ٹیگ کے محفوظات: اٹھانے

تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے

غمِ دل سنانے کو جی چاہتا ہے
تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے
یہ میں کس کا نقشِ قدم دیکھتا ہوں
یہ کیوں سر جُھکانے کو جی چاہتا ہے
سُلوکِ زمانہ سے تنگ آگیا ہوں
بیاباں بسانے کو جی چاہتا ہے
غمِ زندگانی سے اُکتا گیا ہوں
مگر غم اٹھانے کو جی چاہتا ہے
کسی فتنہ خُو کی تمنّا تو دیکھو
مجھے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جبیں ہی رہے یا ترا سنگِ در ہی
جنوں آزمانے کو جی چاہتا ہے
شکیبؔ، اس طرح کچھ قفس راس آیا
کہ گلشن جلانے کو جی چاہتا ہے
شکیب جلالی

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دِکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے اِدھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دِیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی

چیتے مل کر خون سے پیاس بُجھانے نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
رم خوردہ ہرنوں کو راہ پر لانے نکلے
چیتے مل کر خون سے پیاس بُجھانے نکلے
اَب کے ستمگر ، کھوپڑیوں سے ہوں جو مرصّع
اُن میناروں کی بنیاد اُٹھانے نکلے
وہ کہ بہت نازاں تھے مہذّب ہونے پر جو
ہوّے بن کر خلق کو ہیں دہلانے نکلے
یکجا کر کے جتنے کھلونے تھے بارودی
بالغ بچّے ، الٹا کھیل رچانے نکلے
ہم نے جلائے شہروں شہروں جن کے پُتلے
وہ جسموں کی تازہ فصل جلانے نکلے
ہم جانے کس بِرتے پر نم آنکھیں لے کر
سنگ دلوں کو ماجد موم بنانے نکلے
ماجد صدیقی

کسی بھی شاخ پہ کونپل کوئی نہ آنے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 114
جو دل میں پیڑ کے ہے تا بہ لب نہ لانے دے
کسی بھی شاخ پہ کونپل کوئی نہ آنے دے
کہ تنگ آ کے ترے منہ پہ تھُوک دوں میں بھی
مجھے نہ اِتنی اذّیت بھی اے زمانے! دے
دیا ہے جسم جِسے تابِ ضرب دے اُس کو
کماں ہے ہاتھ میں جس کے اُسے نشانے دے
نہ جھاڑ گردِ الم تُو کسی کے دامن پر
جو بوجھ جسم پہ ہے جسم کو اُٹھانے دے
ضمیرِ سادہ منش! وہ کہ مکر پر ہے تُلا
ہمیں بھی ہاتھ اُسے کچھ نہ کچھ دکھانے دے
ہوا کا خُبت ہے کیا؟ یہ بھی دیکھ لوں ماجد!ؔ
کوئی چراغ سرِ راہ بھی جلانے دے
ماجد صدیقی

کوئی موسم ہو مرا دل ہی دکھانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 134
برگ و گل نوچنے، اثمار گرانے آئے
کوئی موسم ہو مرا دل ہی دکھانے آئے
کچھ بتانے سے اگر بادِصبا عاری ہے
بادِ صرصر ہی سماعت کو جلانے آئے
جس پہ جاں وارنے والا ہے زمانہ سارا
وُہ ہم ایسوں کے کہاں ناز اُٹھانے آئے
نام لکھتے تھے سرِ لوحِ شجر جب اُس کا
لوٹ کر پھر نہ وُہ نادان زمانے آئے
آس بھی دشت میں بس ٹُنڈ شجر ہی نکلی
اوٹ میں جس کی بدن ہم تھے چھپانے آئے
کیا کہوں اُن کی نظر بھی تو مرے رخت پہ تھی
تھے بھنور سے جو مری جان بچانے آئے
کر گئے اور ہرے زخم، قفس میں ماجدؔ!
جتنے جھونکے مرا اندوہ گھٹانے آئے
ماجد صدیقی

ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
ہاں وُہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وُہ زمانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظرتاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
ضرب کس ہاتھ کی جانے یہ پڑی ہے اِن پر
چُور ہیں لُطف کے سب آئنہ خانے میرے
اُس نے تو آگ دکھا کر مجھے پُوچھا بھی نہ پھر
آیا ہوتا وہ الاؤ ہی بجھانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
ماجد صدیقی

کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
بہار ہے کہ خزاں، دَور کیا یہ آنے لگا
کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا
جڑیں تو کاٹ ہی دی ہیں بہ قحطِ آب مری
اب ایک ضرب بھی مجھ کو کسی بہانے لگا
لیا ہے نوچ بدن سے جو پیرہن میرا
ہوائے تُند مجھے بھی تو اب ٹھکانے لگا
کُھلا نہیں کہ تھا مقصود اِس سے کیا اُس کا
مجھے دکھا کے کبوتر وہ کیوں اُڑانے لگا
یہ کس ریاض کا فیضان ہے کہ اے ماجدؔ
قلم ترا ہے کرشمے نئے دکھانے لگا
ماجد صدیقی

بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 112
سرخیاں کیا ڈھونڈ کر لاؤں فسانے کے لئے
بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے
موجیں ساحل سے ہٹاتیں ہیں حبابوں کا ہجوم
وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لئے
سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری
تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لئے
چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے
دشت کی بیٹھی بٹھائی خاک اڑانے کے لئے
ہنس کر کہتے ہو زمانہ بھر مجھی پہ جان دے
رہ گئے ہو کیا تمھیں سارے زمانے کے لئے
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤ کو کھل دو سورج چھپانے کے لئے
کائناتِ عشق اک دل کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ ہی آنے کے لئے ہے وہ ہی جانے کے لئے
اے زمانے بھر کو خوشیاں دینے والے یہ بتا
کیا قمر ہی رہ گیا ہے غم اٹھانے کے لئے
قمر جلالوی

شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 123
ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں
شہر کوچوں میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اس کے وعدوں کو بھلانے کے لیے نکلے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت معصوم ہے
ہم تو اوروں کو منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں شورہے، وہ یوں کہ گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لیے نکلے ہیں
وہ جو تھے شہر تحیر ترے پر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لیے نکلے ہیں
راہگزر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں
سر شب اک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اٹھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے روداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں
جون ایلیا

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 193
غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی
انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
لکد کوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
مرزا اسد اللہ خان غالب

خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی

دیوان سوم غزل 1299
کہو کچھ میر کی وحشت سے ان گلیوں میں آنے کی
خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی
جہاں سے دل کو دیکھو منھ نظر جوں کان طلق آوے
نہ کی کچھ قدر اس نے حیف اس آئینہ خانے کی
ہمیں لیتے ہو آنکھیں موند کر لو تم کہ جنس اپنی
وفا و مہر ہے سو وہ نہیں بابت دکھانے کی
کہو ہو زیرلب کیا دیکھ کر ہم ناتوانوں کو
ہماری جان میں طاقت نہیں باتیں اٹھانے کی
برنگ طائر نوپر ہوئے آوارہ ہم اٹھ کر
کہ پھر پائی نہ ہم نے راہ اپنے آشیانے کی
عجب چوپڑ بچھی ہے ہر زماں اڑتا ہے رنگ اپنا
سمجھ میں چال کچھ آتی نہیں اپنے زمانے کی
اگر طالع کرے یاری تو مریے کربلا جا کر
عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اس آستانے کی
غزل اک اور بھی اس گل زمیں میں قصد ہے کہیے
ہوئی ہے اب تو خو آخر ہمیں باتیں بنانے کی
میر تقی میر

مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا

دیوان دوم غزل 727
کجی اس کی جو میں جتانے لگا
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا
تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں
ستم کیسے کیسے اٹھانے لگا
رندھے عشق میں کوئی یوں کب تلک
جگر آہ منھ تک تو آنے لگا
پریشاں ہیں اس وقت میں نیک و بد
موا جو کوئی وہ ٹھکانے لگا
کروں یاد اسے ہوں جو میں آپ میں
سو یاں جی ہی اب بھول جانے لگا
پس از عمر اودھر گئی تھی نگاہ
سو آنکھیں وہ مجھ کو دکھانے لگا
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میر دل کو دوانے لگا
میر تقی میر

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

دیوان اول غزل 597
کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے
تھے شہر میں اے رشک پری جتنے سیانے
سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے
ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے
پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور
پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے
مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت
اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے
ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری
شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے
ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے
لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت
رہتے ہیں ترے تیرستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھائوں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے
پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے
خاک اس کی سرراہ کی کوئی کب تئیں چھانے
کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے
آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے
مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے
کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے
آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار
ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے
گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں
اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے
میر تقی میر

اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

دیوان اول غزل 540
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گردباد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے
بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے
اک دم میں تونے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تب ہو میر کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
میر تقی میر

لوگ اپنے دئیے جلانے لگے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 231
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے کا
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی