قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 134
دیکھو محشر میں کس کی بات رکھی جائے ہے
تجھ سے میں شرماؤں یا تو مجھ سے شرمائے ہے
ہجر سے تنگ آنے والے ایسا کیوں گھبرائے ہے
موت سے پہلے کیا تجھے موت آئی جائے ہے
تو نے تڑپایا مجھے دشمن تجھے تڑپائے ہے
میں تو یہ جانوں ہوں جو جیسے کرے ہے پائے ہے
میں کسی سے بولوں چالوں بھی تو ہے میری خطا
کیا بگاڑوں ہوں تری محفل کا کیوں اٹھوائے ہے
ناصحا مجھ سے نہ کہیو یار کے گھر کو نہ جا
میں تری سمجھوں ہوں باتیں کیوں مجھے سمجھائے ہے
غیر کے کہنے پہ مت آ، ٹک مری حالت تو دیکھ
کیا تری محفل سے اٹھوں دل تو بیٹھا جائے ہے
اور بھرنی ہیں تصور میں ابھی رنگینیاں
دردِ دل تھم جا کہ اب تصویر بگڑی جائے ہے
کِن خیالوں سے یہ کاٹے ہے قمر فرقت کی رات
روتا بھی جائے ہے اور تارے بھی گنتا جائے ہے
قمر جلالوی