ٹیگ کے محفوظات: اٹھایا

یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے

نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے
یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے
بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں
مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے
سرِ مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں
عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے
مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اس بنا پر
مرے غم کو ہنسی میں کیوں اڑایا جا رہا ہے
بدن کس طور شامل تھا مرے کارِ جنوں میں
مرے دھوکے میں اس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے
وہ دیوارِ انا جس نے مجھے تنہا کیا تھا
اسی دیوار کو مجھ میں گرایا جا رہا ہے
مری خوشیوں میں تیری اس خوشی کو کیا کہوں میں
چراغِ آرزو! تجھ کو بجھایا جا رہا ہے
خرد کی ساگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے
ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رخ نہ کرنا
یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے
عرفان ستار

مبادا طنز ہو یہ بھی سو حَشر اُٹھایا نہیں

کسی کو زَخم دِکھا کَر میں مُسکرایا نہیں
مبادا طنز ہو یہ بھی سو حَشر اُٹھایا نہیں
کِسے خَبَر کہ اَبھی کِتنی دُور ہے مَنزِل
اَبھی تَلَک تَو کوئی سَنگِ میِل آیا نہیں
سَبھی ہیں یُوں تَو مِرے دِل کے بوجھ سے واقِف
کِسی نے بارِ اَمانَت مَگَر اُٹھایا نہیں
درُست ہو گا تِرا دعویِٰ مَسیِحائی
خُدا کا شُکر کَبھی ہَم نے آزمایا نہیں
فَصیِلِ شہرِ جنوں پَر میں مُنتَظِر ہی رَہا
خِرَد کے مارے ہُوؤں میں سے کوئی آیا نہیں
کوئی سَبَب تَو ہے! چہرے اُتَر گئے سارے
اَبھی تَو میں نے کِسی کو بھی کُچھ بَتایا نہیں
ہیں میرے عِلم میں مَجبُوریاں مَسیِحا کی
جبھی تَو اُس کا رَوَیّہ اُسے جَتایا نہیں
سَبھی ہیں قافلہ سالار قافلے میں تِرے
مُسافِر اِس میں بَجُز تیرے کوئی پایا نہیں
ہَر ایک دَردِ حَیات آ کے کہہ گیا ضامنؔ
کہ تیری طَرح کِسی نے گَلے لَگایا نہیں
ضامن جعفری

پھر اُس کے بعد پرندے نے گھر بنایا تھا

شبیہِ حُجرۂ وحشت بنا کے لایا تھا
پھر اُس کے بعد پرندے نے گھر بنایا تھا
لہو کا رنگ یقینا” سفید ہے بھائی!
کہ اُس ذلیل نے ماں پر بھی ہاتھ اُٹھایا تھا
ہوا سے باندھ کے بن میں گھسیٹ لایا ہوں
مرے چِراغ نے تیرا مذاق اُڑایا تھا
میں سینہ تان کے نکلا تھا جانبِ مقتل
کئی ہزار دعاؤں کا مجھ پہ سایہ تھا
یہاں پہ رقص کا مطلب ہے زندگی پیارے!
کہ اس جگہ مرے مُرشد نے سر جھُکایا تھا
مرے پڑوس میں رہتی ہے وہ پری پیکر
سُنا ہے جس نے محبت میں زہر کھایا تھا
حیا فروش محلّے کی عورتوں نے مجھے
تمھارے نام سے چھیڑا تھا ، ورغلایا تھا
مجھے تو آج بھی لگتا ہے میں پرندہ ہوں
کہ مجھ پہ بانجھ درختوں نے حق جتایا تھا
افتخار فلک

یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 79
نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے
یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے
بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں
مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے
سرِ مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں
عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے
مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اس بنا پر
مرے غم کو ہنسی میں کیوں اڑایا جا رہا ہے
بدن کس طور شامل تھا مرے کارِ جنوں میں
مرے دھوکے میں اس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے
وہ دیوارِ انا جس نے مجھے تنہا کیا تھا
اسی دیوار کو مجھ میں گرایا جا رہا ہے
مری خوشیوں میں تیری اس خوشی کو کیا کہوں میں
چراغِ آرزو! تجھ کو بجھایا جا رہا ہے
خرد کی ساگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے
ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رخ نہ کرنا
یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے
عرفان ستار

سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا

دیوان ششم غزل 1790
وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا
گلشن کے طائروں نے کیا بے مروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا
بے ہیچ اس کا غصہ یارو بلاے جاں ہے
ہرگز منا نہ ہم سے بہتیرا ہی منایا
قد بلند اگرچہ بے لطف بھی نہیں ہے
سرو چمن میں لیکن انداز وہ نہ پایا
انگڑاتے خوبرو یاں حسرت سے پیش و پس ہیں
اینڈا پھرے ہے ہر سو جب اس پری کا سایا
نقشہ عجب ہے اس کا نقاش نے ازل کے
مطبوع ایسا چہرہ کوئی نہ پھر بنایا
شب کو نشے میں باہم تھی گفتگوے درہم
اس مست نے جھنکایا یعنی بہت چھکایا
دل بستگی میں کھلنا اس کا نہ اس سے دیکھا
بخت نگوں کو ہم نے سو بار آزمایا
عاشق جہاں ہوا ہے بے ڈھنگیاں ہی کی ہیں
اس میر بے خرد نے کب ڈھب سے دل لگایا
میر تقی میر

نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا

دیوان ششم غزل 1784
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا
زمانے میں مرے شور جنوں نے
قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
بلا تھی کوفت کچھ سوز جگر سے
ہمیں تو کوٹ کوٹ ان نے جلایا
تمامی عمر جس کی جستجو کی
اسے پاس اپنے اک دم بھی نہ پایا
نہ تھی بیگانگی معلوم اس کی
نہ سمجھے ہم اسی سے دل لگایا
قریب دیر خضر آیا تھا لیکن
ہمیں رستہ نہ کعبے کا بتایا
حق صحبت نہ طیروں کو رہا یاد
کوئی دو پھول اسیروں تک نہ لایا
غرور حسن اس کا دس گنا ہے
ہمارا عشق اسے کن نے جتایا
عجب نقشہ ہے نقاش ازل نے
کوئی ایسا نہ چہرہ پھر بنایا
علاقہ میر تھا خنجر سے اس کے
ندان اپنا گلا ہم نے کٹایا
میر تقی میر

ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے

دیوان پنجم غزل 1746
عہد جنوں ہے موسم گل کا اور شگوفہ لایا ہے
ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے
سن کر میرے شور شب کو جھنجھلا کر وہ کہنے لگا
نالے اس کے فلک تک پہنچے کن نے اس کو ستایا ہے
دکھن اتر پورب پچھم ہنگامہ ہے سب جاگہ
اودھم میرے حرف و سخن نے چاروں اور مچایا ہے
بے چشم و رو ہو بیٹھے ہو وجہ نہیں ہے ظاہر کچھ
کام کی صورت بگڑی ہماری منھ کیوں تم نے بنایا ہے
ظلم و ستم سب سہل ہیں اس کے ہم سے اٹھتے ہیں کہ نہیں
لوگ جو پرسش حال کریں ہیں جی تو انھوں نے کھایا ہے
ہو کے فقیر تو واں بیٹھے ہیں رہتے ہیں اشراف جہاں
ہم نے توکل بحت کیا ہے نام خدا سرمایہ ہے
برسوں ہم درویش رہے ہیں پردے میں دنیاداری کے
ناموس اس کی کیونکے رہے یہ پردہ جن نے اٹھایا ہے
ڈھونڈ نکالا تھا جو اسے سو آپ کو بھی ہم کھو بیٹھے
جیسا نہال لگایا ہم نے ویسا ہی پھل پایا ہے
میر غریب سے کیا ہو معارض گوشے میں اس وادی کے
ایک دیا سا بجھتا ان نے داغ جگر پہ جلایا ہے
میر تقی میر

مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث

دیوان پنجم غزل 1588
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث
مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث
دیکھ کر اس کو کھڑے سوجی سے ہم عاشق ہوئے
بیٹھے بیٹھے ناگہاں یہ رنج اٹھایا ہے عبث
اپنی تو بگڑی ہی کوئی کام کی صورت نہیں
ان نے بے لطفی سے منھ اچھا بنایا ہے عبث
جی کے جاتے وہ جو نو خط آتا تو بابت بھی تھی
لطف کر مردے پہ عاشق کے اب آیا ہے عبث
تب تو خانہ باغ سے اپنے نہ پوچھی بات بھی
کیا جو تربت پر مری اب پھول لایا ہے عبث
رات دن سنتا ہے نالے یوں نہیں کہتا کبھو
میر دل آزردہ کو کن نے ستایا ہے عبث
میر تقی میر

مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت

دیوان سوم غزل 1111
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت
بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت
وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار
دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت
وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا
ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت
میر گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت
میر تقی میر

کبریت نمط جن نے لیا مجھ کو جلایا

دیوان سوم غزل 1085
مجھ زار نے کیا گرمی بازار سے پایا
کبریت نمط جن نے لیا مجھ کو جلایا
بیتاب تہ تیغ ستم دیر رہا میں
جب تک نہ گئی جان مجھے صبر نہ آیا
جانا فلک دوں نے کہ سرسبز ہوا میں
گر خاک سے سبزہ کوئی پژمردہ اگایا
اس رخ نے بہت صورتیں لوگوں کی بگاڑیں
اس قد نے قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
مت راہ سخن دے کہ پھر آپھی تو کہے گا
کیوں میں نے محبت کے عبث منھ کو کھلایا
ہر چند کہ تھی ریجھنے کی جاے ترے لب
پر گالیاں دیں اتنی انھوں سے کہ رجھایا
گردش میں رہا کرتے ہیں ہم دید میں ان کی
آنکھوں نے تری خوب سماں ہم کو دکھایا
کس روز یہ اندوہ جگر سوز تھا آگے
کب شب لب و یارب تھی مری یوں ہی خدایا
دن جی کے الجھنے کے ہی جھگڑے میں کٹے ہے
رات اس کے خیالات سے رہتے ہیں قضایا
کیا کہیے دماغ اس کا کہ گل گشت میں کل میر
گل شاخوں سے جھک آئے تھے پر منھ نہ لگایا
میر تقی میر

بہت ان نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں

دیوان دوم غزل 902
محبت نے کھویا کھپایا ہمیں
بہت ان نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں
پھرا کرتے ہیں دھوپ میں جلتے ہم
ہوا ہے کہے تو کہ سایہ ہمیں
گہے تر رہیں گاہ خوں بستہ تھیں
ان آنکھوں نے کیا کیا دکھایا ہمیں
بٹھا اس کی خاطر میں نقش وفا
نہیں تو اٹھالے خدایا ہمیں
ملے ڈالے ہے دل کوئی عشق میں
یہ کیا روگ یارب لگایا ہمیں
ہوئی اس گلی میں تو مٹی عزیز
ولے خواریوں سے اٹھایا ہمیں
جوانی دوانی سنا کیا نہیں
حسینوں کا ملنا ہی بھایا ہمیں
نہ سمجھی گئی دشمنی عشق کی
بہت دوستوں نے جتایا ہمیں
کوئی دم کل آئے تھے مجلس میں میر
بہت اس غزل پر رلایا ہمیں
میر تقی میر

سو سو کہیں تونے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں

دیوان دوم غزل 897
اے مجھ سے تجھ کو سو ملے تجھ سا نہ پایا ایک میں
سو سو کہیں تونے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں
عالم کی میں نے سیر کی مجھ کو جو خوش آیا سو تو
سب سے رہا محظوظ تو تجھ کو نہ بھایا ایک میں
یہ جوش غم ہوتے بھی ہیں یوں ابرتر روتے بھی ہیں
چشم جہاں آشوب سے دریا بہایا ایک میں
تھا سب کو دعویٰ عشق کا لیکن نہ ٹھہرا کوئی بھی
دانستہ اپنی جان سے دل کو اٹھایا ایک میں
ہیں طالب صورت سبھی مجھ پر ستم کیوں اس قدر
کیا مجرم عشق بتاں یاں ہوں خدایا ایک میں
بجلی سے یوں چمکے بہت پر بات کہتے ہوچکے
جوں ابر ساری خلق پر ہوں اب تو چھایا ایک میں
سو رنگ وہ ظاہر ہوا کوئی نہ جاگہ سے گیا
دل کو جو میرے چوٹ تھی طاقت نہ لایا ایک میں
اس گلستاں سے منفعت یوں تو ہزاروں کو ہوئی
دیکھا نہ سرو و گل کا یاں ٹک سر پہ سایہ ایک میں
رسم کہن ہے دوستی ہوتی بھی ہے الفت بہم
میں کشتنی ٹھہرا جو ہوں کیا دل لگایا ایک میں
جن جن نے دیکھا تھا اسے بے خود ہوا چیتا بھی پھر
پر میر جیتے جی بخود ہرگز نہ آیا ایک میں
میر تقی میر

یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا

دیوان دوم غزل 764
یہ چوٹ کھائی ایسی دل پر کہ جی گنوایا
یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا
مدت میں وہ ہوا شب ہم بستر آ کے میرا
خوابیدہ طالعوں نے اک خواب سا دکھایا
الجھائو پڑ گیا سو سلجھی نہ اپنی اس کی
جھگڑے رہے بہت سے گذرے بہت قضایا
آئینہ رو ہمارا آیا نہ نزع میں بھی
وقت اخیر ان نے کیا خوب منھ چھپایا
اس بے مروتی کو کیا کہتے ہیں بتائو
ہم مارے بھی گئے پر وہ نعش پر نہ آیا
وہ روے خوب اب کے ہرگز گیا نہ دل سے
جب گل کھلا چمن میں تب داغ ہم نے کھایا
خلطہ ہمارا اس کا حیرت ہی کی جگہ ہے
ڈھونڈا جہاں ہم اس کو واں آپ کو ہی پایا
طرز نگہ سے اس کی بے ہوش کیا ہوں میں ہی
ان مست انکھڑیوں نے بہتیروں کو سلایا
آنکھیں کھلیں تو دیکھا جو کچھ نہ دیکھنا تھا
خواب عدم سے ہم کو کاہے کے تیں جگایا
باقی نہیں رہا کچھ گھٹتے ہی گھٹتے ہم میں
بیماری دلی نے چنگا بہت بنایا
تونے کہ پائوں دل سے باہر نہیں رکھا ہے
عیارپن یہ کن نے تیرے تئیں سکھایا
کس دن ملائمت کی اس بت نے میر ہم سے
سختی کھنچے نہ کیونکر پتھر سے دل لگایا
میر تقی میر

اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا

دیوان دوم غزل 723
سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا
اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا
جی دے کے لیتے ایسے معشوق بے بدل کو
یوسفؑ عزیز دلہا سستا بہت بکایا
زلف سیاہ اس کی جاتی نہیں نظر سے
اس چشم رو سیہ نے روز سیہ دکھایا
نام اس کا سن کے آنسو گر ہی پڑے پلک سے
دل کا لگائو یارو چھپتا نہیں چھپایا
تھا لطف زیست جن سے وے اب نہیں میسر
مدت ہوئی کہ ہم نے جینے سے ہاتھ اٹھایا
مہندی لگی تھی تیرے پائوں میں کیا پیارے
ہنگام خون عاشق سر پر جو تو نہ آیا
یہ پیروی کسو سے کاہے کو ہوسکے ہے
رکھتا ہے داغ ہم کو قامت کا اس کی سایا
دیکھی نہ پیش جاتے ہرگز خردوری میں
دانستہ بائولا ہم اپنے تئیں بنایا
رہتی تھی بے دماغی اک شور ما و من میں
آنکھوں کے مند گئے پر آرام سا تو پایا
گل پھول سے بھی تو جو لیتا ہے منھ کو پھیرے
مکھڑے سے کس کے تونے اے میر دل لگایا
میر تقی میر

یا تن آدمی میں دل نہ بنایا ہوتا

دیوان دوم غزل 719
عشق کو بیچ میں یارب تو نہ لایا ہوتا
یا تن آدمی میں دل نہ بنایا ہوتا
دل نہ تھا ایسی جگہ جس کی نہ سدھ لیجے کبھو
اجڑی اس بستی کو پھر تونے بسایا ہوتا
عزت اسلام کی کچھ رکھ لی خدا نے ورنہ
زلف نے تیری تو زنار بندھایا ہوتا
گھر کے آگے سے ترے نعش گئی عاشق کی
اپنے دروازے تلک تو بھی تو آیا ہوتا
جو ہے سو بے خود رفتار ہے تیرا اے شوخ
اس روش سے نہ قدم تونے اٹھایا ہوتا
اب تو صد چند ستم کرنے لگے تم اے کاش
عشق اپنا نہ تمھیں میں نے جتایا ہوتا
دل سے خوش طرح مکاں پھر بھی کہیں بنتے ہیں
اس عمارت کو ٹک اک دیکھ کے ڈھایا ہوتا
دل پہ رکھتا ہوں کبھو سر سے کبھو ماروں ہوں
ہاتھ پائوں کو نہ میں تیرے لگایا ہوتا
کم کم اٹھتا وہ نقاب آہ کہ طاقت رہتی
کاش یک بار ہمیں منھ نہ دکھایا ہوتا
میر اظہار محبت میں گیا جی نہ ترا
ہائے نادان بہت تونے چھپایا ہوتا
میر تقی میر

اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے

دیوان اول غزل 610
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے
حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی
سر پہ دیکھا نہ گل و سرو کا سایہ ہم نے
جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ لیکن
بسترا خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے
بعدیک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا
ڈرتے ڈرتے ہی کچھ احوال سنایا ہم نے
یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ بھی تماشا سا دکھایا ہم نے
بارے کل باغ میں جا مرغ چمن سے مل کر
خوبی گل کا مزہ خوب اڑایا ہم نے
تازگی داغ کی ہر شام کو بے ہیچ نہیں
آہ کیا جانے دیا کس کا بجھایا ہم نے
دشت و کہسار میں سر مار کے چندے تجھ بن
قیس و فرہاد کو پھر یاد دلایا ہم نے
بے کلی سے دل بیتاب کی مر گذرے تھے
سو تہ خاک بھی آرام نہ پایا ہم نے
یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میر
دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے
میر تقی میر

اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

دیوان اول غزل 65
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا
کاو کاو مژئہ یار و دل زار و نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا
وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا
گرم رو راہ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا
پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا
خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا
آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا
مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تاصبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا
زیر شمشیر ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا
میر تقی میر

یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا

دیوان اول غزل 50
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا
ان نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار
میں نے اسے ہزار جتایا تو کیا ہوا
خواہاں نہیں وہ کیوں ہی میں اپنی طرف سے یوں
دل دے کے اس کے ہاتھ بکایا تو کیا ہوا
اب سعی کر سپہر کہ میرے موئے گئے
اس کا مزاج مہر پہ آیا تو کیا ہوا
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
میں صید ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد
ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا
کیا کیا دعائیں مانگی ہیں خلوت میں شیخ یوں
ظاہر جہاں سے ہاتھ اٹھایا تو کیا ہوا
وہ فکر کر کہ چاک جگر پاوے التیام
ناصح جو تونے جامہ سلایا تو کیا ہوا
جیتے تو میر ان نے مجھے داغ ہی رکھا
پھر گور پر چراغ جلایا تو کیا ہوا
میر تقی میر

اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

دیوان اول غزل 48
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
ہم کشتگان عشق ہیں ابرو و چشم یار
سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا
ہم رہرو ان راہ فنا ہیں برنگ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
اپنے شہید ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر
دیوان حشر میں اسے لایا نہ جائے گا
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا
گو بے ستوں کو ٹال دے آگے سے کوہکن
سنگ گران عشق اٹھایا نہ جائے گا
ہم تو گئے تھے شیخ کو انسان بوجھ کر
پر اب سے خانقاہ میں جایا نہ جائے گا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
میر تقی میر

اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا

دیوان اول غزل 24
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
اس دل نے ہم کو آخر یوں خاک میں ملایا
اس گل زمیں سے اب تک اگتے ہیں سرو مائل
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
یکساں ہے قتل گہ اور اس کی گلی تو مجھ کو
واں خاک میں میں لوٹا یاں لوہو میں نہایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تا چرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اٹھایا
تیرا ہی منھ تکے ہے کیا جانیے کہ نوخط
کیا باغ سبز تونے آئینے کو دکھایا
شادابی و لطافت ہرگز ہوئی نہ اس میں
تیری مسوں پہ گرچہ سبزے نے زہر کھایا
آخر کو مر گئے ہیں اس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بساہا جی کو کہاں لگایا
کہہ ہیچ اس کے منھ کو جی میں ڈرا یہاں تو
بارے وہ شوخ اپنی خاطر میں کچھ نہ لایا
ہونا تھا مجلس آرا گر غیر کا تجھے تو
مانند شمع مجھ کو کاہے کے تیں جلایا
تھی یہ کہاں کی یاری آئینہ رو کہ تونے
دیکھا جو میر کو تو بے ہیچ منھ بنایا
میر تقی میر

پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 58
دنیا کے راستے پہ لگایا نہ جا سکا
پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا
وُہ پیاس تھی کہ بات گلے میں اٹک گئی
خوابِشبِ گناہ سنایا نہ جا سکا
ظلمت تو آشکار ہوئی کشفِ نور سے
پر روشنی کا پردہ اٹھایا نہ جا سکا
سورج سفر میں ساتھ تھا نصف النہار پر
میری جلو میں خود مرا سایہ نہ جا سکا
یہ جبر کا نظام، یہ خود رو مجسمہ
ڈھایا گیا مگر کبھی ڈھایا نہ جا سکا
اک چوبِ نم گرفتہ سلگتی رہی مدام
سینے میں جشنِ شعلہ جگایا نہ جا سکا
بے نام سا گزر گیا خود اپنی اوٹ میں
وُہ کون تھا، اُسے کبھی پایا نہ جا سکا
آفتاب اقبال شمیم

اکھ بی مینڈھی پھڑکی نویں، تے کاگ بی خبر لیایا نئیں

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 86
کیہ آکھاں اوہ آوندا ہوسی، ہن توڑیں تے آیا نئیں
اکھ بی مینڈھی پھڑکی نویں، تے کاگ بی خبر لیایا نئیں
آٹا گُنھدی دا آٹا بی، اُچھلیا نئیں پراتاں چوں
خط پتر بی اُس کملے دا، ڈاکیے آن تھمایا نئیں
چُونڈھی وڈھ کے دس توں مانھ، میں کیہڑے ویہن چ ویہہ گئی آں
نیزہ نیزہ دیہوں چڑھ آیا، رِڑکا بی میں پایا نئیں
آپ ائی میں، اِس بُھگے رُکھ دے تھلّے، ڈیرا لاگھِدا
پریتاں دا پرچھانواں ٹُرکے، کول کسے دے آیا نئیں
مینڈھی حرص دے کُتے تے، کَھورُو کھٹدے ائی رہ گئے نیں
دل دے باز نیانے ائی، کوئی جھاڑیوں ساہ اٹھایا نئیں
کتھے تے ونج وَجنا اہیا، چُھٹیا تیر کماناں چوں
وچ کھبانی وٹا رکھ کے، آپ ائی تُدھ پِھرایا نئیں
خبرے کتھوں آ گئی ماجد، اکھیاں وچ رَتینجن جیہی
نظراں ساہمنے تے، کوئی سُوہا بھوچھن بی، لہرایا نئیں
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)