا
دل تمّنا کے بر آنے پر ہے یُوں مسرور سا
جس طرح سِکّہ کوئی کھوٹا ہو چل جانے لگا
زور وُہ اب کے دکھایا ہے ہمیں امواج نے
تختۂ جاں تک بدن سے ہے اچھل جانے لگا
چرخ سے وُہ حدّتیں برسیں کہ اَب ایسا لگے
چاندنی سے بھی بدن جیسے ہو جل جانے لگا
چیونٹیوں سا تو بھلا درپے ہے کیوں اِس کوہ کے
کب مزاجِ دہر ہے ماجدؔ بدل جانے لگا
ماجد صدیقی

فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 76
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر
چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 77
چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاوٗں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان
نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
عرفان ستار

رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا

دیوان دوم غزل 720
مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا
رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا
خواب میں کل پائوں اپنے دوست کے ملتا تھا میں
آنکھ دشمن کھل گئی سو ہاتھ مل کر رہ گیا
ہم تو تھے سرگرم پابوسی خدا نے خیر کی
نیمچہ کل خوش غلاف اس کا اگل کر رہ گیا
ہم بھی دنیا کی طلب میں سر کے بل ہوتے کھڑے
بارے اپنا پائوں اس رہ میں بچل کر رہ گیا
کیا کہوں بیتابی شب سے کہ ناچار اس بغیر
دل مرے سینے میں دو دو ہاتھ اچھل کر رہ گیا
کیا ہمیں کو یار کے تیغے نے کھاکر دم لیا
ایسے بہتیروں کو یہ اژدر نگل کر رہ گیا
دو قدم ساتھ اس جفا جو کے چلا جاتا ہے جی
بوالہوس عیار تھا دیکھا نہ ٹل کر رہ گیا
آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں
جن نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کر رہ گیا
ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جاے میر پر
برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا
میر تقی میر

مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا

دیوان دوم غزل 679
مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا
مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا
پہنچے ہے کوئی اس تن نازک کے لطف کو
گل گو چمن میں جامے سے اپنے نکل پڑا
میں جو کہا اک آگ سی سلگے ہے دل کے بیچ
کہنے لگا کہ یوں ہی کوئی دن تو جل پڑا
بل کیوں نہ کھائیے کہ لگا رہنے اب تو واں
بالوں میں اور پیچ میں پگڑی کے بل پڑا
تھے اختلال اگرچہ مزاجوں میں کب سے لیک
ہلنے میں اس پلک کے نہایت خلل پڑا
رہتا نہیں ہے آنکھ سے آنسو ترے لیے
دیکھی جو اچھی شے تو یہ لڑکا مچل پڑا
سر اس کے پائوں سے نہیں اٹھتے ستم ہے میر
گر خوش غلاف نیمچہ اس کا اگل پڑا
میر تقی میر

سپردِ ریگ ہوئے ریت پر اچھل کے ہم

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 220
کنارِآبِ رواں سے نکل نکل کے ہم
سپردِ ریگ ہوئے ریت پر اچھل کے ہم
ملازمت سے نکالے گئے مگر خوش ہیں
کسی کو دیکھتے دفتر میں تھے مچل کے ہم
ہمیں تلاشتے رہنا اسی خرابے میں
دکھائی دیں گے کسی اورسمت چل کے ہم
ندی کے ساتھ اترنے لگے سمندر میں
کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھرابل کے ہم
سیہ نصیب ہیں سو دیکھتے ہیں خوابوں میں
چراغِ صبح ہی منظر بدل بدل کے ہم
مہکنے لگتے ہیں کیسی الوہی خوشبو میں
کسی مزار کی مٹی بدن پہ مل کے ہم
دکھائیں کیسے کسی کو ، دکھائیں کیا منصور
شبِسیاہ سے باہر کہیں پہ جل کے ہم
منصور آفاق